ملتان: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی مختص نشستوں اور سکالرشپس کا خاتمہ نامنظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی جانب سے فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے کوٹے کی نشستوں اور سکالرشپس کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فاٹا اور بلوچستان پاکستان کے پسماندہ ترین خِطوں میں سے ایک ہیں، جہاں ریاست پانی،خوراک، رہائش،صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک مہیا نہیں کر سکی اور یہ خطے لمبے عرصے سے دہشتگردی اور جنگوں کے زیرِ اثر رہے ہیں۔ چونکہ ریاستی نااہلی کے باعث ان خِطوں میں تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے ملک بھر کی دیگر سرکاری جامعات میں ان علاقوں کے طلبہ کے لیے چند سو نشستوں کا کوٹہ رکھا گیا تھا۔

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے کوٹے کی نشستیں اور سکالرشپس مختص تھیں۔ جن سے ہرسال سینکڑوں طلبہ سینکڑوں میل دور آکر”مفت تعلیم “ حاصل کرپاتے تھے (یاد رہے، کھانے پینے سے لے کر علاج اور کپڑے دھلوانے سمیت تمام اخراجات وہ خود برداشت کرتے تھے۔ طلبہ کی اکثریت میس کا انتہائی مضر صحت کھانا کھانے کی بجائے کینٹین یا باہر سے کھانے پر مجبور تھی)۔ مگر حالیہ سرمایہ دارانہ بحران اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بجٹ میں کٹوتیوں کو جواز بناتے ہوئے جامعہ زکریا ملتان کے وائس چانسلر نے فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے کوٹے کی نشستوں اور سکالرشپس کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، جو ان پسماندہ علاقے کے طلبہ پہ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پیسوں کی عدم موجودگی کا جواز بناتے ہوئے کرونا کے دوران بھی انتظامیہ نے طلبہ کو دھمکیاں دے کر بدمعاشی سے فیسیں وصول کیں اور اب تمام ڈیپارٹمنٹوں میں سیلف پہ10،10 نشستوں کا بھی آغاز کیا گیا ہے جبکہ اسی جامعہ کی جانب سے طلبہ کی وصول کردہ فیسوں میں سے 55 لاکھ کی خطیر رقم کرونا ریلیف فنڈ کی مد میں حکومت کو دی گئی ہے۔حالیہ اقدامات کے بعد طلبہ نے سی ایم، پی ایم پورٹل و گورنر وغیرہ کو شکایتی خط بھی لکھے جن کا کچھ جواب میسر نہ آسکا۔

پروگریسو یوتھ الائنس یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے ان تمام جابرانہ اقدامات کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ نہ صرف ان تمام اقدامات کو فی الفور واپس لیا جائے بلکہ یونیورسٹی کے تمام اکاؤنٹس کھولے جائیں اور یونیورسٹی کی آمدنی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی تمام تر مراعات و اخراجات اور لوٹ مار کو بھی طلبہ کے سامنے لایا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ آبادی کے تناسب سے ملک بھر کے اندر نئے تعلیمی اداروں کا قیام یقینی بنایا جائے اور طالب علموں کو ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہ باور کروا دینا چاہتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاستی حکام کی مِنتوں اور شکایتوں کے ذریعے کسی طرح ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکتے۔ دراصل یہ ریاست ہی ہے جو آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی غلامی میں سالہاسال سے تعلیمی بجٹ کو کم کرتی جا رہی ہے اور طلبہ پہ تعلیمی دروازے بند کررہی ہے۔ اس لیے طلبہ کے حقوق کی جنگ عالیشان محلوں، ایوانوں یا پھر وی سی کے دفتر میں میٹنگوں کے ذریعے نہیں بلکہ طلبہ کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ضرورت ہے کہ طلبہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ریاست کو مجبور کریں کہ وہ فی الفور ایسے تمام طلبہ دشمن اقدامات واپس لے اور طلبہ یونین بحال کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.