عالمی کمیونسٹ تنظیم انٹرنیشنل مارکسسٹ تنظیم (IMT) کے پاکستان سیکشن کے مرکزی رہنما آدم پال کی خصوصی تحریر
اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو 75 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس تمام عرصے میں ہر آنے والا دن فلسطینیوں پر مظالم کی نئی داستان لے کر آتا ہے۔ لیکن بد ترین جبر اور دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود اسرائیل کے غاصب حکمران فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکے اور وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
اس سال 7 اکتوبر کو اس ظلم اور بربریت کی داستان میں ایک نئے ہولناک باب کا اضافہ ہوا جب اسرائیل کی صیہونی و سامراجی ریاست نے غزہ کی پٹی پر بد ترین حملے کا آغاز کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں اب تک 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف کے قریب تعداد بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین اور بزرگ بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ غزہ کی پٹی میں رہنے والے پچیس لاکھ کے قریب آبادی کو جبری طور پر بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں مصر میں دھکیلا جا رہا ہے تاکہ اس تمام زمین پر بھی اسرائیل اپنا غاصبانہ قبضہ کر سکے۔ غزہ کی پٹی کے بہت سے شہروں کو بمباری کے ذریعے ملیا میٹ کر دیا گیا ہے اور ہزاروں رہائشی عمارتیں اور مکان تباہ کر دیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور وہاں بھی بدترین بمباری کر کے بہت سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ غزہ پر ایک زمینی حملہ بھی کیا گیا ہے اور ٹینکوں اور توپوں کے ساتھ وہاں کے نہتے افراد پر بد ترین جبر کا سلسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اس تمام عمل میں اسرائیل کے حکمرانوں کو امریکی سامراج سمیت یورپ اور دنیا کے دیگر سامراجی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ اس کی مالی اور عسکری امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن دوسری جانب دنیا بھر کے محنت کش عوام فلسطین کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ملک کے حکمرانوں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف بھرپور احتجاج کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کیا جا سکے اور فلسطین کی آزادی کی تحریک کو کامیاب بنایا جا سکے۔
اس حوالے سے یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں ہونے والے احتجاج تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور پہلی دفعہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان اور محنت کش فلسطین کی آزادی کی تحریک کی حمایت میں باہر نکلے اور اپنے اپنے ملک کے حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اسپین سمیت پورے یورپ میں ہر ہفتے اور اتوار کو لاکھوں افراد نے احتجاج کیے اور اپنے ملک کے حکمرانوں کی سخت ترین الفاظ میں نہ صرف مذمت کی بلکہ ان کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کریں اور فلسطینیوں کا قتل عام فوری طور پر بند کروائیں۔
ان سامراجی ممالک کے حکمران اس پیمانے پر احتجاجی تحریک کی توقع نہیں کر رہے تھے اور انہیں لگتا تھا کہ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی اسرائیل کی گماشتہ سامراجی ریاست کی غیر مشروط امداد جاری رکھیں گے اور فلسطینیوں کا ایک دفعہ پھرقتل عام کروا کر ان کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن محنت کش عوام کے بھرپور احتجاج نے ان کے منصوبوں کو بڑے پیمانے پر زد پہنچائی اور انہیں خود اپنا اقتدار لرزتا ہوا محسوس ہوا۔
اس بھرپور عوامی رد عمل سے خوفزدہ ہو کر انہوں نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں پر بدترین ریاستی جبر کا بھی آغاز کر دیا اور احتجاجی مظاہرین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ان پر مقدمات بنانے کے عمل کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان احتجاجوں میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس کو بھیجا گیا تاکہ مظاہرین پر بدترین لاٹھی چارج کیا جائے اور انہیں فلسطین کے حق احتجاج کرنے پر گرفتار کر کے سزائیں دی جائیں۔ اس حوالے سے ان مغربی ممالک میں نام نہاد آزادی اظہار رائے پر بھی بد ترین پابندیاں لگائی گئیں اور تمام جمہوری حقوق مکمل طور پر سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔
