سانحہ مری: سوشل میڈیا پر سخت رد عمل۔۔عوام نے حکمرانوں کو قاتل قرار دے دیا

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

8 جنوری 2022ء کو مری کے مقام پر ملک بھر سے سیر و تفریح کیلئے گئے کئی لوگ تباہ حال انفراسٹرکچر اور شدید برف باری کے سبب پھنس گئے اور مجرمانہ ریاستی غفلت کے سبب حالیہ اطلاعات کے مطابق 22 سے ذائد لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ اس اندوہناک سانحہ پر ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ عمر ریاض (سابقہ چیئر مین، پروگریسو یوتھ الائنس) کا کہنا تھا کہ ”مری میں ہونے والی اموات حادثاتی نہیں بلکہ ریاستی غفلت کا نتیجہ ہیں۔ ان سب کی قاتل ریاست ہے۔ ان اموات کو روکا جا سکتا تھا، اگر ریسکیو ٹیمز دستیاب ہوتیں۔“ مرنے والے عام محنت کش تھے، اگر حکمران طبقے کے لوگ ہوتے تو فوراًتمام تر ریاستی مشینری حرکت میں آجاتی۔“ مزید عمر ریاض کا کہنا تھا کہ ”اگر ہم ایک انسانی زندگی چاہتے ہیں جس میں ہماری زندگی کی ضمانت یقینی ہو تو ہمیں موجودہ مزدور دشمن ریاست کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ایک مزدور ریاست کو قائم کرنا ہوگی بصورت دیگر انسانیت خطرے میں ہے۔“

لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان انقلابی شاعر رائے اسد لکھتے ہیں:

یہ جو لوگ یونہی حادثوں میں مارے جاتے ہیں
یہ بے موت مرنے کے لیے ہی اتارے جاتے ہیں؟

لبرلزم پر مارکسی تنقید“ نامی کتاب کے مصنف اور عالمی مارکسی رجحان کے رہنما پارس جان کا کہنا تھا ”بھائی لگی لپٹی بہت ہوئی۔ بات صاف اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مٹھی بھر اشرافیہ کی لوٹ مار سے جمع کی گئی دولت کو ضبط کر کے جب تک عوامی فلاح و بہبود اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ نہیں کیا جاتا، موت یا موت کے خوف کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ہے۔“

بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یاسر ارشاد نے فیس بک پر لکھا کہ ”نام نہاد محب وطن میڈیا یہ ثابت کرنے لگا ہوا ہے کہ جدھر سانحہ ہوا وہ جگہ مریخ پر واقع تھی اور غیر آباد تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ راولپنڈی سے مری تک جہاں جہاں موقع ملا، اہل اقتدار نے اس جگہ پر قبضہ کیا، اس کو کمرشل استعمال میں لائے۔ مری سے پنڈی کے درمیان کون سی جگہ غیر آباد رہ گئی ہے؟ ہر جگہ یا تو سول و عسکری محکموں کے پاس ہے یا کمرشل مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔۔۔ مری میں سویلین اور عسکری اداروں کے درجنوں ریسٹ ہاؤسز موجود ہیں۔ کیا لوگوں کو ادھر منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا؟“

صبغت وائیں، جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں، اور لال سلام میگزین اور ویب سائٹ کیلئے مضامین لکھتے ہیں، کا کہنا تھا کہ ”ان اموات کا محرک صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام ہے۔۔۔میں نے جس وقت یہ خبر دیکھی اسی وقت لالچ کے ایک گھٹیا مظہر کی حقیقت میرے دماغ کو کچوکے دینا شروع ہو گئی تھی کہ یہ لوگ جان بوجھ کر رش پڑنے دیتے ہیں۔ پھر جب اچھی طرح لوگ پھنس جاتے ہیں تو ٹائر پر چڑھانے والی دو تین سو روپے مالیت کی زنجیر کا ”کرایہ“ فی کلو میٹر آٹھ آٹھ ہزار پھنسے ہوئے خاندانوں سے مصیبت میں زبردستی نکلواتے ہیں۔۔۔بدترین مغائرت اور بیگانگی کے مظاہر ہی دیکھنے میں آ رہے ہیں، یہاں تک کہ فوج جس کا کام ہی پروفیشنلی عوام کو مصیبت سے بچانا ہے، فوٹو سیشن میں مصروف ہیں۔ لوگ لاشوں کی تصاویر بنا رہے ہیں۔ اور میڈیا پر آ کر شاید میڈیا کی ہدایت کے مطابق الم ناک داستانیں سناتے ہوئے کہ ”ہم دس گھنٹے پیدل چلے کسی نے پوچھا نہیں، لفٹ نہیں دی۔۔۔لیکن پاک فوج اور رینجر بڑا شاندار کام کر رہے ہیں“۔۔۔باقی سڑکوں پر جتنے بھی ٹال پلازے ہیں ان سے رقم بٹورنے کا کام تو مدت مدید سے پاک فوج ہی کر رہی ہے۔ تو اگر آج برف ہٹانے میں خود اپنی اور ٹال ٹیکس بھرنے والے عوام کی کچھ مدد کر دی تو اس میں اتنے پراپیگنڈے کی کیا ضرورت ہے؟ دنیا کے ہر ملک کی فوج یہ کام کرتی ہے، یہ کوئی انوکھا کام نہیں۔“

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر شعیب کیانی کا کہنا تھا کہ ”اگر ساتھ ساتھ مشینیں سڑک صاف کرتی رہتیں تو مری میں ہلاکتیں نہ ہوتیں، گزشتہ سالوں میں اس سے کہیں زیادہ برف پڑتی رہی ہے 2016ء میں مارگلہ تک برف پڑی تھی اور اس سے زیادہ سیاح مری جاتے رہے ہیں۔ لیکن ہمارے دانشوروں نے وہی وکٹم بلیمنگ شروع کر دی ہے۔ لوگ گھر سے کیوں نکلے۔۔۔موسم دیکھ لیتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب لوگ برفباری دیکھنے کے لیے برفباری میں ہی مری جائیں گے یا جون جولائی میں جائیں گے؟ یہ کوئی کے ٹو یا کارگل تو نہیں تھا کہ تودے گرتے یا برفانی طوفان آ جانے کا خوف ہوتا۔ انہوں نے پیٹرول پہ ٹیکس دیا، ٹول ٹیکس دیا، گاڑی کے ٹوکن پر ٹیکس دیا، ان کا حق تھا کہ انہیں سڑک کھول کر دی جاتی اور انہیں اپنی منزل تک آنے جانے کا راستہ مہیا کیا جاتا۔ یہ لوگ درست وقت پر درست جگہ گھومنے گئے تھے لیکن غلط حکمرانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.