گلگت: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گلگت بلتستان|

15 نومبر 2022 ء منگل کے روز پروگریسو یوتھ الائنس، گلگت بلتستان کی طرف سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے قریب واقع قراقرم کیفے پر ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع ”پاکستان تناظر“ تھا اور دوسرے سیشن میں ”نظامِ تعلیم“ پر تفصیلی بحث کی گئی۔ قراقرم یونیورسٹی کے طلبا وطالبات اور دیگر نوجوانوں نے اس سکول میں بھرپور شرکت کی اور بحث میں بھرپور حصہ لیا۔

پہلا سیشن

پاکستان تناظر

اس سیشن کے نظامت کے فرائض حیدر علی تاج نے ادا کیے۔ موضوع پر تفصیل گفتگو، کتاب ”سی پیک، ترقی یا سراب کے“ مصنف اور عالمی مارکسی رجحان کے پاکستان سیکشن لال سلام کے مرکزی رہنما آدم پال نے کی۔

موضوع پر بات کرتے ہوئے آدم پال کا کہنا تھا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام تاریخی زوال کا شکار ہے جس کے سبب محنت کش عوام مہنگائی، بیروزگاری، معاشرتی بیگانگنی، اور لاعلاجی کے آسیب میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس دور میں سب جماعتیں وہ چاہیں مذ ہبی ہوں، قوم پرست ہوں یا اصلاح پسند بائیں بازوں سے تعلق رکھتی ہوں، سب کی سب سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کی بات کرتی ہیں۔ مگر آج سرمایہ داری جس دور سے گزر رہا ہے وہ اپنے نامیاتی زوال کا شکار ہے جس میں اصلاحات کی سکت ختم ہوچکی ہے۔ آج مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی، بے گھری، فاقہ کشی اور دیگر بنیادی نوعیت کے مسائل صرف پاکستان کے مسائل نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت انتشار کا شکارر ہے اور پوری دنیا میں کسی سیاسی پارٹی یا کسی معشت دان کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت عربوں لوگ ان مسائل سے شدید پریشان ہیں اور ان کے حل کیلیے ایک متبادل کی تلاش میں ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کو بدل دینا چاہتے ہیں لیکن کوئی ان کی امنگوں کی ترجمانی کرنے والا نہیں ہے اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ روسی بالشویک طرز کی مارکسی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جائے تاکہ اس ظلم و جبر پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر پھینکا جائے اور ایک سوشلسٹ سماج قائم کیا جائے۔

آدم پال کی تفصیلی گفتگو کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کے سرگرم کارکن احسان علی ایڈووکیٹ نے بحث میں حصہ لیا۔ احسان علی نے پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے مگر تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے اپنی آپسی لڑائی میں لگے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے مگر عوام کی کسی کو فکر نہیں ہے، یہ سب اپنی اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ عوام ان تمام پارٹیوں پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور اب وہ سب کچھ سمجھ رہے ہیں اور سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔جلد یا بدیر عوام ان تمام مسائل کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے اور ان کے ہاتھ ان تمام سیاست دانوں کے گریبانوں میں ہوں گے۔ اس لیے ہمیں ایک ایسی انقلابی پارٹی تشکیل دینی ہے عوامی تحریکوں کو ایک سیاسی متبادل پیش کرے۔

اس دوران شرکاء کی طرف سے سوالات بھی کیے گئے، آدم پال نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اور ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔

دوسرا سیشن

نظامِ تعلیم

اس سیشن کے نظامت کے فرائض عاطف رضا نے ادا کیے۔ موضوع پر تفصیلی بات پی وائی اے کے سرگرم کارکن عرفان کاظمی نے کی۔

عرفان کاظمی نے نظامِ تعلیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مروجہ تعلیمی نظام کا مقصد نوجوانوں کو علم و ہنر سکھا نا نہیں ہے بلکہ نوجوانوں کو شعوری عمل سے کاٹنے کے لیے ان کے اندر طرح طرح کے نظریات انڈیل کر ان کا مقصد حیات صرف زر کی تقلید پر معمور کروانا ہے۔ اس سماج میں ہر چیز موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر ہے اور تعلیم کا شعبہ بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ ساری سرمایہ داران منڈی کی نفسیات اس میں بھی شامل ہیں۔ یہ تعلیمی نظام ایک طبقاتی نظامِ تعلیم ہے۔ امیروں کیلیے الگ تعلیم اور محنت کشوں کیلیے الگ۔ آج تعلیم بھی ایک کاروبار بن کر رہ ہ گئی ہے۔ تعلیم اداروں کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا نہیں ہے بلکہ پیسہ کمانا ہے۔ اس لیے آبادی کی اکثریت کیلیے اچھی تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بن گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کا کردار بڑی دکانوں کی طرح ہے جہاں پیسے دو اور ڈگری لو۔ اور لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی نوجوان نوکریوں کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے تعلیم کو سرمایہ داری کی گرفت سے آزاد نہیں کرایا جاسکتا۔ اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک سوشلسٹ سماج قائم کرنا آج ہر نوجوان کا فرض بن چکا ہے۔تاکہ تعلیم کو کاروبار سے الگ کرتے ہوئے حقیقی بنیادوں پر دنیا کے اسرارو رموز کو جاننے کا آغاز کیا جاسکے اور ایک عظیم انسانی سماج تخلیق کیا جاسکے۔

عرفان کی گفتگو کے بعد آدم پال نے بات کی۔ آدم نے کہا کہ حکمران طبقہ صرف مسلح جتھوں کے ذریعے عوام پر ا پنا طسلط قائم نہیں رکھ سکتا بلکہ وہ تعلیم اور دوسرے ذرائع کا بھی استعمال کرتاہے۔ تعلیم نظام، نصاب اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو حقیقت سے دور رکھا جاتا ہے اور ان کو شعورری عمل سے کاٹا جاتا ہے تاکہ وہ حقیقی مسائل پر سوال نہ اٹھائیں۔ اس لیے یہ لازمی ہے کہ اس پورے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ تعلیم کے شعبے کو سرمایہ داروں کے طسلط سے آزاد کرایا جائے۔ ایک سوشلسٹ نظام میں تعلیم کو سرمائے سے آزاد کراتے ہوئے ہر فرد تک تعلیم کی رسائی یقینی بنائی جائے گی اور حقیقت کو جاننے کے سفر کا حقیقی معنوں میں آغاز ہوگا۔

سکول کے آخر میں کامریڈ آدم پال نے شرکاء کے سامنے پی وائی آے کے بنیادی مطالبات رکھے جس میں مفت تعلیم، اینٹی ہراسمٹ کمیٹیاں، طلبہ یونین کی بحالی وغیرہ تھے۔ تمام شرکاء نے ان مطالبات کو خوب سراہا۔ آدم پال نے طلبہ اور نوجوانوں کو پروگریسو یوتھ الائنس میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.