دنیا کی نامور یونیورسٹیوں بشمول ہارورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج، زیورخ میں جہاں جمہوری حقوق کے حوالے سے لمبے لمبے بھاشن دیے جاتے ہیں اور یہ یونیورسٹیاں پوری دنیا میں جمہوریت کی ٹھیکیدار سمجھی جاتی ہیں وہاں بھی فلسطین کی آزادی کے حق میں گفتگو کرنے پر سخت ترین پابندیاں لگا دی گئیں اور اس حکم کی نافرمانی کرنے والے طلبہ کو یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا۔
اس تمام عمل میں مغربی ممالک میں جمہوری حقوق کی پاسداری کی تمام تر منافقت عیاں ہو چکی ہے اور واضح ہو چکا ہے کہ وہاں پر کسی بھی قسم کے جمہوری حقوق موجود نہیں اور حکمران طبقہ اپنے مفادات کے خلاف گفتگو کرنے اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو دنیا کے پسماندہ ممالک اور بد ترین آمریتوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کا انتہائی غلیظ اور منافقانہ کردار بھی کھل کر بے نقاب ہو گیا جہاں نہ صرف اسرائیل کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کو اپنے دفاع کا حق بتا کر کھل کر اس کی حمایت کی گئی جبکہ شہید ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کی موت پر ایک آنسو بہانا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اس منافقت میں میڈیا کی دنیا کے تمام بڑے نام بشمول بی بی سی، سی این این، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ٹیلی گراف اور دیگر اخبارات اور ٹی وی چینل شامل ہیں جو سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی دلالی کرتے رہے۔
اس صورتحال نے ان ممالک کے محنت کش عوام کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا اور وہ اس میڈیا کے خلاف بھی احتجاج کرتے رہے۔ اس دوران بہت سے اخبارات نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا اور کہا کہ جو بھی فلسطین کے حق میں نعرے لگائے اس پر دہشت گردی کے مقدمات بنا کر سزا دینی چاہیے۔ اسی طرح برطانیہ، فرانس اور دیگر نام نہاد جمہوری ممالک کے بہت سے اہم وزیروں اور مشیروں نے بھی احتجاجی مظاہرین کے خلاف غلیظ اور گھٹیا بیانات دیے جس کے باعث عوام کا غم و غصہ مزید بڑھتا گیا اور مظاہرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ برطانیہ کی وزیر داخلہ نے لندن پولیس کو مورد الزام ٹھہرا دیا اور کہا کہ پولیس اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہی ورنہ اتنے بڑے احتجاج نہیں ہو سکتے تھے۔
ایک وقت میں لندن میں آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے فلسطین کی آزادی کے حق میں احتجاج کیا اور ان وزیروں کے استعفے کا مطالبہ کیا جو غلیظ بیانات دے رہے ہیں۔ اس کے بعد برطانیہ کی وزیر داخلہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح امریکہ کے دارلحکومت واشنگٹن میں بھی لاکھوں لوگوں نے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کی مذمت میں احتجاج کیا اور امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں گھسنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے علاوہ نیو یارک سمیت درجنوں امریکی شہروں میں ہزاروں افراد کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
اسی طرح ان ممالک کی مزدور تنظیموں نے بھی احتجاج اور ہڑتالوں کا آغاز کیا اور واضح کیا کہ وہ اسرائیل کو سپلائی کیے جانے والے ہتھیاروں کو بندرگاہوں پر لوڈ اور اَن لوڈ نہیں ہونے دیں گے اور وہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک کار نہیں بن سکتے۔ اس حوالے سے اسپین کے شہر بارسلونا کی بندرگاہ کے محنت کشوں کی ہڑتال قابل ذکر ہے جبکہ اٹلی، بیلجئیم اور دیگر ممالک کے محنت کشوں نے بھی ہڑتالیں کر کے اسرائیل کے غاصبانہ حملے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح امریکہ اور برطانیہ میں اسلحہ بنانے والی صنعتوں کے محنت کشوں کے احتجاجوں اور ہڑتالوں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان ممالک کا محنت کش طبقہ سامراجی طاقتوں کے خلاف ہے اور ان کے اقدامات کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کرتا۔
