ملتان: ”ہلہ بول“ مرکزی یوتھ کنونشن کا انعقاد۔۔۔اٹھو انقلاب پکارتا ہے!

|رپورٹ: مرکزی انفارمیشن سیکرٹری، عرفان منصور|

8دسمبر 2022ء کو ملتان میں ترقی پسند طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کا مرکزی یوتھ کنونشن منعقد ہوا۔ مرکزی یوتھ کنونشن میں سات سو سے زائد کی تعداد میں ملتان کے مختلف تعلیمی اداروں سمیت ملک کے طول و عرض سے طلبہ، نوجوانوں، ترقی پسند سیاسی کارکنان اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ یہ کنونشن انتہائی مشکل معاشی صورت حال کے اندر منعقد کیا گیا۔ بہر حال طلبہ و نوجوانوں اور محنت کشوں نے اسے منعقد کرنے میں بھرپور مدد کی اور انتہائی سخت معاشی حالات کے باوجود دل کھول کر چندہ دیا۔ طلبہ اور محنت کشوں کے انہی دس دس، بیس بیس روپوں سے ہی کنونشن کے تمام انتظامات بروئے کار لائے گئے۔ یہ پاکستان میں حقیقی انقلابی سیاست اور طلبہ و محنت کشوں کے فطری اتحاد کی شاندار مثال ہے۔

اس کنونشن کو منعقد کرنے میں صرف مالی مشکلات ہی درپیش نہیں تھیں بلکہ انتظامی مشکلات کا بھی سامنا رہا۔ طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے بات ویسے تو کسی تعلیمی ادارے کی حدود کے اندر ہونی چاہیے تھی، مگر پی وائی اے کو ملتان میں کسی بھی تعلیمی ادارے میں کوئی ہال نہیں فراہم کیا گیا اور نہ ہی کوئی سرکاری ہال دیا گیا، جس کے بعد طلبہ کو مجبوراً بھاری بھرکم رقم ادا کر کے ایک شادی ہال لینا پڑا۔

یہ کنونشن ایک ایسے وقت میں منعقد کیا گیا جب پوری دنیا ایک انتہائی اذیت ناک دور سے گزر رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس وقت یہ انسانوں کو سوائے اذیت کے کچھ اور دینے سے قاصر ہے۔ پوری دنیا میں انسانوں کی اکثریت کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، افلاس، جنگ اور قتل و غارت جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ جہاں آئے روز یہ مسائل شدت اختیار کرتے جارہے ہیں وہیں ان کے خلاف مزاحمت بھی جنم لے رہی ہے۔ ان مسائل کا شکار اربوں لوگ اب اس سارے ظلم و جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں عوامی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ سری لنکا اور ایران کی عوامی تحریکیں دنیابھر کے محنت کشوں میں مزاحمت کی روح پھونک رہی ہیں۔ چین میں محنت کشوں کی ہڑتالیں اور انڈیا میں مودی سرکار کو ناکوں چنے چبوانے والی کسان تحریک عوامی مزاحمت کی شاندار مثالیں ہیں۔

پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال بھی دنیا سے جدا نہیں ہے۔ ایک طرف جہاں عوام تباہ حالی کا شکار ہیں وہیں حکمران طبقے کی عیاشیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ حکمران مال کی لوٹ مار کیلئے آپس میں لڑ رہیں ہے۔ کسی کے پاس ان تمام مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے اور عوام کے مسائل کو حل کرناان کا مقصد بھی نہیں ہے۔ ان کا مقصد صرف لوٹ مار کرکے اپنی تجوریاں بھرناہے۔ کوئی سیاسی پارٹی عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کے پاس سوائے مزاحمت کے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس وقت مزاحمت اور اس نظام کے خلاف عملی جدوجہد ہر نوجوان پر فرض ہوچکی ہے۔

اسی لیے پروگریسو یوتھ الائنس کے تیسرے مرکزی یوتھ کنونشن کا نام ”ہلہ بول“ رکھا گیا۔ اس کنونشن کے ذریعے طلبہ و نوجوانوں تک واضح طور پر یہ پیغام پہنچایا گیا کہ پاکستان کے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کیلئے اب اس سرمایہ دارانہ نظام میں ما سوائے ذلت، محرومی، بیروزگاری اور جہالت کے کچھ نہیں ہے، لہٰذا اب سرمایہ دارانہ نظام پر ہلہ بولنے کا وقت آگیا ہے۔

