طلبہ کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ نا منظور!

|پروگریسو یوتھ الائنس|

کرونا وباء نے جہاں دنیا بھر کی عوام دشمن سرمایہ دارانہ ریاستوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، وہیں پاکستانی تبدیلی سرکار کی حقیقت بھی آئے روز حکمرانوں کے نت نئے بیانات اور اقدامات سے آشکار ہو رہی ہے۔ شروع میں جب وباء کی صورتحال شدت اختیار کرتی گئی تو عوامی پریشر میں بحالت مجبوری بے ڈھنگا لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ صنعتی، تعلیمی، کاروباری غرض ہر شعبے کو بنا کوئی سہولیات دیے بند کر دیا گیا۔ مگر جب وباء کا عرصہ طویل ہوتا گیا تو ہمارے حکمرانوں نے غریبوں اور مزدوروں کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانا شروع کر دیے۔ جس کے پیچھے ان کا اصل مقصد چھپا تھا۔ جو صنعتی عمل کو دوبارہ جاری کرنا تھا تاکہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں کوئی خلل نہ آئے۔

اسی طرح کے ڈرامے ہمیں تعلیمی شعبے میں بھی دیکھنے کو ملے۔ پہلے تو تمام ضروری وسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے آن لائن کلاسز کا ڈراما رچایا گیا۔ اس کی وجہ بھی طلبہ کا مستقبل محفوظ کرنا بتایا گیا تاکہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو، جس کا اصل مقصد تعلیمی اداروں کا بھاری فیسوں کا حصول جاری رکھنا تھا۔ ان مذموم مقاصد کا اظہار 12 جون کے بجٹ میں اور بھی واضح ہو گیا جب اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں بھاری کٹوتیاں دیکھنے کو ملیں۔ اس کے بعد 22 جون کو وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے وزارت وفاقی تعلیم کے ایک اجلاس میں کہا کہ جولائی کے پہلے ہفتے تک تعلیمی اداروں کو کھولنے کی حکمتِ عملی تیار ہوگی۔ کل یعنی 23 جون کو خبر آئی کہ چیئرمین ایچ-ای-سی اور جامعات کے وائس چانسلرز کا وڈیو لنک پر اجلاس ہوا جس میں 15 جولائی کے بعد جامعات کھولنے پر غور کیا گیا اور کہا گیا کہ اس حوالے سے ایچ-ای-سی جامعات سے مل کر پالیسی بنائے گی۔ اس قاتلانہ اقدام کا حتمی فیصلہ 2 جولائی کو ہوگا۔ یہ تمام فیصلے طلبہ کے مستقبل کی فکر میں نہیں بلکہ تعلیمی مافیا کے منافعوں کو بچانے کے لیے کئے گئے ہیں جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ یہ ریاست عوام کی نہیں سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتی ہے۔