اسی طرح نام نہاد جمہوریت کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا ہے۔ مختلف سروے میں واضح ہو چکا ہے کہ برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک میں 60 فیصد سے زائد عوام فلسطین پر جارحیت کی مذمت کرتے ہیں اور اسرائیل سے فوری جنگ بندی کروانے کے حق میں ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک کی نام نہاد جمہوری حکومتیں اسرائیل کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں اور اسے اسلحہ اور مالی امداد فراہم کر رہی ہیں۔
اس تمام عمل نے دنیا بھر میں بہت سی مصنوعی تقسیموں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ عام طور پر حکمران طبقات محنت کشوں کو مذہب، رنگ، نسل اور قوم کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر مختلف سامراجی جنگوں کو مسلط کرتے ہیں جبکہ خود حکمران طبقات اپنے مفادات کے لیے ہر وقت اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان لاکھوں افراد کے احتجاج نے واضح کر دیا ہے کہ مغربی ممالک کے محنت کشوں نے مذہب، قوم، زبان اور دیگر تقسیموں کو بالائے طاق رکھ کر فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کی بھرپور مذمت کی ہے۔
اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ دنیا میں اصل جنگ ظالم اور مظلوم کی ہے، امیر اور غریب کی ہے، طاقتور اور محکوم کی ہے، سرمایہ دار اور مزدور کی ہے۔ اس کے علاوہ تمام تضادات ایک یا دوسری شکل میں سرمایہ دارطبقے کے مفادات کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور محنت کش طبقہ حتمی کامیابی اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دے۔
فلسطین کی آزادی کے لیے ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں انقلابی کمیونسٹوں نے بھی ہر ملک میں بھرپور مداخلت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ فلسطین کی آزادی صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ دارانہ ریاستیں موجود ہیں اس وقت تک فلسطین پر جاری ظلم اور بربریت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اس نظام کا کوئی حل موجود نہیں۔
صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اسرائیل کی سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور وہاں ایک سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جا سکتی ہے جس میں تمام مذاہب اور قوموں کے لوگ امن و آشتی سے رہ سکیں اور کوئی کسی دوسرے کا استحصال کر سکے اور نہ اس پر ظلم کر سکے۔ اس کے لیے اس خطے میں موجود، عرب ممالک میں موجود سرمایہ دارانہ ریاستوں اور ان پر براجمان گماشتہ حکمرانوں کو بھی اکھاڑ پھینکنا پڑے گا اور وہاں بھی مزدور طبقے کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا۔
مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے بعد ہی وہاں پر جنگوں اور خونریزی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہوں یا اوسلو معاہدے کے ذریعے دو ریاستی حل کا لالی پاپ، سب اقدامات ناکام ہو چکے ہیں۔ حماس اور دیگر تنظیموں کی مسلح جدوجہد پہلے بھی کئی دفعہ ناکام ہو چکی ہے اور اگر کچھ حقوق ملے بھی ہیں تو وہ بھی انتفادہ یا عوامی تحریک کے ذریعے ہی ملے ہیں۔
آنے والے عرصے میں انتفادہ جیسی عوامی تحریکیں دوبارہ ابھر سکتی ہیں جن کو کچلنے کے لیے اسرائیل کے حکمرانوں کے علاوہ فلسطین سمیت دیگر عرب ممالک کے حکمران بھی پورا زور لگائیں گے۔ لیکن سوشلسٹ نظریات کے ساتھ اگر ان تحریکوں کو اسرائیل کے محنت کشوں سمیت پوری دنیا کے محنت کش طبقے کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو اس خطے میں موجود سامراجی غلبے اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے فلسطین کی آزادی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