”ہلہ بول“ مرکزی یوتھ کنونشن کے انعقاد سے پہلے پاکستان کے مختلف علاقوں میں صوبائی و سٹی کنونشنز منعقد کیے گئے جن میں راولاکوٹ (کشمیر، صوبائی)، کوئٹہ (بلوچستان، صوبائی)، کراچی (سٹی)، لاہور (سٹی)، ڈیرہ غازی خان (سٹی)، بہاولپور (سٹی)، کشمور (سٹی) اور تونسہ (سٹی) شامل ہیں۔ ان کنونشنز کی کمپئین کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لیف لیٹ چھاپے گئے اور پاکستان کے طول و عرض میں بیروزگاری، جنسی ہراسانی،مہنگی تعلیم، قومی جبر اور سرمایہ داری کے خلاف جنگ کا پیغام طلبہ و نوجوانوں تک پہنچایا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ 2 نومبر2022ء کو ملک کے 15 سے زائد شہروں میں سیلاب زدہ علاقوں کے طلبہ کی فیسوں کے خاتمے کیلئے ملک گیر ”ڈے آف ایکشن“ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ 2نومبر کو ملک کے 15 سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔

”ہلہ بول“ مرکزی یوتھ کنونشن میں پورے ملک سے نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ ملک بھر کی 16 سے زائد یونیورسٹیوں سے طلبہ کے وفود اس کنونشن میں شریک ہوئے۔ ان میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان، پونچھ یونیورسٹی کشمیر، میر پور یونیورسٹی کشمیر، سرگودھا یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور، بلوچستان یونیورسٹی، لطیف یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ایف سی کالج لاہور، نمل یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور اور غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان سمیت دیگر شامل تھیں۔ اسکے علاوہ مختلف کالجز اور کشمور سے سیکنڈری سکول کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔ ملتان شہر کے مختلف تعلیمی اداروں اور علاقوں سے بھی طلبہ و نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کنونشن میں شامل ہوئی۔ ان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ایمرسن یونیورسٹی ملتان، سائنس کالج ملتان، ولایت حسین کالج ملتان، ملتان لاء کالج، انسٹیٹیوٹ آف سدرن پنجاب، شمس آباد، نیو ملتان وغیرہ شامل تھے۔ طلبہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی بھی بڑی تعداد کنونشن میں شامل تھی۔ ان میں نیشنل ہیلتھ پروگرام پنجاب پاکستان کی صدر رخسانہ انور کی قیادت میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے وفد سمیت دیگر اداروں کے محنت کش شامل تھے۔ اسی طرح محنت کشوں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کی اعلیٰ قیادت بھی کنونشن میں موجود تھی۔

کنونشن کا آغاز دن 12 بجے ہوا۔ کنونشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض عرفان منصور نے ادا کیے۔ عرفان نے ملتان سمیت ملک بھر سے آنے والے طلبہ، نوجوانوں، ترقی پسند سیاسی کارکنان اور محنت کشوں کو خوش آمدید کہا اور انتہائی مشکل معاشی حالات میں اس کنونشن کا حصہ بننے پر انکے انقلابی جذبات کو سراہا۔

کنونشن کی افتتاحی تقریر پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے آرگنائزر راول اسد نے کی۔ راول اسد نے ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران اور اس صورتِ حال میں مزاحمت کی ضرورت اور پروگریسو یوتھ الائنس کے تعارف اور اہمیت پر بات کی۔ راول کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے صدام وزیر نے سرمایہ داری کے زوال اور طلبہ پر اسکے اثرات کا تفصیلی خاکہ کھینچا۔ صدام کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے صدر ساجد خان نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل تیز کرنا ہوگا، جس میں پی وائی اے قائدانہ کردار ادا کرے گی۔ میرپور یونیورسٹی کشمیر سے آئے ہوئے عبید ذوالفقار نے سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت اور طلبہ کے تاریک مستقبل کے تعلق باہمی اور انقلابی جدوجہد کی ناگزیریت پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعدنیشنل ہیلتھ پروگرام پاکستان پنجاب کی صدر رخسانہ انور کو بات کرنے کیلئے مدعو کیا گیا۔ انہوں نے مزاحمت اور حق کی جدوجہد میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر بات کی۔ رخسانہ انور صاحبہ کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس گوجرانوالہ کی صدر سحر وائیں نے گوجرانوالہ کے طلبہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے جاری جدوجہد میں پی وائی اے کے قائدانہ کردار کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔ سحر کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی صدر ڈاکٹر آفتاب اشرف نے شرکاء سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر آفتاب اشرف کا کہنا تھا کہ اس سماج میں اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ ہر چیز کثرت سے پیدا کی جا سکتی ہے اور تمام تر قلت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اتنی ادویات بنائی جاسکتی ہیں کہ مریض کم پڑ جائیں، اتنا کپڑا پیدا کیا جا سکتا ہے کہ تن کم پڑ جائیں مگر اس کے لیے ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ پاکستان میں انقلاب بہت قریب ہے اور ہمارا مقابلہ وقت سے ہے کہ ہمیں اس انقلابی تحریک سے قبل اپنے آپ کو اس قدر مضبوط بنانا ہے کہ ہم تمام عوامی تحریکوں کو انقلاب کی حتمی منزل سے ہمکنار کرسکیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ شاکر نے بھی طلبہ سے آج کے وقت کے انقلابی تقاضوں کے حوالے سے بات کی۔ اس کے بعد عالمی مارکسی رجحان کے راہنما آدم پال کو بات کیلئے دعوت دی گئی۔ آدم پال نے طبقاتی سماج کی عفریت، اس کے طبقاتی کردار اور اس کو ایک سوشلسٹ معاشرے سے تبدیل کرنے کی اہمیت، ضرورت اور فائدوں پر بات کی۔

