|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس،لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کی جانب سے 2 جولائی 2022ء کو سیٹھ مینشن انارکلی میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔ اس سکول کا مقصد سوشلزم کے نظریات کو سمجھنا تھا تاکہ انقلابی نظریات کو سمجھتے ہوئے عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔ یہ سکول راولا کوٹ،کشمیر میں پروگریسویوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے دو روزہ نیشن مارکسی سکول کی تیاریوں کی ایک کڑی تھا اس سلسلے میں دوسرا ایک روزہ ریجنل مارکسی سکول بھی جلد ہی منعقد کیا جائے گا۔
سکول کے دو سیشنز تھے۔ پہلے سیشن کا عنوان ”عالمی اور پاکستان تناظر“ اور دوسرے سیشن کا عنوان لینن کی کتاب ”ریاست اور انقلاب“ تھا۔
پہلے سیشن کے انتظامی امور پروگریسو یوتھ الائنس نمل یونیورسٹی کے کارکن بابر علی نے ادا کیے۔پہلے سیشن پر بحث کا آغاز کرنے کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس جی سی یونیورسٹی لاہور کے کارکن شعیب کو مدعو کیا گیا۔ شعیب نے کہا کہ آج پوری دنیا کے اندر سرمایہ دارانہ نظام تاریخی بحران کا شکار ہے اور یہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جو پچھلے کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور کوئی ملک ایسا نہیں جو اس صورتحال سے بچا ہوا ہو۔ یہ نظام اتنا گل سڑ چکا ہے کہ اس کے تعفن سے پورا سماج بدبودار ہو رہا ہے۔ اس میں بہتری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس نظام کو بچانے کے لیے حکمرانوں کی طرف سے لیا جانے والا ہرا قدم اس کو کسی نئے اور اس سے بھی گہرے بحران کی کھائی میں لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ نظام انسانی سماج کو غربت، مہنگائی،لاعلاجی،وبا اور جنگوں کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک طبقاتی نظام ہے جس کی بنیاد نجی ملکیت پر مبنی ہے۔ ایک طرف تو لوگوں کی اکثریت قابل علاج بیماریوں سے مر رہی ہے دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ بحران کا سارا بوجھ بھاری بھرکم ٹیکس لگا کر محنت کش طبقے کے کندھوں پر لادا جا رہا ہے اور حکمران طبقے کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکیجز دیے جا رہے ہیں۔ بجٹ کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کی بجائے عسکری پراجیکٹس پر خرچ کیا جا رہا ہے۔بحران کے باعث اس وقت عالمی سطح پر دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والا ورلڈ آرڈر بھی پوری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ امریکہ جسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا کا تھانیدار سمجھا جاتا تھا بالکل کمزور ہوچکا ہے۔ روس-یوکرائن جنگ کے بعد وہ اپنے اتحادیوں میں اعتماد کھو چکا ہے اور مغربی یورپ جیسے ممالک اس کے تسلط سے ہٹ کر اپنی آزاد پالیسی اپنانے کی طرف جا چکے ہیں۔اس کے برعکس چین اپنا تسلط بڑھانے کی طرف گیا ہے۔ بحر الکاہل میں ایک معاشی جنگ چھڑ چکی ہے، جس میں چین تیزی سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے اور نئے معاہدے کر رہا ہے جس کا مقصد وہاں کی عوام سے ہمدردی نہیں بلکہ وہ اپنے سامراجی عزائم پورے کرنے اور لوٹ مار کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔پاپوآ نیو گنی اور سولومن جزائر کی لکڑی اور تمام قدرتی وسائل کا 90فیصد چین لے کے جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ریاستیں دیوالیہ ہو چکی ہیں یا دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ معاشی بحران ریاستوں کے اندر حکمران طبقے کی سیاست کو ننگا کر رہا ہے اور محنت کش طبقے کا شعور آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ محنت کش سطح پر موجود تمام بورژوا پارٹیوں اور قیادت کو رد کرتے ہوئے اک نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ پوری دنیا میں محنت کش طبقہ اپنے مسائل کے گرد سراپا احتجاج ہے اور عوامی بغاوت و غصہ کسی بھی ملک میں مزدور تحریک میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ اس تمام مسائل کی جڑ کیونکہ سرمایہ داری ہے اس لیے محنت کش طبقے کو جڑت بناتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنا ہوگی جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے منصوبہ بند معیشت پر مبنی ایک مزدور ریاست قائم کرے گی۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کے کارکن رائے اسد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ افراط زر اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے اور بڑھتی بیروزگاری کے پیچھے نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہے اور پی ٹی آئی ہو یا پی ڈی ایم وہ سرمایہ داروں کی گماشتہ ہیں۔