|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، راولاکوٹ|
گذشتہ روز شام4 بجے راولاکوٹ آفس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیراہتمام مختلف تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیاجس میں10 طلبہ نے شرکت کی۔ اس نشست کے دوران نوجوانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بحث کی گئی۔ یاسر ارشاد نے طلبہ اور نوجوانوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے بات کی۔ اس کے ساتھ ساتھ پونچھ یونیورسٹی کے فارمیسی کے طلبہ کو درپیش ڈگری کی تصدیق کے مسئلے کو بھی زیر بحث لایا گیا۔
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے عمر ریاض نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں طلبہ بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔ تعلیم کے نام پر طلبہ کو لوٹا جارہاہے۔ آج کے دور میں عام محنت کش کا بچہ تعلیم حاصل کرنے سے مرحوم ہے۔جو طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں انہیں بھی مختلف مسائل کا سامنا ہے جن میں فیسوں میں اضافہ اور یونیورسٹی کی پراپر بلڈنگ اور دیگر ایشیوز شامل ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ سٹوڈنٹ یونین کا نہ ہونا ہے۔سٹوڈنٹ یونین طلبہ کا وہ ادارہ ہوتا ہے جو ان کے مسائل کے حل کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال قریباً بیس لاکھ سے زائد نوجوان محنت کی منڈی میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ دوسری طرف یہ نظام اتنا مفلوج ہو چکا ہے کہ روزگار کا ملنا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کسی کو روزگار مل بھی جائے تو وہ کنڑیکٹ پر ہوتا ہے جس میں کسی بھی وقت نکالے جانے کی تلوار ہر وقت منڈلاتی رہتی ہے۔
آج کے عہد میں اتنے ترقی یافتہ ذرائع پیداوار ہونے کے باوجود بیروزگاری ایک وبا کی طرح نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ روزگار کے لئے مختلف امتحان لیے جاتے ہیں۔ ایسے ٹیسٹوں کے ذریعے ایک طرف ریاستی نااہلی، اس نظام کی متروکیت اور بیروزگاری کا جواز فراہم کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اربوں روپے محنت کش طبقے کے نو جوانوں سے بٹور لیے جاتے ہیں جس سے معاشرے میں بیگا نگی جنم لیتی ہے۔ وہ نوجوان منشیات اور جرائم کی طرف رخ کرتے ہیں۔جس سماج میں موت کی خواہش جینے کی تمنا سے زیادہ ہو اور کوئی متبادل نظر نہ آ رہا ہو وہاں انفرادی لڑائی اجتمائی لڑائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اس لئے نوجوانوں کو اپنے مسائل کیلئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔اس لیے PYA آج پورے پاکستان میں طلبہ کو درست نظریات اور پروگرام پر منظم کر رہی ہے تاکہ طلبہ حقوق کی لڑائی کو آگے بڑھایا جاسکے۔