دو روزہ آن لائن مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام 19 اور 20 جون 2021ء کو دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد ہوا۔ معمول کے حالات میں پی وائی اے کی جانب سے ہر سال دو سکول منعقد کیے جاتے ہیں؛ ایک موسم سرما میں اور دوسرا موسم گرما میں، مگر اس سال کرونا وبا کی وجہ سے اسے آن لائن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس سکول کی تیاری کے سلسلے میں ملک بھر میں متعدد ریجنل مارکسی سکول منعقد کیے گئے۔

ملک بھر سے 300 سے زائد طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے اس سکول کیلئے اپنا نام رجسٹر کروایا۔ ملک بھر سے شرکاء نے اپنے اپنے موبائل فونز اور کمپیوٹر و لیپ ٹاپ پر اس سکول میں حصہ لیا۔ بعض جگہوں پر کئی لوگوں نے اکٹھے بیٹھ کر بھی سکول میں ہونے والی بحثوں کو سنا اور ان میں اپنا حصہ شامل کیا۔

سکول کے دوران خراب انٹرنیٹ کی وجہ متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر شرکاء کی دلچسپی کی بدولت تمام تر مشکلات کے باوجود مختلف موضوعات پر ہونے والی بحثوں میں بھرپور شرکیت دیکھنے کو ملی۔

سکول کا آغاز 19 جون کی صبح 10 بجے ہوا۔ مجموعی طور پر سکول چار سیشنز پر مشتمل تھا۔

                                                                 پہلا روز   

پہلا سیشن

سکول کے پہلے سیشن کا موضوع ”عالمی و پاکستان تناظر“ تھا جس کو چئیر فضیل اصغر نے کیا جبکہ تفصیلی بات سندھ سے علی عیسیٰ نے کی۔ علی عیسیٰ نے بات کا آغاز تناظر کی تخلیق میں مارکسزم کے طریقہ کار کے استعمال کی اہمیتسے کیا کہ مارکسزم تناظر کی سائنس ہے جو حالات کو کاٹ کاٹ کر اور سطحی تجزیوں کے تحت دیکھنے کی بجائے ان حالات کے پیچھے پنہاں عمل کو پرکھتا ہے اور اس بنا پر تناظر تخلیق کرتا ہے۔

علی نے عالمی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوا کہا کہ آج کرونا وبا کے بعد کرونا سے قبل کے عہد کی اْمید نہیں کی جاسکتی چونکہ سطح کے نیچے وہ سرمایہ داری کا بحران تھا جس نے انسانیت کو معاشی و سماج طور پر بدحال کیا اور وبا نہ بھی آتی تو یہ بدحالی ایک لازمہ تھی، بس اس وبا نے اس عمل کو تیز کر دیا۔ وبا نے اس نظام کی لوٹ مار کو ننگا کیا ہے کہ لوگوں کی جانوں پر منافعوں کو بچایا گیا۔ عوام کی بچتیں ختم ہوچکی ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں حکمران طبقے کی دولت میں کھربوں روپوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اس عمل نے بحران کو تاریخ کی خطرناک ترین سطح پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ زندگی کے تمام تر شعبہ جات کو غیر مستحکم کیے ہوئے ہے۔ عالمگیر پیمانے پر عدم استحکام بڑھ رہا ہے، مستحکم ترین جمہوریتں خطرے میں ہیں، امریکہ جیسی ریاست کا پارلیمان عوام کے قدموں تلے روندا جاچکا ہے اور دنیا بھر میں تحریکیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ علی کا کہنا تھا کہ امریکہ چین کی تجارتی جنگ بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی نہیں تھم سکی اور نہ مستقبل میں تھم پائے گی بلکہمزید شدت اختیار کرے گی۔ اسی طرح بحران کے باعث امریکی اثر و رسوخ کی کمی نے علاقائی سامراجی قوتوں کو اْبھرنے کا موقع دیا ہے اور آج روس سمیت ایران تک امریکی اتحادیوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ یورپ کے اندر اتحاد میں دراڑیں بڑھتی جارہی ہیں۔

