|رپورٹ: پی وائی اے، گوجرانوالہ|
تعلیمی ادارے کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سب سے اعلیٰ ادارہ یونیورسٹیاں ہوتی ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں اس وقت کئی سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جہاں سے ہر سال لاکھوں طلبہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ میرٹ پر یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے خوش قسمت ترین طلبہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں طلبہ کو مختلف سہولیات دی جاتیں ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس بھی ایک گورنمنٹ یونیورسٹی کا کیمپس ہونے کے باوجود ان سہولیات سے محروم ہے۔
سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ فلائی اور کا نہ ہونا ہے۔ پی یو جی سی نیشنل ہائی وے پر واقع ہے، جس کے ساتھ ہی علی پور چوک ہے۔ اس جگہ پر آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ہزاروں طلبہ ہر روز میلوں کا فاصلہ طے کرکے یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے پہنچتے ہیں۔ ان کو روزانہ اس خطرناک سڑک کو پار کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی گیٹ کے سامنے ایک فٹ کا پہلے کٹ ہوا کرتا تھا، جہاں سے طلبہ پار کر لیا کرتے تھے، لیکن اب اس کو بھی سیمنٹ سے پُر کردیا گیا ہے کہ طلبہ یہاں سے نہ گزریں، اب کوئی بتائے کہ طلبہ آخر کہاں سے گزریں؟
اگر یونیورسٹی کے لیے ایک فلائی اوور اور پیڈیسٹرین برج بنایا جائے تو طلبہ حادثات کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ کئی بار حادثات ہوئے بھی ہیں۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ پی یو جی سی کے لیے ایک پیڈیسٹرین بریج بنایا جائے تا کہ طلبہ آسانی سے اس خطرناک سڑک کو پار کرسکیں، جہاں سے ہر وقت ٹرک گزرتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے کا شکار لڑکیاں زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے ثقافتی معیار ایسے فرسودہ ہیں کہ لڑکیوں کو اپاہج بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ان کیلئے سڑک پار کرنا خاصا دشوار کام ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ہاسٹل کی سہولت کا فقدان ہے۔ پی یو جی سی کے طلبہ کی پچاس فیصد سےذائد تعداد گوجرانوالہ ڈویژن کی نہیں ہے۔ طلبہ مختلف شہروں سے پڑھنے آتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اپنے ہاسٹلز نہیں ہیں اس لئے طلبہ کو پرائیویٹ ہاسٹل میں رہنا پڑتا ہے۔ لڑکیوں کے پرائیویٹ ہاسٹلز شالیمار ٹاؤن میں ہیں اور لڑکوں کے راجکوٹ میں۔ چونکہ پرائیویٹ ہاسٹلز کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے تو طلبہ روزانہ کا سفر پیدل طے کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے کئی طلبہ جو سیالکوٹ، ڈسکہ، پسرور اور حافظ آباد رہتے ہیں، وہ روزانہ میلوں کا آنا جانا کرتے ہیں۔
تیسرا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فری ٹرانسپورٹ ہونی چاہیے۔ باقی گورنمنٹ یونیورسٹیوں کی طرح پی یو جی سی کی بھی اپنی بسیں ہونی چاہئیں۔ ایک تو یہ کیمپس مین روڈ پہ واقع ہے اور دوسرا یہ کہ یہ شہر سے دور ہے، جس کی وجہ سے طلباء و طالبات کو رکشوں پہ یا پھر ویگنوں پہ آنا پڑتا ہے۔ یہ دونوں کام ہی بہت تھکا دینے والے ہیں اور ان کے اخراجات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بھلے ہی دن میں ایک کلاس ہو، طلبہ کو صبح کے وقت آنا پڑے گا، اور شام کے وقت ہی واپس جانا پڑے گا۔ پی یو مین کیمپس کو دیکھا جائے تو وہاں ہر آدھے گھنٹے کے بعد پوائنٹس چلتے ہیں۔
ہمارے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
فوراََ فلائی اوور بنایا جائے۔
ہاسٹلز کی سہولت فراہم کی جائے۔
یونیورسٹی طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جائے۔
یہ تمام مطالبات ہمارے بنیادی حقوق ہیں، ہم انہی کیلئے فیسیں ادا کرتے ہیں۔ طلبہ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان تمام سہولیات کیلئے آواز نہ اٹھائی گئی تو ہمیں کچھ بھی خیرات میں نہیں ملے گا۔ ہم یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ سالانہ لاکھوں روپے بھلا ہم کس مد میں دیتے ہیں؟ لاکھوں روپے کی فیسیں ہمارے ماں باپ پیٹ پر پتھر رکھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ماں باپ کی محنت سے کمائی گئی ایک ایک پائی کا احساس ہے۔ تمام سرکاری تعلیمی ادارے کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہیں۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی پالیسی سازی میں بھی طلبہ کے رائے شامل کی جائے اور یونیورسٹی سینڈیکیٹ میں طلبہ کی بھی شمولیت ہو۔ وگرنہ ہزاروں طلبہ کے مسائل پر کبھی بھی بات نہیں ہو پائے گی اور انتظامیہ، شہر کے سرمایہ دار اور حکومتی وزیر مشیر آرام سے کرپشن کرتے رہیں گے۔
طلبہ ساتھیو! اب ہمیں اپنے حقوق کیلئے آواز بھی بلند کرنا ہوگی اور منظم بھی ہونا ہوگا۔
جینا ہے، تو لڑنا ہوگا!