|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس کراچی|
7 جولائی 2019 ء بروز اتوار ملیر میں پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے زیرانتظام ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں تیس سے زائد کامریڈز اور انقلابی نظریات میں دلچسپی رکھنے والے تازہ دم نوجوانوں نے شرکت کی۔
سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کو کامریڈ لیاقت کلمتی نے چیئر کیا اور ’انقلاب فرانس‘ کے موضوع پر کامریڈ ثناء اللہ زہری نے تفصیلی لیڈ آف دی۔ لیڈ آف کے آغاز میں کامریڈ نے بتایا کہ 14 جولائی 1789 کو ورسائی محل میں فرانس کے بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ پیرس میں باسٹیل قلعے پر دھاوا بول دیا گیا ہے۔ بادشاہ نے بوکھلا کر ”کہا کیا یہ بغاوت ہے تو جواب ملا نہیں یہ ایک انقلاب ہے“۔ اس انقلابی عمل کا آغاز کئی برس پہلے ہو چکا تھا جس کے بیج نہ صرف فرانس بلکہ یورپ کی معروضی صورتحال میں موجود تھے اور ساتھ ہی چودھویں اور پندرھویں صدی سے جاری علمی اور فکری انقلاب نے بھی اس کی آبیاری کر دی تھی۔ ان عظیم نابغہ روزگار فلسفیوں اور مفکرین نے جو یونانی فلسفے سے متاثر تھے کلیسائی اور جاگیردارانہ اشرافیہ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نظام کے بحران نے دیہاتوں میں زرعی آبادی کے حالات زندگی کو اور شہری نیم پرولتاریہ اور پرولتاریہ کی زندگی کو بھی اجیرن بنا دیا تھا۔ قرضوں میں گردن تک دھنسی ریاست نے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی تھی اور عوام ٹیکس دینے سے قاصر تھے۔ حکمران طبقات میں لڑائی شدت اختیار کرتی جا رہی تھی اور بادشاہ ریاستی اخراجات پورا کرنے کے لئے جاگیر دار اشرافیہ پر بھی ٹیکس عائد کرنا چاہتا تھا اور اشرافیہ اس شاہی فرمان کو ماننے سے انکار کر رہی تھی۔
حکمران طبقے کے داخلی تضادات نے عوامی مزاحمت کو ابھرنے کا موقع دیا۔ بادشاہ نے صورتحال سے نمٹنے کے لئے اسمبلی آف نوٹیبلز کا اجلاس بلایا جو کہ جاگیری اور کلیسائی نمائندوں کی ایڈوائزری کونسل تھی۔ اس میں اشرافیہ نے بادشاہ کے خلاف احتجاج کیا جس کے نتیجے میں اسمبلی کو برخاست کیا گیا۔ بادشاہ نے پھر شاہی فرمان کے ذریعے مجوزہ ٹیکس عائد کیے۔ مگر مقامی عدالتوں میں، جو کہ اشرافیہ کے زیراثر تھیں،سے ان ٹیکسوں کی منظوری نہ ہو سکی۔ بادشاہ نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے پیرس کی مقامی اسمبلی کو تحلیل کر دیا اور دیگر پر پابندی عائد کر دی۔ اشرافیہ نے اسمبلی کا احتجاجی اجلاس کرنے کی کوشش کی تو بادشاہ نے فوج بھجوا کر اسے تتر بتر کر دیا۔ صورتحال اتنی بھیانک تھی کہ 1614 کے بعد بادشاہ کو پہلی دفعہ سٹیٹس کونسل کا اجلاس طلب کرنا پڑا۔ سٹیٹس کونسل میں بادشاہ، جاگیردار اشرافیہ اور بورژوازی کے نمائندے شامل تھے۔
بورژوازی کے دباو کے نتیجے میں بادشاہ اس اجلاس کو برخاست کرنا چاہتا تھا۔ عوام کی ہمدردیاں کسی حد تک بورژوا نمائندوں کے ساتھ تھیں مگر بورژوازی جراتمندانہ اقدام سے قاصر تھی۔ یہ عوامی مزاحمت اور حمایت ہی تھی جس نے بورژوازی کو قدرے انقلابی اقدامات پر مجبور کیا۔ پیرس کے گلی کوچوں میں روز احتجاج اور جلسے جلوس ہوتے تھے۔ عوام نے بورژوازی کی معاونت کے لیے ورسائی میں جا کر ڈیرے ڈال دیئے۔ عوام کے موڈ کو بھانپ کر بورژوازی نے قومی اسمبلی کی تشکیل اور آئین کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے بعد انقلابی عمل کو مزید مہمیز ملی اور بادشاہ کو وقتی طور پر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ورسائی اور پیرس میں موجود شاہی فوج کی وفاداری مشکوک ہو چکی تھی اور بادشاہ کو اپنی بھروسے کی فوجی کمک کی دستیابی کے لئے وقت درکار تھا۔ بادشاہ کی ہچکچاہٹ کے وقت فیصلہ کن حملہ کرنے کی بجائے بورژوازی بادشاہ کا اعتماد جیتنے اور اسے آئینی بادشاہت پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر بادشاہ نے ہر موقع پر انقلاب کے خلاف سازشیں کیں اور ہر موقع پر عوام نے انقلاب کا دفاع کیا۔