علی نے مزید کہا کہ پاکستان میں بھی انتشار نظر آرہا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں امریکی شکست و ریخت نے امریکہ کے خصی پن کو ظاہر کیا ہے تو یہاں خطے میں چین کا اثر و رسوخ بڑھا ہے جس نے پاکستان کو بھی اس طرف کشکول پھیرنے پر مجبور کیا مگر اس سب نے حکمران اشرافیہ کو ملنے والے ٹکڑوں میں کمی کی ہے نتیجتاً سالہا سال سے عوام پر بوجھ بڑھا ہے اور تعلیم، صحت اور روزگار سمیت سب سہولیات کم ہوتی جارہی ہیں۔ علی نے اس بات پر اختتام کیا کہ ان تمام صورت حالات میں عالمگیر پیمانے پر اور ملک گیر سطح پر عوامی تحریکیں بڑھی ہیں اور آنے والے عرصے میں یہ تحریکیں مزید شدت اختیار کریں گی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی اہلیت کھو چکا ہے۔

علی کی تفصیلی گفتگو کے بعد شرکاء نے سوالات کیے اور عالمی تناظر پر بحث کوآگے بڑھایا گیا۔

اسلام آباد سے لقمان رحمانی نے لاطینی امریکہ میں حالیہ پیرو کے انتخابات اور کولمبیا کی تحریک پر روشنی ڈالی جس میں واضح نظر آتا ہے کہ عوام موجودہ ڈھانچوں سے بغاوت پر اْتر چکے ہیں، اور اسکے ساتھ ساتھ مستقبل کے تناظر پر بات کی۔

کراچی سے عادل عزیز نے پاکستانی ریاستی اشرافیہ کے سندھ میں بطور قبضہ مافیا کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ننگی ہوچکی ہے۔ وہ سوائے حکمران طبقے کی گماشتہ کے کچھ نہیں۔

جنوبی پنجاب سے آصف لاشاری نے ملک میں اْبھرتی طلبہ کی بے چینی اور آنے والے عرصے میں طلبہ تحریکوں کے اْبھرنے کا تناظر دیا۔

پشاور سے خالد مندوخیل نے حالیہ پاکستانی بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بجٹ مکمل طور پر مزدور دشمن ہے۔ اس میں روزگار اور تعلیم پر حملے کیے گئے جس کے خلاف ملک گیر سطح پر تحریکیں شدید ہوں گی۔

لاہور سے ثناء اللہ جلبانی نے امریکہ میں بڑھتی عوامی بے چینی پر بحث کی۔

کشمیر سے عبید ذوالفقار نے کشمیر کے آنے والے انتخابات پر بات کی کہ یہ انتخابات بھی کسی صورت عوام کے حالات بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

لاہور سے زین العابدین نے پرانے ورلڈ آرڈر کی ٹوٹ پھوٹ پر بات کی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومتیں استحکام نہیں لاسکتیں اور حالیہ عہد انقلابات و ردِ انقلابات کا عہد ہے۔

زین کی بات کو آدم پال نے یوں بڑھایا کہ اس ٹوٹ پھوٹ کے عہد میں روایتی پارٹیاں بھی رد ہوچکی ہیں اور کوئی اصلاح پسند پارٹی کسی طور عوام کی اْمنگوں کی امین نہیں ہوسکتی اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام قیادتوں پر واضح ہونا ہوگا کہ یہ عوام دشمن ہیں۔ ان کا کردار حکمران طبقے کی گماشتگی پر مبنی ہے۔

علی عیسیٰ نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ آج ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام متروک ہوچکا ہے اور اس کے خلاف عوامی تحریکیں شدید ہوچکی ہیں جبکہ تمام تر روایتی قیادتوں سمیت اصلاح پسند و قوم پرست قیادتوں کا واحد مقصد حکمران طبقے کی کاسہ لیسی ہے۔ ایسے میں عوامی تحریکوں کا ایک کامیاب انقلاب تک سفر بنا انقلابی پارٹی کے ناممکن ہے۔ اس وقت ایک تاریخی فریضہ ہمارے سر آن پڑتا ہے کہ درست مارکسی نظریات کے گرد ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کریں جو ایک خوشحال سْرخ سویرے کی ضامن ہوگی۔

