|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، خیبر پختونخواہ|
کرونا وبا کے باعث مارچ 2020ء سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا اور تمام تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیے گئے تھے۔ مگر تعلیم کے نام پر کاروبار کو جاری رکھنے کے لئے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا۔ آن لائن کلاسز کے خلاف ملک بھر میں طلبہ کی طرف سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور متعدد احتجاج دیکھنے کو ملے جن میں طلبہ نے آن لائن کلاسز کے خاتمے اور کرونا وبا کے کنٹرول ہونے تک تمام تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ حکومت یا تعلیمی اداروں کی جانب سے طلبہ کو آن لائن کلاسز کی سہولیات نہ دیے جانے کی وجہ سے طلبہ کو بے حدمسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آن لائن کلاسز سے متاثر طلبہ میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں کے طلبہ بھی شامل ہیں۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں میں طلبہ کے داخلے مارچ کے آغاز میں لاک ڈاؤن سے پہلے ہو گئے تھے۔ لاک ڈاؤن تک یہ طلبہ صرف ایک ہفتہ کلاسز لے سکے تھے اور لاک ڈاؤن کے دوران لگ بھگ ایک مہینہ ان کی آن لائن کلاسز منعقد ہوئیں جن میں مکمل کورس کا صرف تقریباً 30 فیصد حصہ پڑھایا گیا تھا۔
یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں:
1۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں آبادی کی اکثریت جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہے، اس میں آن لائن کلاسز سے محض چند طلبہ مستفید ہو سکے ہیں۔
2۔ میڈکل کا لجز کے طلبہ کے نصاب کا بیشتر حصہ پریکٹیکل ورک پر مشتمل ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسی کوئی بھی ورچوئل لیبارٹریز موجود نہیں ہیں جن سے طلبہ آن لائن مستفید ہو سکیں۔
خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں نے 22 اکتوبر کو سالانہ امتحانات کا شیڈول جاری کر دیا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ طلبہ نے خود رو طریقے سے امتحانات کے اس شیڈول کے خلاف تحریک کا آغاز کیا ہے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ امتحانات کو فوری طور پر ملتوی کیا جائے اور طلبہ کے اداروں میں آنے کے بعد بقیہ نصاب پڑھا کر امتحانات منعقد کیے جائیں۔ اگر خیبر میڈیکل یونیورسٹی ایسا نہیں کرتی تو طلبہ صوبے بھر میں احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیمی اداروں کا کردار علم کی فراہمی سے زیادہ ڈگریاں فروخت کرنے والی دوکانوں کی مانند ہوتا ہے۔ حکومت اور تعلیمی اداروں کو طلبہ کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ بس طلبہ سے بھاری بھرکم فیسیں بٹور کر اپنی جیبیں بھرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور اس کے بدلے کاغذ کا ٹکڑا طلبہ کو دے دیا جاتا ہے۔ طلبہ کے پلے کچھ پڑا ہو یا نہیں وہ اپنا ”فرض“ پورا کیے دیتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں کے طلبہ کی اس تحریک کی حمایت کرتا ہے اور طلبہ کی لڑائی میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔طلبہ اپنی جدوجہد میں منظم ہوں اور طلبہ یونین بحالی کی طرف بڑھیں تاکہ انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت یا یونیورسٹی انتظامیہ کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