|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کوئٹہ|
تعلیمی بجٹ میں کمی کے باعث ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تمام اداروں میں بھی طلبہ کی طرف سے شدید بے چینی اور غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مختلف اداروں کے طلبہ روزانہ کی بنیاد پر تعلیمی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ 26 اپریل کو پروگریسو یوتھ الائنس کی صوبائی کابینہ طلبہ کے ہمراہ مسلسل احتجاجوں اور تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہے۔ ساتھ ہی طلبہ اور نوجوانوں سے یہ اپیل کی ہے کہ طلبہ چاہے جس بھی ادارے میں زیر تعلیم ہیں، اپنے حق کیلئے باہر نکلیں اور ان تعلیم دشمن اور طلبہ دشمن پالیسیوں کو روکنے کیلئے ایک متحد جدوجہد کا راستہ اپنائیں۔ اس حوالے سے آج پورے بلوچستان کے اندر طلبہ خود بھی ان مسائل کے خلاف ہر جگہ احتجاجی لائحہ عمل پر بحث مباحثوں کا آغاز کر چکے ہیں اور نمل یونیورسٹی اور بیوٹمز کیساتھ بہت سے طلبہ احتجاج بھی کر چکے ہیں۔
اس سلسلے میں 6 مئی 2019ء کو لاء کالج کوئٹہ میں طلباء کی طرف سے ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا جس کے اندر مندرجہ ذیل ایجنڈے کو زیر بحث لایا گیا۔
1۔ وفاقی حکومت کی طرف سے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی۔
2۔ حالیہ فیسوں میں اضافہ، جس کے اندر پروموشن فیس 1000 روپے تک بڑھائی جا چکی ہے اور ایڈمیشن فیس4700 سے 5350 کر دی گئی ہے۔
3۔ ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی عدم موجودگی۔
طلباء کا کہنا تھا کہ اسکے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے جو فیسیں لی جاتی ہیں انکے استعمال کا انہیں کوئی علم نہیں ہوتا۔ فرنیچر کی مرمت کیلئے ہر سال ایک طالب علم سے 800 روپے وصول کئے جاتے ہیں لیکن فرنیچر پر وہ کیسے اور کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ کسی کو علم نہیں۔ سب سے بڑھ کر ظلم یہ کہ سالانہ(annual) کے طلباء کے داخلے اور کلاسیں تو مارننگ میں ہوتی ہیں لیکن فیس ایوننگ کی کلاسسز کے برابر لی جاتی ہے۔ مارننگ میں فیس 10000 ہزار تھی اور ایوننگ یعنی سلف پر 30000 فیس ہے جو کہ انہی طلباء سے وصول کی جاتی ہے جن کے داخلے مارننگ کلاسسز میں ہیں۔
انتظامیہ نے پچھلے سال طلباء کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگلے سال واپس انہیں مارننگ میں شفٹ کیا جائیگا لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
میٹنگ میں شریک طلباء کا کہنا تھا کہ معاشی بحران کا سارا بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈال کر ہمیں تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے اور حالیہ ہونے والی تعلیمی مہنگائی (تعلیمی بجٹ میں کٹوتی) ہمارے بس سے باہر ہوگی جس کے بعد ہمارے پاس دو ہی راستے بچ جائینگے کہ یا تو ہم تعلیم چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں یا پھر مجبوراََ احتجاج اور جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ میٹنگ میں تفصیلی بحث کے بعد متفقہ طور پر آنے والی تعلیمی مہنگائی کے خلاف منظم اور پر امن جدوجہد کا عزم کیا گیا اور آخر تک اپنے حق کیلئے کھڑے ہونے اور آواز بلند کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کیا گیا۔
اس سلسلے میں یہ بات طے پائی کہ سب سے پہلے طلباء کی ایک ٹیم کالج کے پرنسپل کے پاس جاکر اسکو ان تمام مسائل سے خبردار کرتے ہوئے اسکے سامنے واضح کریگی کہ حالیہ فیسوں میں اضافے یا بنیادی سہولیات کا فقدان طلباء کے تعلیمی عمل پر کیا اثرات چھوڑیں گے اور اس سے مطالبہ کریں گے کہ ان مسائل کو جلد از جلد حل کیا جائے اور فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔
اگر کالج انتظامیہ کی طرف سے ان مسائل کی طرف سنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے، ان کے حل کیلئے کوشش شروع کی جاتی ہے اور فیسوں میں اضافہ واپس لیا جاتا ہے تو اس صورت میں طلباء انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے تعلیمی کیرئیر کو بخوشی جاری رکھ سکیں گے بصورت دیگر طلباء کی طرف سے واضح کیا گیا کہ وہ پرامن احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