پہلے سیشن کے اختتام کے بعد کھانے کا وقفہ کیا گیا اور ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔

دوسرا سیشن

پہلے دن کے دوسرے سیشن کا موضوع ”نظریہ انقلابِ مسلسل“ تھا۔ اس سیشن کو چئیر ثناء اللہ جلبانی نے کیا اور تفصیلی گفتگو رائے اسد نے کی۔

رائے کا کہنا تھا پاکستان جیسے ملک میں انقلابی پارٹی کی تعمیر اور انقلابی مقاصد کا حصول اس نظریے کو سمجھے بغیر ناممکن ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رائے کا کہنا تھا کہ ٹراٹسکی نے اس نظریے کی تعمیر روس کے ان حالات میں کی جب ایک طرف سرمایہ داری روس میں اپنے تمام فرائض پورے کرنے سے قاصر تھی تو یہ سوال اْبھر رہا تھا کہ روس کا انقلاب کس کردار کا حامل ہوگا۔ اس حوالے سے ایک رجحان یہ پایا جارہا تھا کہ انقلاب کی قیادت بورژوازی کرے گی چونکہ روس میں سرمایہ داری نہیں پنپ سکی، اس کا علَم منشویکوں نے اْٹھا رکھا تھا۔ جبکہ دوسرا مؤقف بالشویکوں کا تھا کہ روس میں انقلاب بورژوا ڈیموکریٹک ہوگا مگر قیادت پرولتاریہ کرے گا۔ اس وقت ٹراٹسکی نے یہ مؤقف دیا کہ روس میں انقلاب کا آغاز تو بورژوا جمہوری مانگوں سے ہی ہوگا مگر وہ انقلاب ان مانگوں تک محدود نہیں رہے گا اور سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھے گا جس کی قیادت پرولتاریہ اپنے ساتھ کسانوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کو شامل کرتے ہوئے کرے گا۔ جو بعد میں عمل میں بالکل درست ثابت ہوا۔

رائے کا کہنا تھا کہ روس میں سرمایہ دارانہ نظام دیگر یورپ کی طرح انقلابات کی صورت میں نہیں آیا تھا۔ یورپ نے صنعت تک کا سفر پورے ارتقائی عمل سے کیا جس میں کاریگری اور چھوٹی صنعت کا عہد نظر آتا ہے اور پھر صنعتی انقلاب کا عہد آیا جبکہ روس میں یہ پورا عمل نہیں ہوا اور اس نے یورپ سے صنعت مستعار لی۔ اسی بنا پر ٹراٹسکی نے مارکس اور اینگلز کے بیان کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنے نظریے کو پروان چڑھایا۔

رائے کا مزید یہ کہنا تھا کہ چاہے روس میں سرمایہ دارانہ انقلاب نہیں ہوا مگر وہاں مستعار شدہ صنعتوں نے سرمایہ داری کے گورکن یعنی پرولتاریہ کی قابل ذکر اور فیصلہ کن تعداد کو جنم دے دیا تھا۔ وہیں انقلاب کی قیادت کا سوال تھا جس پر ٹراٹسکی کا مؤقف تھا کہ انقلاب کی قیادت مزارعوں کی بجائے پرولتاریہ کرے گا اور پھر عمل میں یہ ثابت ہوا کہ ٹراٹسکی کا یہ نظریہ درست تھا اور فروری کا ڈیموکریٹک انقلاب ناکام ہوا جس کو اکتوبر کے سوشلسٹ انقلاب نے ختم کیا اور روس کو ترقی کی ایک نئی معراج پر پہنچایا۔ رائے کا مزید کہنا تھا کہ نظریہ انقلابِ مسلسل بیان کرتا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کو ایک ملک تک محدود نہیں کیا جاسکتا اسے لازمی طور پر عالمگیر ہونا ہوگا۔ اور سویت یونین کے آغاز سے لے کر اس کے ٹوٹنے تک نظریہ انقلابِ مسلسل یہاں بالکل صادق آتا نظر آتا ہے۔