ان مسائل کے پیچھے سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جس کا حل ایک منصوبہ بند معیشت پر مبنی سوشلسٹ نظام ہے۔ جس میں اقتدار مٹی بھر سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کے ہاتھوں میں ہونے کی بجائے محنت کشوں (جو کہ اکثریتی طبقہ ہے) کے قبضے میں ہوگا۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کے رہنما فضیل اصغر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے زوال کے عہد میں پہنچ چکا ہے۔ موجودہ معاشی بحران کوئی حادثہ نہیں بلکہ پچھلے کئی سالوں سے جاری بحران کا تسلسل ہے جس کے بارے میں ہم پچھلے عرصے سے لکھتے آئے ہیں۔ آج بورژوا دانشور اور بڑے بڑے معیشت دان جو کہ پرانے وقتوں میں سرمایہ دارانہ نظام کو ابدی گرادانتے ہوئے تھکتے نہیں تھے تذبذب کا شکار ہیں۔ موجودہ معاشی بحران اس وقت (stagflation) کا شکار ہے یعنی کہ افراط زر بھی آسمانوں کو چھو رہا ہے اور معیشت بھی ترقی نہیں کر رہی ہے۔ اور یہ صورتحال رکنے والی نہیں ہے اور یہ مزید شدت اختیار کرے گی۔ معاشی بحران سیاسی بحران کو بھی جنم دے رہا ہے۔ پاکستان بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کا جزو ہے اور اس میں بھی صورتحال وہی ہے بلکہ اس سے کہیں بدتر ہے۔ اس کے پیش نظر وسائل کی کمی کے باعث یہاں کے حکمران طبقے کے اندر لڑائی شدت اختیار کر چکی ہے وہ لوٹ مار کے مال میں حصہ داری پر کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں اور ان کی سیاست بالکل ننگی ہو کر رہ گئی ہے۔محنت کش طبقہ ان کی اس لڑائی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا ہے اور کسی بھی سیاسی پارٹی پر اعتماد نہیں دکھا رہا۔ محنت کشوں کے شعور میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہ متبادل کی تلاش میں ہیں۔ اپنے حق کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری بھاری بھرکم ٹیکسوں کے باعث ان میں شدید غصہ جمع ہورہا ہے جو کبھی بھی ایک بڑی بغاوت میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکن مقصود ہمدانی نے آکے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجی ملکیت پر مبنی اس طبقاتی نظام کے اندر سرمایہ داروں اور ان کے دلالوں کو تو تمام مراعات حاصل ہیں لیکن دوسری جانب محنت کش طبقہ جو کہ سماج کی تمام دولت پیدا کرتا ہے بھوک اور ننگ کا شکارہے۔ محنت کش صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات کی کمی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ تعلیمی بجٹ کا بھی یہی حال ہے اور حکمرانوں کے پاس معیاری تعلیم کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ محنت کشوں کے بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ نوجوانوں کا یہ تاریخی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لیے استحصال پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیں اور ایک انسان دوست معاشرہ قائم کریں، جس میں ایک انسان دوسرے انسان کا استحصال نہ کر سکے جو صرف اور صرف سوشلسٹ نظام میں ہی ممکن ہے۔
اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم شیر حسن نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سماج کی انقلابی تبدیلی میں طلبہ کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو محنت کشوں کا انقلاب میں ساتھ دینا چاہیے اور سوشلسٹ انقلاب قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس کے بعد لال سلام کے رہنما آدم پال نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سیشن کے اختتامی کلمات ادا کیے انہوں نے بتایا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے اورآج اگر ٹیکنالوجی میں کوئی ترقی ہوتی بھی ہے تو اس سے سماج کی فلاح و بہبود کا عنصر نکل چکا ہے اور وہ نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے معاشرے کو برباد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ایٹم بم وغیرہ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا سماج تخلیق کیا جائے جس میں سماج کی تمام دولت کو اجتماعی کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک مزدور ریاست قائم کی جائے جس میں ریاست لوگوں کی تمام ضروریات کا ذمہ لے اور وہ صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہے۔
