ملتان: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ:پی وائی ائے ملتان|

نیشنل مارکسی سکول (بہار) 2018ء کی تیاری کے سلسلے میں17فروری کوملتان میں ایک روزہ ایریا مارکسی اسکول کا منعقد ہوا۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا جس میں پہلے سیشن ’عالمی تناظر‘ پر احسن افتخار نے لیڈآف دی اور چیئر راول اسد نے کیا۔ دوسرے سیشن کا موضوع’’ سرمائے کے ارتکاز کا عمل‘‘ تھا، جس پر لیڈآف فضیل اصغر نے دی اور چیئر عبدالرحمن ساسولی نے کیا۔

عالمی تناظر پر بات کرتے ہوئے احسن نے کہا کہ آج ہم تیز ترین تبدیلوں کے عہد سے گزر رہے ہیں، حالات و واقعات کی رفتار دنوں اور گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ عالمی سیاست، معیشت اور اقتصادیات شدید گہرے بحران کا شکار ہے جس سے نکلنا کسی صورت ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ ہر وہ اقدام جو اس نظام کو بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے وہ بری طرح سرمایہ دارنہ نظام کو اور اندھی کھائی میں دھکیلنے کا سبب بن رہا ہے۔ یورپ سے لے کر امریکہ تک اور جنوبی افریقہ سے لے کر جاپان تک، دنیا کی تمام تر ریاستیں عالمی معاشی بحران کی زد میں ہیں۔ امریکی سامراج آج تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے۔ قرضوں کے بوجھ میں دباامریکی سامراج دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔اس کیفیت میں ٹرمپ کے اقتدار امیں آنے سے اس بحران میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یورپ کی حالت بھی خستہ ہے۔ بریگزیٹ کے بعد جنم لینے والی صورتحال نے یورپی یونین کو ہوا میں معلق کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں جہاں یورپی سرمایہ دار ایک ہیجانی کیفیت میں ہیں، وہیں برطانیہ میں جیرمی کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی سے ابھرنے والی تحریک شدید ہوتی چلی جار ہی ہے۔ سپین میں کیٹالونیا میں آزادی کے نعرے ، اس نظام کو چیلنج کر رہے ہیں۔ مشرق و سطیٰ میں داعش کے خاتمے کے بعد جنم لینے والی صورتحال وہاں کے غریب محنت کش عوام کی زندگیوں میں کسی قسم کی بہتری نہیں لا سکی۔ داعش کے جانے کے بعد علاقائی مسلح جتھوں نے اس کی جگہ لے لی ہے جو کہ مختلف سامراجوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔قبضے کی جنگ میں مزید لڑائیاں جنم لے رہی ہیں۔ ترکی، ایران،سعودی عرب، قطر سمیت دیگر علاقائی اور عالمی سامراج اس خطے کو بر باد کر چکے ہیں۔ افریقہ میں بھی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ چین بھی عالمی بحران کی لپیٹ میں دھنستا چلا جا رہا ہے جہاں پچھلے سال بہت بڑی بڑی ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں۔

اس کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز کے سلسلے کا آغاز ہوا جس میں معراج ہاشمی، رواح کامران اور فضیل اصغر نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اپنی بات رکھی۔ پہلے سیشن کا سم اپ راول اسد نے کیا جس میں کامریڈ نے عہد کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے محنت کشوں کی عالمی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی تاریخی اہمیت اور اس سلسلے میں عالمی مارکسی رجحان کی قوتوں کی تعمیر پر زور دیا۔

سکول کے دوسرے موضوع ’’سرمائے کے ارتکاز کا عمل‘‘ پر بات کرتے ہوئے فضیل اصغر نے پہلے اس بحث میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کو واضح کیا۔ سرمایہ دارنہ نظام کے طرز پیداوار کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے ارتقائی عمل کو سمجھیں، اس سلسلے میں اس نظام سے پہلے کے نظاموں کا طرز پیداوار اور ذرائع پیداوار کو دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے۔ قدیم طرزپیداوار پر بات کرتے ہوئے فضیل نے غلام داری اور جاگیر داری میں طرز پیداوار اور ذرائع پیداوار کو تفصیل سے بیان کیا اور ان نظاموں کی محدودیت پر بات رکھی۔ جاگیرداری سے سرمایہ داری کی جانب سفر کے عبوری مرحلے کو ٹھوس مثالوں سے بیان کیا۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار پر بات کر تے ہوئے فضیل نے کہا کہ مزدور کی محنت کے استحصال سے، جسے مارکس نے مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت کا نام دیا تھا، سرپلس جنم لیتا ہے اوراس عمل سے سرپلس کو جب سرمایہ دار مزید منافع کمانے کی غرض سے دوبارہ پیداواری عمل میں ڈالتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والاسرپلس ، کیپیٹل میں تبدیل ہوجاتاہے،یہاں سے پیسہ یا دولت کیپیٹل کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ یہ عمل بڑھتا ہوئے تکنیکی ترقی کا موجب بنتی ہے جس کا مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کرنا تھا اور اس عمل میں مشین کو لا کر انسانی محنت کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرتے ہوئے شرح منافع کو بڑھانا تھا۔ آگے چل کر اس عمل میں اجارہ داریوں کے بننے کا آغاز ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اجارہ داریاں سرمایے کے ارتکاز کے عمل کو مسلسل چند سے چندہاتھوں میں جمع ہونے کا سبب بنتاہے۔ اس تمام تر عمل میں ایک وقت پر آکر سرمائے اور محنت کا تضاد سما ج میں انقلابات کو جنم دیتا ہے۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے کامریڈمعراج اور راول اسد نے بات کی۔بحث کے اختتام پر فضیل نے داس کیپیٹل کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے سرمایہ داری کے موجودہ بحران کودرست انداز میں سمجھنے کے لئے لازمی قرار دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.