رائے کا کہنا تھا کہ نظریہ انقلابِ مسلسل پر بہت زیادہ دروغ گوئی کی گئی اور مرحلہ وار انقلاب کا انسان دشمن نظریہ سامنے لایا گیا کہ پہلے سرمایہ داری نظام اور اس کے بعد سوشلسٹ انقلاب، مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام جہاں اپنے جوبن پر آیا تھا آج وہاں عوام کو بھوک، ننگ، بے روزگاری، لاعلاجی اور جبر کا سامنا ہے۔ ایسے عہد میں پاکستان اور اس طرح کے دیگر تیسری دنیا کے ممالک میں سرمایہ داری کے ذریعے خوشحالی کی بات کرنا نری حماقت ہے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کسی مصنوعی ٹیکے سے بھی اپنی جوانی کی رمق نہیں جگا سکتا۔ ایسے میں واحد حل سوشلزم ہی ہے نیز جیسے سرمایہ دارانہ نظام اس وقت عالمگیریت کا حامل اس سے جدید یعنی سوشلسٹ انقلاب کو اپنے آغاز سے ہی سرحدوں کو چیرتے ہوئے عالمگیریت کی طرف بڑھنا ہوگا۔ یہی انقلابِ مسلسل ہے اور صرف اسی نظریے کے گرد انقلاب کی تعمیر ممکن ہے۔

رائے اسد کی تفصیلی بات کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد دیگر شرکاء نے اس بحث کو آگے بڑھایا۔

جنوبی پنجاب سے عرفان منصور نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ حاوی دانش کہتی ہے کہ پاکستان میں بھی براستہ سیکولرازم، بورژوا ڈیموکریسی و دیگر سرمایہ دارانہ خصائص کے حصول کیلئے پانچ سو سالہ سفر طے کرنا ہوگا۔ مگر یہ آج سرمایہ داری کے بحران کے عہد میں ممکن نہیں اور یہ تمام منازل اب سوشلسٹ انقلاب سے ہی طے ہو سکتی ہیں۔

بلوچستان سے رزاق غورزنگ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ روس کا سوشلسٹ انقلاب تک سفر واضح کرتا ہے کہ تمام دنیا کے ممالک کو ایک جیسا ارتقائی سفر طے نہیں کرنا پڑا اور پسماندہ ممالک میں ارتقاء چھلانگوں کی صورت میں بنا سرمایہ دارانہ انقلاب کے سوشلزم تک ہوگا۔

خیبر پختونخوا سے کامریڈ ہلال کا کہنا تھا کہ سوائے یورپ کے اور چند ترقی یافتہ ممالک کے ہمیں نظر آتا ہے کہ دیگر خطوں میں بغیر انقلاب کے سرمایہ داری مسلط ہوئی، یہ بذاتِ خود مرحلہ وار ترقی کے قانون کا رد ہے۔

آسٹریلیا سے بات کرتے ہوئے نثار علی کا کہنا تھا کہ انقلابِ مسلسل کا نظریہ عالمگیریت پر مبنی ہے اور تمام تر قومی جبر سے نجات کی واحد راہ بھی تمام قوموں کے محنت کشوں کی عالمی انقلاب کی جدوجہد میں ہی ممکن ہے۔

اسلام آباد سے سنگر خان کا کہنا تھا کہ سرمایہ دانہ نظام عالمگیریت کا حامل ہے اور اس کا خاتمہ عالمگیر نظام سے ہی ممکن ہے جس کی تائید انقلابِ مسلسل کرتا ہے۔

لاہور سے شہزاد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ذرائع پیداوار کو اس سطح پر لاکھڑا کیا ہے کہ زائد پیداوار کا بحران حقیقت بن چکا ہے۔ ایسے میں تیسری دنیا میں اب سرمایہ داری کی تعمیر دیوانے کا خواب ہے۔ اس کے ساتھ اس ذرائع پیداوار کی ترقی نے انقلاب کے بعد پسماندہ ممالک کی ترقی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

