|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کی جانب سے 23 مارچ بھگت سنگھ کی 91 ویں برسی کے دن پر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جراٗت اور انقلابی جدوجہد کی یاد کو تازہ کرنے کے سلسلے میں بدھ کی شام حافظ جوس کارنر کے قریب انارکلی میں ”بھگت سنگھ لاہور میں: نوجوانوں کے نام، بھگت سنگھ کا پیغام“ کے نام سے ایک اوپن مائیک بیٹھک کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ اور دیگر نوجوانوں نے بھر پور شرکت کی اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی انقلابی جدوجہد اور دلیری کو سراہا اور یہ عزم کیا کہ وہ بھگت سنگھ کے نظریات اور نوجوانوں کے لیے اس کی لکھی تحریروں سے اسباق حاصل کرتے ہوئے سماج کو بدلنے اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی پارٹی تعمیر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
تقریب کے آغاز میں پروگریسو یوتھ الائنس کے رکن باسط نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جرأت اور دلیری کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے اس وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت برطانوی سرکار کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آزادی کی سیاسی جنگ لڑی اور مزید یہ بتایا کہ بھگت سنگھ کی زندگی پر ان حالات کا بڑا اثر تھا جن حالات میں وہ بڑا ہوا۔ اس کے والد اور چچا اس سے پہلے برطانوی سامراج سے آزادی کی لڑائی میں سرگرم رہ چکے تھے۔ بھگت سنگھ اس وقت بارہ برس کا تھا جب جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے مظاہرین پر فائرنگ کروا دی۔ جب بھگت سنگھ نے اس مقام پر پہنچ کر جا بجا خون میں لت پت میدان دیکھا تو اس کا آزادی کا جذبہ اور بھی بڑھ گیا اور 1919ء سے 1922ء میں عدم تعاون تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔ گاندھی جس کو اس تحریک کی قیادت حادثاتی طور پر ملی تھی نے عوام سے غداری کرتے ہوئے تحریک کی انتہا میں ”چورا چوری“ کے واقع کو جواز بنا کر تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ گاندھی نے کہا کہ کیونکہ عوام نے پولیس پر تشدد کیا ہے اور عدم تشدد کے رستے کو چھوڑ دیا ہے۔ جو ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ایک ڈھکوسلہ تھا پہلے مظاہرین کے اوپر فائرنگ کی گئی تھی اور مظاہرے میں شامل کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے اس کے ردعمل میں مظاہرین نے حملہ کیا تھا جس سے چند پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے لیکن گاندھی نے اس جھوٹے واقعے کو جواز بنا کر وسیع عوامی تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا جس کا فائدہ برطانوی حکمرانوں کو ہو۔ ا اس واقعے نے بھگت سنگھ سمیت ہزاروں نوجوانوں کے شعور پر گہرے اثرات چھوڑے۔ان پر یہ واضح ہوگیا کہ گاندھی آزادی کی تحریک کا لیڈر نہیں بلکہ غدار ہے۔ بھگت سنگھ اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوا کہ برصغیر کی آزادی ان نام نہاد آزادی کے رہنما کا مقصد نہیں اس لیے سامراج سے آزادی کے لیے درست سمت کا انتخاب کرنا ہوگا۔
باسط کا کہنا تھا کہ لاہور میں نیشنل کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے بھگت سنگھ مختلف رسالوں کے لیے لکھ رہا تھا اور اسی طرح وہ آزادی کی بحثوں میں حصہ لے رہا تھا اس اثنا میں اس کا تعارف ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن (ایک ریڈیکل انقلابی تنظیم) سے ہوا اور اس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ اپنی سیاسی پختگی اور آزادی کے جذبہ و جنون کے باعث وہ اس پارٹی کی قیادت میں شامل ہو گیا اور یہاں اس کے انقلابی نظریات بہت تیزی سے پروان چڑھنا شروع ہوئے۔ بھگت سنگھ نے 1928ء میں HRA کا نام تبدیل کر کے ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی (HSRA) رکھنے کی قرار داد ایک اجلاس میں پیش کی تو اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ HRA کا نام بدل کر HSRA رکھنا بھگت کی سوشلزکے نظریے کے اوپر یقین کی وضاحت کرتا ہے۔ اس موقع پر تقریر میں بھگت سنگھ نے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا اور واضح کیا کہ ہمارا مقصد ایسی آزادی حاصل کرنا نہیں جس کے بعد یہاں پر طبقات پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام قائم رہے بلکہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنا اور یہاں پر ایک سوشلسٹ سماج قائم کرنا بھی ہمارا اولین مقصد ہے۔ پھانسی کے تختے تک بھگت سنگھ انہی نظریات پر مضبوطی سے قائم رہا اور اس مؤقف سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
