|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
کچھ دن پہلے بلوچستان کے شہر لورالائی کی خان صدیق گلی میں سات سالہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب لڑکی کی ماں نے اپنی بچی کو مذکورہ گلی کے ایک گھر میں کپڑے لانے کی غرض سے بھیجا، وہاں جاکر لڑکی نے جب دروازے پر دستک دی تو اسی گھر میں مبینہ طور پر صرف یہی درندہ موجود تھا، جس نے لڑکی کو کوک بوتل میں نشہ آور چیز دے دی۔ تاہم لڑکی پر نشہ آور مواد کا اثر ہونے سے پہلے ہی اس درندے نے اپنا غلیظ مقصد پورا کیا۔ اسی دوران بچی کی ماں نے گھر پہنچ کر جب دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ کھلتے ہی لڑکی بھاگ گئی اور گھر پہنچتے ہی اس نے اپنی ماں کوواقعے کے متعلق بتایا اور چند لمحے بعد بے ہوش ہوگئی۔ اس واقعے کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
لڑکی ایک محنت کش ڈینٹر کی بیٹی ہے، اس کوفوری طور پر لورالائی سول ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں پر ڈاکٹروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے بچی تین چار گھنٹے بے یار و مددگار پڑی رہی، تاہم بعد میں ایک لیڈی ڈاکٹر نے بچی کا معدہ واش کیا اور نشہ آورمواد نکالا گیا۔
مجرم کو لورالائی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، اور وہ اعتراف جرم کر چکا ہے۔ مجرم نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مختلف قسم کے نشہ آور مواد بیچتا ہے اور مختلف قسم کی گولیوں کو ملا کر وہ خود بھی نشہ آور مواد تیار کر سکتا ہے۔
لورالائی جیسے پسماندہ علاقوں میں ایسے واقعات اکثر اوقات ریکارڈ پرہی نہیں آتے ہیں۔ ایسے واقعات کو نام نہاد غیرت کے نام پر خاموشی سے نام نہاد جرگوں کے ذریعے ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے پسماندہ علاقوں میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات لڑکیوں کے نسبت کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں چند واقعات اگر ریکارڈ پر آتے بھی ہیں، تو تب آتے ہیں جب متاثرہ بچے یا بچی کو زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس اس واقعے کی سخت مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مجرم کو فی الفور کڑی سزا دی جائے۔ اس وقت پوری دنیا بالعموم اور تیسری دنیا کے ممالک میں بالخصوص جنسی ہراسانی اور زیادتی کا مسئلہ انتہائی نوعیت کا ہوگیا ہے، پاکستان میں ایسے واقعات کے مجرم اگر پکڑے بھی جاتے ہیں، تو کسی سزا کے بغیر بڑی آسانی سے آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ آئے روز پاکستان میں محنت کشوں، مظلوم قومیتوں اور طلبہ کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے کے لیے سخت ترین قوانین بنائے جاتے ہیں، مگر ایسے خونخوار درندے آزاد پھر رہے ہیں۔ اس سے اس ملک کی عدالتوں کا عوام دشمن کردار بھی واضح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی جنسی زیادتی کے سد باب کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے، ان کے پاس اس سلگتے ہوئے مسئلے کا حل ہی نہیں ہے بلکہ ہوس کی زد میں آنے والے متاثرین کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور یہ پسماندہ ریاست جب تک موجود ہے تب تک ہراسانی، ریپ اور جنسی تشدد جیسے واقعات کو نہیں روکا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اس نظام نے ایک طرف عورت کو آزادی کے نام پر ایک شئے بنا دیا ہے اور دوسری طرف پدرسری سماج کو قائم رکھ کر عورت کے ہر طرح کے استحصال کو بھی بڑھا دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں سوشلسٹ انقلاب کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ سوشلزم ہی جنسی ہوس، ریپ اور تشدد سے ملکمل خاتمے کا ضامن ہے۔