آخر میں رائے اسد نے اس سب بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اگر ہم انقلابِ روس کو چھوڑ کر اس عہد کے دیگر تمام انقلابات کو دیکھیں تو ان میں بورژوا ڈیموکریسی کچھ بھی کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔ یہ صرف روس کا سوشلسٹ انقلاب تھا جس نے سوشلسٹ بنیادوں پر ہی ترقی کے زینے چڑھے اور آج بھی انقلابی پارٹی کی بنیاد اسی انقلابِ مسلسل کے نظریے پر ہی رکھی جاسکتی ہے۔

اس کے ساتھ سکول کے پہلے روز کا اختتام ہوا۔

دوسرا روز

تیسرا سیشن

سکول کے دوسرے روز کے پہلے اور سکول کے مجموعی طور پر تیسرے سیشن کا آغاز 10 بجے ہوا۔ دوسرے روز کے پہلے سیشن کا موضوع ”پیرس کمیون کے 150 سال“ تھا جس پر تفصیلی گفتگو لاہور سے زین العابدین نے کی جبکہ اس سیشن کو چئیر فضیل اصغر نے کیا۔

زین نے بات کے آغاز میں پیرس کمیون کے واقعے پر روشنی ڈالی کہ مارچ 1871ء میں مسلح محنت کشوں نے بورژوازی کو اقتدار سے باہر نکالتے ہوئے پیرس میں پہلی مزدور ریاست قائم کی جو دس ہفتے قائم رہی، جسے حکمرانوں نے خون سے نہلا کر ختم کیا۔ زین کا کہنا تھا اس واقعے نے سوشلزم اور سوشلسٹ نظام کیلئے جدوجہد کے نقوش وضع کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ یہ تاریخ کی پہلی مزدور ریاست تھی۔

زین نے فرانس کے اندر موجود محنت کشوں کی جدوجہد کی تاریخ پر روشنی ڈالی جس میں نظر آتا ہے کہ فرانس کا محنت کش طبقہ کسی طور صلح کیلئے تیار نہیں تھا اور وہ مسلسل حکمران طبقے اور بادشاہت سے دست و گریباں رہا۔ جبکہ بورژوازی مسلسل بادشاہت و آمریت کے تلوے چاٹنے پر معمور نظر آئی۔ اس کام میں اس نے محنت کشوں کے قتلِ عام سے بھی دریغ نہ کیا۔ 1848ء کے انقلاب کے بعد ریپبلک میں 4 روز میں تیس ہزار سے زائد محنت کشوں کو قتل کیا گیا۔

زین نے پیرس کمیون کے تاریخی پسِ منظر پر بات کی اور پیرس کمیون سے قبل بھی فرانس میں طبقاتی نزع موجود تھی جسے پہلے تو لوئی بونا پارٹ نے جبر سے دبائے رکھا مگر اس طریقے میں ناکامی نے اسے اپنے آمرانہ راج کو قائم رکھنے کیلئے 1869ء میں انتخابات کی جانب جانے پر مجبور کیا جس میں اس کو واضح برتری ملی۔ مگر اس سے بھی کچھ نہ بن پایا تو محنت کشوں پر جنگ مسلط کرکے محنت کشوں کی پنپتی بغاوت سے راہِ فرار کی کوشش کی گئی۔ مگر اس جنگ نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور فرانس کی شکست نے پیرس کے اندر عوامی مظاہروں کو جنم دیا اور نتیجتاً ستمبر 1870ء میں نیشنل گارڈز نے پیرس کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے پیرس کو جمہوریہ ڈکلئیر کیا اور نئی حکومت ”نیشنل گورنمنٹ آف ڈیفینس“ قائم ہوئی جس کا مقصد فرانس کا دفاع قرار پایا۔ مگر یہ سرکار بسمارک کی فوج کے پیرس کے محاصرے کو ختم کرنے کی بجائے محنت کشوں کو غیر مسلح کرنے میں فعال نظر آئی۔