اس کے بعد چائے کی مختصر بریک ہو ئی اور اگلا سیشن شروع کیا گیا۔
دوسرے سیشن کا عنوان لینن کی کتاب ”ریاست اور انقلاب“ تھا جس کے انتظامی امور پروگریسو یوتھ الائنس پنجاب یونیورسٹی کے کارکن شیر حسن نے ادا کیے اور موضوع پر ابتدائی گفتگو کرنے کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے رہنما ء ثناء اللہ جلبانی کو دعوت دی۔ ثنا اللہ نے بات کرتے ہوے کہا کہ ریاست کا سوال انتہائی عملی نوعیت کا سوال ہے۔ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ ریاست قطعی طور پہ طبقات سے ماورا نہیں ہے۔ریاست ہمیشہ سے قائم نہیں تھی بلکہ تاریخ کے مخصوص مادی حالات میں نمودار ہوئی۔ریاست اپنے آغاز سے ہی مخصوص طبقے کی نمائندہ رہی ہے یعنی نجی ملکیت رکھنے والے طبقے کی نمائندہ۔ریاست ملکیت رکھنے والے طبقے کی ملکیت کے تحفظ کرنے کا آلہ ہے۔ ریاست حتمی تجزیے میں مسلح افراد کے جتھے(فوج، پولیس وغیرہ۔۔۔) پر مشمل ہوتی ہے جس کا کام ملکیت سے محروم طبقے کو طاقت و جبر کے ذریعے دبانا ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ریاست کا کام سرمائے کے ہاتھوں اجرتی محنت کے استحصال کو برقرار رکھنا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لیے اس نظام کے پیداورای رشتوں کو چیلنج کر کے انقلابی تحریک برپا کی تو ریاست نے اس طبقے پر جبر کرنے سے بالکل بھی گریز نہیں کیا۔ سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے تحریکوں کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ اس لیے ریاست کے کردار کو سمجھنا اور اس کے متبادل اکثریت کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے والا نظام تشکیل دینا تاریخی لازمیت بن چکا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے کیلئے سرمایہ داروں کی ریاست کو پاش پاش کر کے مزدور ریاست بنائی جائے گی۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد تمام بورژوا ملکیت کو قومیاتے ہوئے محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت میں دیا جائے گا۔طبقات کا خاتمہ ہو جائے گااور اقلیتی سرمایہ دارطبقے کی نمائندہ ریاست کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ فوج کو ختم کر کے عوامی ملیشیا بنائی جائے گی۔اس طرح ریاست کا طبقاتی کرادر ہی ختم ہو جائے گا۔ریاست جبر کے آلے اور استحصال کو برقرار رکھنے کی بجائے سماج سے قلت کے خاتمے اور پیداور کو وافر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی تاکہ ہر انسان کو ضرورت کے مطابق سہولیات مہیا کی جاسکیں۔
اس کے بعد فضیل اصغر اور آدم پال نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور ریاست کے طبقاتی رخ کو تاریخ کی دلائل کی روشنی سے واضح کیا اور بتایا کہ ریاست ہمیشہ سے ایک مخصوص طبقے یعنی حکمران طبقے کی نجی ملکیت کو تحفظ فراہم کرنے کا آلہ رہی ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست مختلف نظاموں میں پروان چڑھ کر سامنے آئی ہے پہلے غلام داری پھر جاگیر داری اور آخر میں سرمایہ دارای لیکن اس کا جوہر ہمیشہ وہی رہا ہے کہ مٹھی بھر حکمران طبقے کی نجی ملکیت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ملکیت سے محروم اکثریت پر جبر کرنا۔ سرمایہ داری نے آکر سماج کی طبقاتی خلیج کو واضح کر دیا ہے اور اس طرح کے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ نجی ملکیت کو ختم کرتے ہوئے ایک غیر طبقاتی نظام کو تشکیل دیا جائے اور مزدور ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔
سیشن کے اختتامی کلمات ادا کرنے کے لیے ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کے رہنما عدیل زیدی کو مدعو کیا گیا انہوں نے بتایا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ پوری دنیا کے محنت کشوں کی طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے مزدور ریاست قائم کی جا سکے۔ نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جاسکے اور ایک انسان کا دوسرے انسان پر جبر کامکمل خاتمہ کیا جاسکے۔ مگر اس کیلئے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا اور ایک ایسی انقلا بی پارٹی بنانا ہوگی جو محنت کشوں کی حقیقی نمائندگی کر سکے اور مستقبل میں برپا ہونے والی عوامی تحریکوں کو انقلاب کی حتمی منزل سے ہمکنار کر سکے۔
سوشلسٹ انقلاب۔۔ زندہ باد!
مزدور راج۔۔زندہ باد!