ملتان: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

30 جون 2019 کو ملتان میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام ایک روزہ ایریا مارکسی اسکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول ایک سیشن پر مشتمل تھا جس کا عنوان جدلیاتی مادیت (مارکسزم کا فلسفہ) تھا۔ اس سیشن کو چیئر وقاص سیال نے کیا جبکہ اس عنوان پر تفصیلی بات راول خان نے کی۔ سکول میں 20 کے قریب نوجوان اور محنت کش شامل تھے۔ سکول کا آغاز شام 6 بجے ہوا۔

بات کا آغاز کرتے ہوئے راول نے بتایا کہ مارکسزم کے تین اجزاء ترکیبی ہیں جن پر مارکسز م اپنی بنیاد رکھتا ہے، جن میں مارکسی فلسفہ’جدلیاتی مادیت‘، تاریخی مادیت اور مارکسی معیشت شامل ہیں۔

جدلیاتی مادیت نہ تو کوئی جادوئی چھڑی ہے جس کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے اور نہ ہی کوئی افسانہ، بلکہ سادہ الفاظ میں یہ قدرت، سماج اور شعور کے ارتقاء کے عمومی قوانین کو وضع کرتی ہے۔

ہر انسان کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ہوتا ہے جو اس کے سماجی وجود اور رائج الوقت نظام کے زیر اثر پروان چڑھتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اگر ہم فلسفہ پر بات کر رہے ہیں تو اس بات کا ادراک ہو کہ ہم کس فلسفے کے زیراثر زندگی گزار رہے ہیں تاکہ متبادل فلسفوں کو ہم بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ ارسطو نے آج سے دو ہزار سال پہلے ’سوچ کے قوانین‘ بیان کئے۔ ارسطو کے طریقہ کار کو ’رسمی منطق (formal logic)‘بھی کہا جاتا ہے۔ راول نے رسمی منطق کے تین بنیادی قوانین کو واضح کیا۔ اسکے بعد مادیت پرستی (materialism) اور عینیت پرستی (idealism) میں فرق کو واضح کیا۔

اس کے بعد جدلیاتی مادیت پر بات کرتے ہوئے راول نے بتایا کہ جدلیات اور مادیت دونوں ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں۔ مارکس سے پہلے ہیگل نے جدلیات کے بنیادی قوانین واضح کیے تھے مگرحتمی طور پر ہیگل عینیت پرستی کے زیراثر ہونے کی وجہ سے جدلیات کو انقلابی فلسفے کی شکل نہیں دے سکا یہ کام مارکس نے کیا جب مارکس نے ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جدلیات کو عینیت پرستی سے نکال کر مادیت کے ساتھ جوڑ ا۔ اسی کی بنیاد پر مارکس تاریخ اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنت، ارتقا اور تضادات کو تفصیل کیساتھ بیان کرنے میں کامیاب ہو پایا۔

فریڈرک اینگلز نے ’قدرت کی جدلیات‘ نامی کتاب میں جدلیات کے تین قوانین بیان کئے تھے جن میں ’معیار کی مقدار میں اور مقدار کی معیار میں تبدیلی‘، ’زدین کا باہمی اتفاق اور آپسی تبادلہ‘ اور ’نفی کی نفی‘ شامل ہیں۔ ان تینوں قوانین کو اینگلز نے مختلف مثالوں کے ذریعے واضح کیا۔ اینگلز نے سائنس اور انسانی سماج سے ان قوانین کی مثالیں پیش کیں۔

اسکے بعد سوالات کے سلسلے کا آغا ہوا۔ سوالات کی روشنی میں دیگر مقررین نے بھی بحث میں حصہ لیا جن میں عمر فاروق اور فضیل اصغر شامل تھے۔

کامریڈ عمر فاروق نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہر چیز مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور جدلیات اس تبدیلی کے عمل کو جاننے کی سائنس۔ اسکے بعد کامریڈ فضیل اصغر نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ارسطو کے رسمی منطق کے قوانین کی محدودیت بیان کی اور اس کے ساتھ ساتھ ’جوہر اور ظاہریت (Appearance and Essence)‘ پر بات کرتے ہوئے سماجی تبدیلیوں کی بنیادوں اور حرکیات کو واضح کیا۔ آخرمیں کامریڈ راول نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے تمام تر بحث کو سمیٹا۔

One Comment

  1. Pingback: Progressive Youth Alliance – ملتان: ”دوسرے“ ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.