چار ماہ تک جاری رہنے والے محاصرے نے پیرس کے محنت کشوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے پر مجبور کیا اور اس دوران محنت کش نئے نتائج اخذ کررہے تھے۔ بالآخر نیشنل گورنمنٹ آف ڈیفینس نے 27 جنوری کو بسمارک کے آگے شرمناک شرائط پر جنگ کے خاتمے کا معاہدہ کرلیا۔ معاہدے کی شرط کے مطابق فرانس میں منتخب شدہ حکومت کے قیام کے بعد اس نے اس معاہدے پر دستخط کرنا تھے اس لیے 28 فروری کو انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جس میں بادشاہت کے حامی فتح یاب ہوجاتے ہیں۔ نئی سرکار نے نظم و ضبط کو قائم رکھنے کیلئے محنت کشوں کو غیر مسلح کرنے کا آغاز کیا جس نے محنت کشوں کی بغاوت کو جنم دیا اور نیشنل گارڈز اقتدار پر قابض ہوئے اور 28 مارچ کو انتخابات کے بعد پیرس کمیون کا اعلان کیا جاتا ہے۔

زین کا کہنا تھا کہ اپنی تمام تر محدودیت کے باوجود پیرس کمیون نے چند روز میں ہی بورژوازی سے زیادہ ترقی پسند اقدامات کیے جو محنت کش طبقے کے شعوری ارتقاء کے مالیکیولر پراسیس کا واضح ثبوت ہے اور محنت کشوں کو جاہل بولنے والے دانشوروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ زین کا کہنا تھا کہ پیرس کمیون قیادت کے فقدان اور نظریاتی ابہام کے باعث اس انقلاب کو پورے فرانس تک پھیلانے اور ریاست کے ڈھانچے کو توڑنے میں ناکام رہا جس کے باعث فرانسیسی سرمایہ داری جرمن سرکار سے مدد لیتے ہوئے فرانس پر حملے کرواتی ہے۔ اور بالآخر دس ہفتے قائم رہنے کے بعد پیرس کمیون کو آگ اور خون میں نہلا دیا گیا اور ایک ہفتے میں کم از کم 30 ہزار لوگوں کی لاشوں پر فرانس میں بورژ وا پرچم لہرایا گیا۔ زین نے اپنی بات کا اختتام اس بات پر کیا کہ پیرس کمیون نے محنت کش طبقے کی جدوجہد کو نیا رستہ دکھایا اور اس کو واضح کیا کہ انقلابی پارٹی کی تعمیر کے بغیر انقلاب کی کامیابی ناممکن ہے۔

زین کی تفصیلی بات کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

اس کے بعد اسلام آباد سے لقمان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پیرس کمیون کا واقعہ واضح کرتا ہے کہ درست نظریات سے لیس انقلابی قیادت کے بغیر تمام تر جرات و بہادری کے باوجود محنت کش طبقہ سوشلسٹ سماج کے قیام میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

کراچی سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کا کہنا تھا انقلاب کی کامیابی کا دارومدار حکمران طبقے کے خاتمے تک نہیں ہوتا بلکہ اس سے اہم فریضہ محنت کش طبقے کے راج کو درست بنیادوں پر تعمیر کرنا ہوتا ہے جو شعوری قیادت کے بغیر ممکن نہیں۔

خیبرپختونخوا سے صدیق جان نے پیرس کمیون کے اسباق پر بحث کی کہ انقلاب کے مرحلے پر انقلاب کی کامیابی کیلئے مسلح جدوجہد سے پیچھے ہٹنا انقلاب کو ناکام کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

بلوچستان سے سیما نے انقلابی پارٹی کا نہ ہونا پیرس کمیون کی ناکامی کا اہم سبب قرار دیا۔

جنوبی پنجاب سے راول اسد نے آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی انقلابی پارٹی کی تعمیر کیلئے پیرس کمیون کے تجربے سے قیمتی نتائج اخذ کرنے پر زور دیا۔

