|تحریر: خالد مندوخیل|
پاکستان میں کورونا وبا کے پھیلاو سے لیکر آج تک غریب عوام کی زندگیاں دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں اور حالت یہ ہو چکی ہے کہ لاک ڈاون کے دوران ہفتوں اور مہینوں تک راشن نہیں مل رہا اور نہ کچھ خریدنے کیلئے مزید رقم کسی کے پاس موجود ہے، بچے اور بوڑھے بھوکے اور بیمار ہورہے ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیں۔
حکومت کے بلند دعوے میدان عمل میں جھوٹ اور فراڈ ثابت ہورہے ہیں اور کچھ نہ کچھ خیراتی رقم یا کہیں نمود و نمائش کیلئے ایک ایک بوری آٹا تقسیم کرتے ہوئے غریب عوام کو زلیل و رسوا کرکے اپنی میڈیا کیمپین کو تیز کرنے کی کوشش ہی فی الحال حکومت کا اولین فریضہ ہے جسے وہ بخوبی نبھا رہی ہے۔
حکومت کے اس بہیمانہ روش کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں سے احتجاج شروع ہوچکے ہیں جن میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں عوام کے پاس آٹا خریدنے کی طاقت ختم ہو رہی ہے تو عوام کے غمخوار (اسکا مطلب گوشت خوار) حکمرانوں نے عوام پر ترس کھاکر ایک تعلیمی ”ریلیف“ کا اعلان کیا ہے، ہنسئے نہیں! ملک کے تقریبا تمام صوبوں میں پرائیویٹ سکول مافیا کو حکم دیا گیا ہے کہ لاک ڈاون کے دو یا تین مہینوں یعنی مارچ، اپریل اور مئی کی فیسوں میں 20 فیصد کمی کی جائے اور اگر اس حکم نامے کی خلاف ورزی کی گئی تو ان کے خلاف کاروائی ہوگی۔ حکومت کے اس قدم کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ”ہمیں بے شک آپ کی اور آپ کے بچوں کی بہت گہری فکر ہے لیکن اس سے بھی گہری ہماری نظر ہے آپکی جیبوں پر!“
درحقیقت یہ پرائیویٹ سکول مالکان کو بلاوجہ 80 فیصد فیس دلوانے کی بھونڈی چال ہے۔ 20 فیصد رعایت کا اصل مقصد اس 80 فیصد فیس کی یقین دہانی کروانا ہے جو تباہ حال عوام سے ویسے نہیں ملنی تھی۔ اس حرکت سے ایک بار پھر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حکومت اور ریاست یہاں کے سرمایہ دار طبقے کی انتظامی کمیٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
پرائیویٹ سکول مالکان کو جتنا ہم جانتے ہیں یہ اس سے کہیں زیادہ چور اور لٹیرے ہیں۔ عام حالات میں تو انکی لوٹ مار عین شرعی اور اخلاقی معلوم ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ والدین کو بھی اس بات پر متفق کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس طرح سے یہ لوگ آپکے جیب کاٹتے ہیں اور آپکے بچوں کو ذہنی طور اپاہج اور سماج سے بیگانہ کرتے ہیں۔ کچھ والدین اگر یہ بات سمجھتے بھی ہوں تو کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہہ کر انہیں آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں کہ چلیں نصاب اور امتحان وغیرہ کا جو تقاضا ہوتا ہے وہ پڑھاتے ہیں اور پیسے لیتے ہیں۔
لیکن آج اگر دو مہینوں سے کورونا وبا کے دوران سکول بند ہیں، نہ کچھ پڑھایا گیا ہے اور نہ کوئی سکول گیا ہے، لیکن پھر بھی 80 فیصد فیس وصول کریں گے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کس خوشی میں؟ کیا بحران کے ذمہ دار سکولوں کالجوں کے بچے اور ان کے والدین ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر بحران کی قیمت وہ کیوں ادا کریں جن کے گھروں میں اس وقت راشن اور ضروری اشیاء بمشکل یا پھر بالکل نہیں پہنچ رہی ہیں؟