اس کنونشن میں مزاحمتی شعراء بھی شریک ہوئے جو گاہے بگاہے حاضرین کو اپنی انقلابی شاعری سے محظوظ کرتے رہے اور داد سمیٹتے رہے جن میں نوجوان شاعر راکب مختار، آصف لاشاری، خالد خلیل، ہاتم بلوچ، خالد ندیم شانی اور مومن مولائی شامل تھے۔ شعراء کرام کی انقلابی شاعری، انکے اندر پنہاں پیغام، حاضرین کی طرف سے دکھائے گئے جوش کا اظہار لفظوں میں بیاں نہیں کیا جاسکتا۔

کنونشن کے اختتامی مراحل میں پروگریسو یوتھ الائنس کے صدر عمر ریاض نے نئی کابینہ کا اعلان کیا اور نو منتخب کابینہ سے حلف لیا۔

نو منتخب کابینہ:

فضیل اصغر (صدر)
آنند پرکاش (جنرل سیکرٹری)
عبید ذوالفقار (سینئر نائب صدر)
نیئر عباس (نائب صدر)
صدام وزیر (ڈپٹی جنرل سیکرٹری)
جوائنٹ سیکرٹری (غلام محمد)
عرفان منصور (انفارمیشن سیکرٹری)
ثناء اللہ جلبانی (فنانس سیکرٹری)
یار یوسفزئی (کلچرل سیکرٹری)

کابینہ کے حلف کے بعد نو منتخب صدر فضیل اصغر نے کنونشن کے اختتامی کلمات ادا کیے۔ فضیل نے پاکستان میں غلیظ سیاست، انقلاب کی ضرورت اور پروگریسو یوتھ الائنس کے کندھوں پر موجود تاریخی ذمہ داری کے حوالے سے بات کی اور مستقبل قریب میں تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف مورچہ بند ہونے کا اعلان بھی کیا۔

ہر شاعر کے انقلابی شعروں اور مقررین کی شعلہ بیانی کے جواب میں پورا ہال انقلابی نعروں سے گونجتا رہا۔ اس کنونشن کا اختتام فاروق محرم کی موسیقی پر ہوا۔ اختتام پر تمام نوجوان اپنی کرسیاں چھوڑ کر رقص کا حصہ بن گئے اور فاروق محرم کی گائی گئی فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پر پورا پنڈال جھوم اٹھا۔

ملتان میں منعقد ہونے والا پروگریسو یوتھ الائنس کا مرکزی کنونشن پاکستان میں نوجوانوں اور طلبہ کی حقیقی انقلابی سیاست کا آغاز ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس بیروزگاری، جنسی ہراسانی،مہنگی تعلیم، قومی جبر اور سرمایہ داری کے خلاف اس جدوجہد کو پاکستان کے ہر ایک کوچے تک لے کر جائے گا اور پورے ملک میں نوجوانوں، طلبہ اور محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرتے ہوئے تمام مسائل کے حل اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک اس جدوجہد کو جاری رکھے گا۔ ہم تمام نوجوانوں اور طلبہ کو دعوت دیتے ہیں کہ سرمایہ داری کے خلاف اس جدوجہد میں پروگریسویوتھ الائنس کا حصہ بنیں اور اپنی اپنی الگ الگ لڑائیاں لڑنے کی بجائے متحد ہو کر ان تمام مسائل اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہلہ بولیں۔

بول رے ساتھی ہلہ بول!
بیروزگاری پہ ہلہ بول!
قومی جبر پہ ہلہ بول!
جنسی ہراسانی پہ ہلہ بول!
سرمایہ داری پہ ہلہ بول!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.