سوالات کی روشنی میں گفتگو کو سمیٹتے ہوئے زین کا کہنا تھا کہ پیرس کمیون میں پہلی مزدور حکومت قا ئم ہوئی تھی مگر صرف چند روز قائم رہنے والی حکومت نے منصوبہ بند معیشت اور مزدور ریاست کی برتری کو واضح کیا کہ مستقل مسلح جتھوں کا خاتمہ کردیا گیا، چند ہی روز میں جنگ زدہ ملک میں ڈاک کا شعبہ تعمیر کیا، نجی ملکیت پر کاری ضرب لگائی اور اجتماعی ملکیت کا پہلا مظہر انسانیت کے سامنے لایا۔

چوتھا سیشن

تیسرے سیشن کے اختتام کے بعد ایک گھنٹے کیلئے کھانے کا وقفہ کیا گیا۔ کھانے کے وقفے کے بعد چوتھے سیشن کا کا آغاز کیا گیا۔ چوتھے سیشن کا موضوع ”مارکسی نظریہ بحران“ تھا جس پر تفصیلی بات آدم پال نے کی جبکہ اس سیشن کو چئیر رائے اسد نے کیا۔

آدم نے گفتگو کا آغاز سرمایہ داری کے عالمی بحران سے کیا۔آدم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھوک، ننگ اور بے روزگاری کے عفریت سے گزر رہی ہے، عالمی پیمانے پر جی ڈی پی گروتھ کم ہو رہی ہے۔ سرمایہ داری کا تمام سفر ایسے بحرانات سے بھرپور ہے اور یہی سرمایہ داری کے چلنے کا طریقہ کارہے کہ ہر 20-30 سال بعد بحرانات آتے ہیں جو اربوں لوگوں کے معیار زندگی کو برباد کرتے ہیں اور شدید بے روزگاری اور مہنگائی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ کہ یہ بحرانات آتے کیوں ہیں؟

آدم کا کہنا تھا کہ عام طور پر بورژوا معیشت دان بحرانات کو لے کر سطحی تجزیے فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی جانب سے کبھی تجارتی جنگ، کبھی بے تحاشا قرضوں، کبھی تجارتی پالیسیوں، کبھی مانیٹری پالیسی اور کبھی کسی اور امر کو بحران کا سبب بیان کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ تمام علامات ہیں۔ کارل مارکس وہ واحد شخص تھا جس نے ان بحرانات کے سائنسی اسباب بیان کئے کہ زائد پیداوار ہی وہ سبب ہے جو سرمایہ داری کو ہر وقت بحرانات کے بھنور میں پھنسائے رکھتا ہے۔ آدم کے الفاظ میں سرمایہ داری میں تبادلے کی غرض سے اشیا پیدا کی جاتی ہیں جس کا مقصد منافعے کا حصول ہوتا ہے۔ منافعے کا منبع چونکہ مزدور کی غیر ادا شدہ محنت ہے، اس لیے مزدور اپنی حاصل کردہ اجرت سے یہ زائد پیدا کردہ اشیا خرید نہیں سکتا جو کہ زائد پیداوار کے بحران کا سبب بنتا ہے۔

آدم نے زائد پیداوار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری میں زائد پیداوار سے مراد ہے کہ لوگوں کی خریدنے کی قوت سے زیادہ اشیا کا موجود ہونا نا کہ لوگوں کی ضرورت سے زائد اشیا کا ہونا۔ اور سرمایہ داری کی خاصیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کے خریدنے کی صلاحیت کو مدِ نظر نہیں رکھتی اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر سرمائے کی طاقت کے زیرِ تسلط پیداوار کو بڑھاتی ہی جاتی ہے۔ نتیجتاً زائد پیداوار کا بحران شدید تر ہوتا جاتا ہے۔

آدم کا کہنا تھا کہ عام طور پر سرمایہ داری کے بحران کا سبب کھپت کی کمی کو کہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ سرمایہ داری کے بحران کو بیان نہیں کرتا چونکہ تمام بحرانات اْبھار کے عہد کے بعد آئے ہیں اور اْبھار کے اس عرصے میں اجرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ درحقیقت اس بحران کا سبب وہ زائد پیداوار ہے جو اس ترقی کے عہد میں ہوئی۔ آدم کا کہنا تھا کہ یہ دراصل بحران ہوتا ہے جس سے نکلنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے مثلاً ریاستی مداخلت سے لوگوں کو قرضے فراہم کرکے، نئے نوٹ چھاپ کر، لوگوں کے ٹیکسوں کے پیسے سرمایہ داروں کو نواز کر وغیرہ، مگر یہ تمام طریقہ کار پھر نئے بحران کی کھائی میں لے جاتے ہیں۔ تو ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بحران سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں سوائے اس کو اْکھاڑ پھینکنے کے۔

