راولاکوٹ: تعلیم کے بیوپاری پنجاب گروپ آف کالجز کی غنڈہ گردی نامنظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، راولاکوٹ|

آج سے چند روز قبل پنجاب گروپ آف کالجز، راولاکوٹ کمپس میں ایک طالبعلم کو جرمانہ نہ ادا کرنے پر جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے خلاف طلبہ نے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے تشدد کے اس غیر قانونی عمل کے خلاف آواز بلند کی۔ جس کی پاداش میں انتظامیہ نے تادیبی کاروائی کرتے ہوئے احتجاج کی فرنٹ لائن پر موجود طلبہ کو بزور طاقت ادارے سے باہر نکالتے ہوئے ادارے میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ نکالے گئے طلبہ ضلعی انتظامیہ کے پاس گئے اور اسسٹنٹ کمشنر سے ملاقات کی جس پر اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے ایک وفد کو ادارے میں بھیجا جس نے وزٹ کے دوران کالج میں تشدد کیلئے قائم کیے گئے ’ڈارک روم‘ نامی ایک کمرے سے ڈنڈے بھی برامد کیے اور معاملے کو رفع دفع کروایا مگر اس کے بعد بھی انتظامیہ نے طلبہ کو ادارے میں داخل نہ ہونے دیا اور انتہائی تضحیک آمیز رویہ اپناتے ہوئے طلبہ کو ادارے سے دور رہنے پہ مجبور کرتے رہے۔

 

طلبہ نے دوبارہ ڈپٹی کمشنر راولاکوٹ سے ملاقات کرتے ہوئے اپنا معاملہ ان کے سامنے رکھا جس پر دوبارہ معاملے کو حل کروانے کی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار طلبہ کو ایکسپل (بے دخل) کرتے ہوئے طلبہ کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا تاکہ ادارے کی ساکھ کو بچانے کے ساتھ ساتھ باقی طلبہ کو بھی سبق دیا جا سکے کہ احتجاج منظم کرنا (جو کہ طلبہ کا جمہوری و آئینی حق ہے) جرم ہے جس کی سزا ادارے سے بے دخلی ہے۔



یاد رہے کہ پنجاب گروپ آف کالجز پورے پاکستان میں تعلیم کا کاروبار کرنے والا گروپ ہے جو تعلیم کے کاروبار کرنے والے گروہوں میں ایک مافیہ کا درجہ رکھتا ہے اور لاکھوں کے حساب سے فیسیں بٹور رہا ہے اور نظم و ضبط کے نام پر ادارے کو جیل خانہ بنا کر رکھا ہوا ہے جس میں ڈارک رومز ترتیب دیے گئے ہیں جہاں طلبہ کو زد و کوب کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ بات بات پر جرمانے عائد کر کے طلبہ کی فیسوں کے علاوہ بھی لوٹ مار کا عمل جاری ہے۔ہم تمام اداروں کے طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ بے دخل کیے گئے چار طلبہ کی بحالی کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ طلبہ دشمن انتظامیہ کی تادیبی کاروائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے طلبہ کے مستقبل کو محفوظ کیا جا سکے۔

 

ہمارا شروع دن سے یہی موقف ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس لیے اپنی مرضی کرتی ہے کیونکہ اداروں میں طلبہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود ہے۔طلبہ یونین ہی وہ پلیٹ فارم ہو سکتا ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے حقوق کی جدوجہد کر سکتے ہیں اور اداروں میں اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔پروگریسو یوتھ الائنس اسی مقصد کے لیے سرگرم ہے اور آگے بھی طلبہ کے حقوق کی لڑائی میں سرگرم رہے گا۔



غنڈہ گردی نامنظور!
ایک کا دکھ سب کا دکھ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.