انقلاب ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھا اور بورژوازی کے خصی پن کی وجہ سے پسپائی کے ادوار بھی آئے۔ 1792 میں پروشیا، آسٹریا کی بادشاہتوں کی طرف سے فرانس کے بادشاہ کے دفاع کے لئے فوج کشی کا اعلان کیا گیا تو عوام ایک دفعہ پھر انقلاب کے دفاع کے لئے متحرک ہو گئے۔ اس سے حکمران طبقے میں شاہ پرستوں اور مخالفین کی پھوٹ بھی مزید گہری ہو گئی۔ جب بادشاہ سے مفاہمت کی بورژوازی کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو بالآخر بادشاہ اور بادشاہت کا قلع قمع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا۔ انقلابی قانون سازی تو کر لی گئی مگر اس پر عملدرآمد اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ اس سارے عمل میں انقلاب کے دفاع کے لئے عوام نے اپنی کونسلیں یا کمیون بھی بنا لئے تھے لیکن تاریخ کے اس مرحلے پر سرمایہ دارانہ رشتوں کی استواری سے آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔
اس انقلاب کے بعد بھی فرانسیسی معاشرہ بہت سے اتار چڑھاؤ سے گزرا اور فرانس میں کئی انقلابات ہوئے جن میں پیرس کمیون کا عظیم واقعہ بھی شامل ہے۔ آج کل بھی فرانس میں عوامی مزاحمت موجود ہے اور نہ صرف فرانس بلکہ دنیا بھر کے انقلابیوں کے لئے فرانس کے عظیم انقلاب کی تاریخ سے اہم انقلابی اسباق اخذ کرنا بے حد ضروری ہے۔ آج کے عہد میں انقلاب کا کردار بورژوا نہیں بلکہ سوشلسٹ ہو گا جس کے لئے بالشویک پارٹی کی تعمیر کا فریضہ ہمیں پورا کرنا ہو گا۔ لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز ہوئے اور کامریڈ پروفیسر خان محمد اور کامریڈ پارس جان نے بحث میں حصہ لیا۔ جس کے بعد کامریڈ ثنا اللہ نے سیشن کا باقاعدہ سم اپ کیا۔
دوسرا سیشن کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’داس کیپیٹل (سرمایہ)‘ کے حصہ دوم ’زر کی سرمائے میں تبدیلی‘ پر تھا جسے کامریڈ امیر بخش نے چیئر کیا اور کامریڈ جلال جان نے مفصل لیڈ آف دی۔ جلال جان نے لیڈ آف کے آغاز میں شے، قدر، قدرصرف، قدرتبادلہ،قدرزائد،زر اور قوت محنت جیسی اصطلاحات کا تعارف اور تشریح کی۔ اس کے بعد زر کے یونیورسل مساوی القدر (universal equivalent) کے طور پر نمودار ہونے کے تاریخی حالات کا جائزہ لیا اور زر اور سرمائے کے درمیان بنیادی اشکالی تفریق کو ان کے جنرل فارمولوں کے ذریعے واضح کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ کس طرح شے-زر-شے (C-M-C)کے عمل کے برخلاف زر-شے-زر (M-C-M) کے عمل میں تاریخی طور پر گردش کے ذریعے کے طور پر نمودار ہونے والی ’زر(money)‘ خود ذریعے کی بجائے مقصد بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بورژوا مفکرین کی بہت سی غلط فہمیوں کا لبادہ چاک کرتے ہوئے جلال جان نے کہا کہ قدر کبھی بھی تجارتی عمل یعنی اشیا کی گردش میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ تصور سراسر غلط ہے کہ سستا خرید کر مہنگا بیچ دینے سے سرمایہ بنتا ہے۔ اس مفروضے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سماج میں ایک ایسا طبقہ فرض کر لیا جاتا ہے جو صرف بیچ رہا ہے اور امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ ہر بیچنے والا خود بھی خریدار ہے اور ایک چیز قدر سے زیادہ بیچ کر اسے کوئی اور چیز قدر سے زیادہ قیمت پر خریدنی بھی پڑتی ہے۔ یوں گردش میں موجود کل اشیا کی عمومی قدر ہمیشہ مستقل رہتی ہے اور گردش میں صرف قیمتوں میں ہی اتار چڑھاؤ ممکن ہے۔ یا ایک وقت میں مختلف اقدار ایک یا کسی دوسرے فریق کے پاس زیادہ یا کم ہوتی رہتی ہیں مگر ان میں اضافہ صرف پیداواری عمل میں ہی ممکن ہے۔ لیکن تجارت کے بغیر بھی یہ عمل ادھورا رہے گا کیونکہ اشیا کی قدرصرف شے کے مالک کے بجائے اسکے خریدار کے پاس ہے جسے گردش یا تبادلے کے ذریعے ہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ جلال جان نے قوت محنت کی خرید و فروخت کے عمل کو سرمائے کی تشکیل کے لازمی عنصر کے طور پر واضح کیا۔ سوالات کے بعد امیر بخش، کامریڈ عمران اور پارس جان نے بحث میں حصہ لیا اور جلال جان نے سم اپ کیا۔ انٹرنیشنل (محنت کشوں کا عالمی ترانہ)گا کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