آدم نے اپنی بات کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں طلب کی کمی کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کی ضرورت ختم ہوگئی بلکہ اس کا مطلب ہے کہ لوگ خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں مگر کھانا خریدنا ممکن نہیں، پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر طلب کی کمی کے باعث صلاحیت سے کم پیدا کیا جاتا۔ نتیجتاً آج سرمایہ داری پیداواری قوتوں کو مزید آگے بڑھانے سے قاصر ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام کو ہی اْکھاڑ پھینکا جائے۔

آدم کی تفصیلی بات کے بعد شرکاء کے سوالات آئے اور پھر دیگر شرکاء نے گفتگو میں حصہ لیا۔

جنوبی پنجاب سے فرحان رشید کا کہنا تھا کہ عام طور پر شرحِ منافع کی گراوٹ کو بحران کا سبب بتایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک رجحان ہے مگر بحران کا بنیادی سبب زائد پیداواریت ہی ہے۔

بلوچستان سے کریم پرہار نے سرمایہ دارانہ نظام کے زائد پیداوار کے بحران سے نکلنے کیلئے نئی منڈیوں کے حصول کی جدوجہد پر بات کی۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں سامراجی جنگوں کا اْبھار نظر آتا ہے۔

خیبرپختونخوا سے خالد مندوخیل کا کہنا تھا مارکسزم اس بحران کی سائنسی توجیہات بیان کرتا ہے اور سوائے مارکسزم کے کوئی اور طریقہ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔

لاہور سے ثناء اللہ جلبانی نے سرمایہ دارانہ نظام کے طریقِ پیداوار کے تضادات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے کہا کہ یہ حتمی طور پر زائد پیداوار کے بحران کو جنم دیتا ہے۔

آخر میں آدم پال نے تمام سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اس سیشن کی بحث کو بھی سمیٹا اور دو روزا مارکسی سکول کے اختتامی الفاظ بھی ادا کیے۔ آدم کا کہنا تھا کہ سرمایہ دار کے منافع کا حصول تب ہی ممکن ہے جب تک اس کی اشیا بکتی رہیں۔ مگر سرمایہ دار اس زائد پیداوار کے بحران میں لوگوں کو اشیا مفت فراہم نہیں کرتا بلکہ ریاست لوگوں کو سبسڈیز فراہم کرکے یا قرضے فراہم کرکے ان کی خریدنے کی قوت بڑھاتی ہے تاکہ منافعوں پر کوئی ضرب نہ آئے۔ آدم کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کبھی کوئی ایک ایسا بحران نہیں آئے گا جو اس نظام کو ہی ختم کر دے بلکہ بد سے بدتر بحرانات آتے رہیں گے اور انسانوں کی اکثریت کے معیار زندگی کو تباہ و برباد کرتے رہیں گے، مہنگائی بڑھاتے رہیں گے، بے روزگاری میں اضافہ کرتے رہیں گے تا وقت یہ کہ ایک شعوری کاوش سے یعنی کہ سوشلسٹ انقلاب سے سرمایہ ادرانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ایک سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے۔ ایک ایسا نظام جس کے اندر تمام اشیا لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پیدا کی جائیں گی نہ کہ اربوں لوگوں کے لہو پر منافعوں کے ڈھیر بنانے کیلئے۔ آدم کا کہنا تھا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کیلئے ضروری ہے کہ مارکسزم کے سائنسی نظریات کی بنیاد پر ایک عالمگیر انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے اور پروگریسو یوتھ الائنس کے اس سکول کا اہتمام بھی اسی انقلابی پارٹی کی تعمیر کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.