اس کے بعد ایف سی یونیورسٹی کے طالبعلم شالوم نے اپنی لکھی انقلابی شاعری سنائی اور کہا کہ بھگت سنگھ برصغیر کے ایک انقلابی رہنما تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی انقلاب اور عوام کی آزادی کے لیے وقف کر دی۔ مزید کہا کہ بھگت سنگھ ایک سوشلسٹ کیڈر تھا جو مارکس کے سائنسی نظریات پر یقین رکھتے ہوئے سماج میں موجود طبقاتی تفریق کے خاتمے کی بات کرتا تھا۔ اس نے کہا کے بھگت سنگھ یہ خونی بٹوارا بالکل بھی نہیں چاہتا تھا جس کے بعد گورے سرمایہ داروں کی جگہ کالے(بھورے) سرمایہ دار لوگوں کا استحصال اور ان پر جبر و تشدد کریں بلکہ وہ سماج کو سرمایہ داری کی غلاظت سے چھٹکارا دلوانا چاہتا تھا۔
اس کے بعد شاعری اور موسیقی کے سیشن کا آغاز کیا گیا۔ جس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے رکن ساحر اور اس کے ساتھ دوسرے ساتھیوں فیض احمد فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے“ گا کر سنائی۔ اس کے بعد بھگت کی شہادت کو نظرانہ پیش کرتے ہوئے ”اے بھگت سنگھ تو زندہ ہے“ گیت گایا۔ نوجوان ساحر کے گٹار اور شرکاء کی تالیوں کی گونج نے محفل کو رونق بخشی۔ نمل یونیورسٹی کے طالب علم اجمل نے انقلابی گیت سے شرکاء کو لبھایا۔مزید براں نوجوان وقفے وقفے سے جذبے سے بھرپور انقلابی نعرے لگاتے رہے اور یوں یہ تقریب اپنے اختتامی مراحل کی جانب رواں ہوئی۔
پروگرام کے اختتام پر لال سلام کے مرکزی رہنما آدم پال نے کہا کہ بھگت سنگھ نے اپنی تمام عمر سامراج سے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک مقام پر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیاسی میٹنگیں کرتا تھا۔ ہندستان رپبلکن ایسوسی ایشن میں شمولیت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مکمل آزادی اس طبقاتی نظام سرمایہ داری سے نجات حاصل کرنے سے ہی ممکن ہے اس کے لیے اس نے اپنی پوری زندگی وقف کردی اور ایک انقلابی پیشہ ور کے طور پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور نظریات کی درستگی پر زور دیا۔ بھگت سنگھ کو جب پھانسی دینے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو وہ لینن کی کتاب ”ریاست اور انقلاب“ پڑھ رہا تھا اور جیل خانے سے لے کر پھانسی گھاٹ تک وہ اور اس کے ساتھی گانا گاتے ہو ئے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے جا رہے تھے اور پھانسی کے پھندے کو چومتے ہوئے ہنستے ہنستے موت کو گلے لگا لیا، ایسی دلیری اور جرت صرف نظریات کی پختگی سے ہی ممکن ہے۔ بھگت سنگھ کے نظریات ہی تھے جو اسے عوام دشمن کانگریس کے رہنما نہرو اور گاندھی اور اس وقت کی کمیونسٹ پارٹی کے زوال پزیر سٹالنسٹ نظریات سے مختلف اور نمایاں بناتے ہیں۔
بھگت سنگھ جب لاہور سینٹرل جیل میں تھا تو وہ لینن اور اینگلز کی تحریریں پڑھتا رہا اور نوجوانوں کیلئے مختلف تحاریر بھی لکھی جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں خصوصی طور پہ ”نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام“ لکھا گیا خط بہت اہم ہے۔ جس میں اس نے نوجوانوں کو پیشہ ور انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ انقلابی پارٹی تشکیل دینے کی تجویز کی جو مستقبل میں انقلاب برپا کرنے کے قابل ہو ایک ایسی پارٹی جو نظریات کی پختگی رکھتی ہو۔ اس کی تعمیر میں وقت تو لگے گا اور ہم آپ کو پروگریسیو یوتھ الائنس جوائن کرنے کی دعوت دیتے ہیں جو ایسی ہی مضبوط اور سوشلسٹ انقلابی نظریات پر مبنی پارٹی کی تعمیر کر نے جا رہا ہے جس کا مقصد سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے۔
بھگت سنگھ۔۔زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب۔۔زندہ باد!