اگر کوئی یہ کہے کہ سکول کے غریب اساتذہ کو تنخواہیں دینی ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ان دو یا تین مہینوں کی تنخواہیں ان اساتذہ کا حق ہے اور اگر وہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں گے تو پی وائی اے ملک بھر میں ان کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑی ہوگی اور ویسے بھی ان بیچاروں کو 4 یا 5 ہزار سے لیکر زیادہ سے زیادہ 15 ہزار ایوریج تنخواہ ملتی ہے۔ یہ تنخواہ سکول مالکان بھی ادا کر سکتے ہیں اگر ان کے سال بھر کے منافعوں کا اندازہ لگایا جائے۔
جس علاقے سے میرا تعلق ہے (ژوب) یہاں ہر ایک کو علم ہے کہ چھوٹے یا درمیانے درجے کے پرائیوٹ سکول مالکان کم ازکم مہینے کے ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ تک جبکہ پیشہ ور اور چالاک پرنسپل حضرات جنہوں نے بچوں کو بنیادی سہولیات کے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح بٹھا کر تعداد بڑھائی ہوتی ہے وہ مہینے کے کم از کم 4 لاکھ اور کچھ اس سے بھی زیادہ منافع کما لیتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ کسی بڑے اور ترقی یافتہ شہر کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ایک پسماندہ شہر کی بات ہو رہی ہے۔
اب اگر سکول مالکان پھر بھی اساتذہ کی تنخواہیں دینے سے انکاری ہیں تو پھر حکومت پر دباو ڈالنے کی ضرورت ہے اور ملک بھر میں پرائیویٹ سکول ٹیچرز، بچوں اور والدین کو بیک آواز ہوکر اپنے حق کے دفاع کیلئے نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ ملک بھر میں پرائیویٹ ٹیچرز کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں کچھ محنت کرکے رابطے کرنے اور ایمرجنسی بنیادوں پر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ عام حالات میں یہ بات مشکل معلوم ہوتی لیکن اب عام حالات نہیں ہیں۔ بالعموم بھی اور بالخصوص ایسے بحرانی حالات میں حقوق منت سماجت سے نہیں محنت اور جدوجہد سے ملتے ہیں۔ ملک بھر میں ایک بڑی تعداد پرائیویٹ سکولوں کے طلبہ کی ہے اور والدین اور بچے اتنی بڑی تعداد میں اگر اس لوٹ کیخلاف نکلتے ہیں تو کوئی طاقت انہیں مات نہیں دے سکتی۔
لیکن اگر ہم خاموشی اختیار کریں اور خیر کی امید بھی رکھیں تو ہم اس کبوتر کی طرح حقیقت سے منہ چھپا رہے ہیں جو بلی کو دیکھ کر خود کو بچانے کی بجائے آنکھیں بند کر لیتا ہے کیونکہ پہلے ہی سے سکول مالکان نے مجوزہ 20 فیصد کمی پر بھی واویلا شروع کردیا ہے تاکہ عوام کو 80 فیصد فیس بخوشی ادا کرنے پر راضی کر سکے۔
لیکن دھوکا وہ کھاتے ہیں جن کے پاس دھوکا کھانے کیلئے کچھ ہو۔ عوام آج یہ پیسے کہاں سے لائیں گے؟ یہ سوال کوئی حکومتی وزیر خود سے نہیں کرے گا بلکہ ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں کہ لوگ نہیں حکومت بحران کی قیمت ادا کرے۔ والدین ایک روپیہ فیس دینے سے انکار کریں اور ملکر اس ڈکیتی سے اپنا دفاع ممکن بنائیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس والدین اور اساتذہ کے حق کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہے اگر ان کی طرف سے صرف اور صرف ایک آواز اٹھے کہ سکول مالکان اور حکومت ہمیں تنخواہیں دیں، بحران کی قیمت حکومت اور مالکان ادا کریں بچے، والدین اور اساتذہ نہیں۔
تعلیم کا کاروبار بند کرو!