یہ تحریر لکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1 لاکھ 88 ہزار سے زائد افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جو ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقی تعداد سے بہت کم ہیں کیونکہ پاکستان میں ٹیسٹنگ کی شرح آبادی کے تناسب سے نہ ہونے کے برابر ہے، ریاست نے ٹیسٹ کی سہولت سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ٹیسٹ اتنا مہنگا ہے کہ اکثریتی آبادی کی پہنچ سے دور ہے۔ ایسے میں متاثرہ افراد کی اصل تعداد بتائے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں تعلیمی اداروں کا کھولنا نوجوانوں اور بچوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے اور اس کے نتیجے میں جتنی بھی اموات واقع ہوں گی انکے قتل کی ذمہ داری اس ریاست پر عائد ہوگی، اور انکے علاج پر جتنے اخراجات آئیں گے ان سب کی ذمہ دار بھی یہ بے حس اور انسان دشمن سرمایہ دار ریاست ہو گی۔ یہ ”بڑے“ اور ”معزز“ اشخاص جو اپنی آرام گاہوں میں بیٹھ کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں، کہتے ہیں کہ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، تعلیمی اداروں میں ایس-او-پیز کا خیال رکھا جائے گا۔ جسمانی دوری برقرار رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کا جاری رکھنا موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ جامعات کی ایک بڑی تعداد میں کمرہ جماعتوں کی پہلے سے کمی ہے۔ ہاسٹلز کی پہلے سے کمی ہے اور جن کو ہاسٹل کی سہولت موجود بھی ہے تو ان کے کمرے اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ عام حالات میں بھی زیادہ دیر رہنے سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ میس اور ریستورانوں کا حال تو سب کو معلوم ہے جہاں خاص کر کھانے کے اوقات میں طلبہ کا جم غفیر ہوتا ہے۔ اندرونی ہاسٹلز سے باہر رہنے والے ٹرانسپورٹ کی کمی کا پہلے سے شکار ہیں اور آتے جاتے بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے جاتے ہیں۔ ایسے میں بھلا جسمانی دوری اختیار کرنا ناممکن بات ہے۔ علاوہ ازیں جسمانی دوری کے ہوتے ہوئے لیب میں پریکٹیکل کام اور دیگر تعلیمی سرگرمیاں بھی نہیں ہو سکتیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹیاں کھلوانا درحقیقت پہلا قدم ہے، اسکے بعد کالج اور سکول بھی کھولے جائیں گے۔ یہ سب، یہ قاتل ریاست پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کے پریشر میں کر رہی ہے۔ یہ ریاست سرمایہ داروں کی دلال ہے اور مزدوروں، کسانوں اور عام لوگوں کی قاتل ریاست ہے۔ ایسے ماحول میں تعلیمی ادارے کھولنا جب وباء تیزی سے پھیل رہی ہے، قتل عام ہے!

ایسا کوئی بھی اقدام تعلیمی نظام کے مکمل انہدام کا باعث بنے گا۔ وبا کی انتہا پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کے اقدامات کے بعد ملک بھر میں صحت کا نظام مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے۔ سرمایہ داروں کے منافعوں کی خاطر ہم اس قتل عام کو کسی بھی صورت نہیں ہونے دیں گے!

ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کے اندر وہ قوت موجود ہے جس کے ذریعے وہ ان طلبہ دشمن اقدامات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بنیادی طور پر طلبہ کے بلبوتے پر ہی چلتے ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو فرشتوں کو تو تعلیم دی نہیں جا سکتی۔ اصل طاقت طلبہ کے پاس ہی ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں ملک کے بیشتر علاقعوں میں آن لائن تعلیم کے حوالے سے احتجاجوں کے ایک سلسلے کے ذریعے اس طاقت کا اظہار بھی ہوا ہے۔ اگر حکومت تعلیمی ادارے کھولنے کی طرف جاتی ہے تو ان احتجاجوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ مگر ان احتجاجوں کا صرف علاقائی سطح تک محدود رہنا کافی نہیں ہے۔ اسی طرح طلبہ کو سماج کی دیگر پرتوں کو بھی اس جدوجہد میں ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ اگر غور کیا جائے تو اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے عملے (سیکورٹی گارڈز، مالی، کلرکس، چپڑاسی وغیرہ) کی تنخواہوں میں بھی بالخصوص پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے بہت بڑے پیمانے پر کٹوتی کی جارہی ہے اور بعض جگہوں پر تو سرے سے تنخواہیں دی ہی نہیں جا رہیں۔ ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو نہ صرف ان اساتذہ اور دیگر محنت کش عملے کیساتھ بلکہ پورے ملک کے تباہ حال فیکٹریوں اور دیگر سرکاری اداروں کے محنت کشوں، کسانوں اور مظلوموں کیساتھ مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ ایک دفعہ جب یہ اتحاد بن گیا تو پھر کوئی بھی طاقت اسے روکنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔ اسی صورت ہی نہ صرف تمام مطالبات کو فورا منوایا جا سکتا ہے بلکہ اس تحریک کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بڑی لڑائی کی جانب بھی لے جایا جا سکتا ہے جو اس انسان دشمن، منافع کے نظام (سرمایہ دارانہ نظام) کے خاتمے اور انسان دوست سوشلسٹ نظام کی بنیاد بنے۔

طلبہ کا ریاستی قتل عام نامنظور!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
انقلاب کے تین نشان، طلبہ، مزدور اور کسان!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.