کشمیر: دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد۔۔ سوشلسٹ انقلاب کی جانب ایک اور قدم!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 6 اور 7 اگست کو راولاکوٹ، کشمیر میں دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ملک بھر سے 200 سے زائد طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کر کے اس سکول کو اب تک کا سب سے کامیاب ترین سکول بنا دیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں اور محنت کشوں میں کس قدر انقلابی نظریات کی پیاس موجود ہے۔

دو روزہ سکول مجموعی طور پر 4 سیشنز پر مشتمل تھا۔

پہلا دن

پہلا سیشن: عالمی و پاکستان تناظر

سکول کا پہلا سیشن عالمی و پاکستان تناظر پر تھا جس کو چئیر کشمیر سے عبید ذوالفقار نے کیا جب کہ تفصیلی گفتگو سندھ سے مجید پنہور نے کی۔

مجید پنہور نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک گلوبلائزڈ دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کسی ایک مُلک میں اُبھرنے والی ایک وبا یا دو مُلکوں کے مابین ہونے والی کوئی جنگ یا کوئی ایک واقعہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور بحران کی جانب لڑھکتی ہوئی معیشتوں کی تباہی کی رفتار کو تیز کردیتا ہے۔ مجید کا کہنا تھا بنیادی طور پر جنگوں یا وباؤں جیسے واقعات بحران کا سبب نہیں بلکہ صرف عمل انگیز ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کے عمل کو شدت دینے کا مؤجب بنتے ہیں۔

مجید نے عالمی معیشت پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت امریکہ و برطانیہ سمیت یورپ اور دیگر دنیا کی تمام تر معیشتوں میں عمومی طور پر افراطِ زر اور بیروزگاری عروج پر ہے جبکہ تمام سرمایہ دارانہ ریاستیں اس مسئلے پر سوائے تجزیے اور رپورٹیں جاری کرنے کے کسی قسم کے اقدامات لینے سے قاصر ہیں۔ نیز ان کا ہر ایک اقدام اس نظام کے بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام مسلسل بحران کی جانب گامزن تھا مگر اس کو بحران سے بچانے کیلئے عالمی سرمایہ دار طبقے نے مصنوعی طور پر نوٹ چھاپ کر، قرضے دے کر اور ریاستی مداخلت کے ذریعے اس بحران کو ٹالا، مگر ان سب اقدامات کے باوجود آج بحران کبھی نہ دیکھی گئی سطح تک آ پہنچا ہے۔ اس وقت اس بحران سے بچنے کیلئے سرمایہ دارانہ ریاستوں کے پاس کوئی رستہ نہیں بچا، اور اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈال کر ان کا شدید استحصال کیا جارہا ہے اور بحران کو ٹالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ عالمی معاشی بحران عالمی سیاسی منظرنامے پر بھی اثر انداز ہورہا ہے جس کے نتیجے میں دائیں اور بائیں جانب پولرائزیشن میں اضافہ ہورہا ہے اور پوری دنیا میں عوامی تحریکیں اُبھر رہی ہیں جس کی شاندار مثال سری لنکا میں حالیہ مہینوں میں برپا ہونے والی عوامی تحریک ہے۔

پاکستان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی صورتحال بھی عالمی صورتحال سے کسی طور مختلف نہیں بلکہ یہاں کی تاریخی طور پر تاخیر زدہ اور خصی سرمایہ داری نے بحران کو مزید بھیانک اور شدید کر دیا ہے۔ ملک دیوالیہ پن کی کھائی میں منہ کے بل گر رہا ہے، اور یہاں کا حکمران طبقہ دولت کی بندر بانٹ میں مصروف ہے اور مختلف سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے مال کی لوٹ مار کیلئے پاگل کتوں کی طرح آپس میں لڑرہے ہیں۔

مجید نے اپنی گفتگو کا اختتام ان الفاظ سے کیا کہ آج عدم استحکام ایک معمول بن چکا ہے جس سے اس نظام میں رہتے ہوئے نجات ممکن نہیں، اصلاحات کے تمام تر نعرے اور اقدامات اس نظام کو بچانے کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

مجید کی تفصیلی گفتگو کے اختتام پر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور کراچی سے ساجد خان، ملتان سے راول اسد، خیبر پختونخوا سے صدیق اور سہاب، بلوچستان سے امیر ایاز، اسلام آباد سے یار یوسفزئی، حیدر آباد سے علی عیسیٰ، گوجرانوالہ سے سلمیٰ، فاٹا سے زبیر، کشمیر سے یاسر ارشاد اور لاہور سے رائے اسد اور آدم پال نے گفتگو میں حصہ لیا۔

تمام مقررین نے ملکی و عالمی صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جس میں چین امریکہ تنازعہ، روس یوکرین جنگ، عالمی معاشی بحران، پاکستان کا سیاسی و معاشی بحران شامل تھے۔

پہلے سیشن کا اختتام کرتے ہوئے مجید کا کہنا تھا، گو کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہے مگر یہ نظام خودبخود ختم ہونے والا نہیں ہے۔ جب تک یہ نظام قائم رہے گا انسانیت کیلئے مزید مسائل کو جنم دیتا رہے گا۔ ہمیں ان تمام مسائل کا مسلسل اختتام کرنے کیلئے سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا اور ایک ایسی انقلابی پارٹی بنانا ہوگی جو مستقبل میں برپا ہونے والی عوامی تحریکوں کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار کر سکے۔

دوسرا سیشن: مارکسی معیشت کا تعارف

سکول کے دوسرے سیشن کا موضوع ”مارکسی معیشت کا تعارف“ تھا جس کو چیئر پشاور سے ہلال نے کیا جب کہ تفصیلی گفتگو لاہور سے فضیل اصغر نے کی۔

فضیل اصغر نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو حکمران طبقہ اور اس کے بکاؤ دانشور ازلی اور ابدی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ نہ تو زر ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور نہ ہی سرمایہ، نہ مزدور نہ سرمایہ دار، اور نہ ہی نجی ملکیت، بلکہ یہ تمام تر تعلقات انسانی سماج کے ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے پر وجود میں آئے جن کا جلد یا بدیر خاتمہ لازمی ہے۔ مارکس نے تاریخ کا تجزیہ اس پر جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے اطلاق سے کیا اور یہ اخذ کیا کہ انسانی سماج کے ارتقاء کے بنیادی اصول موجود ہیں اور آج سرمایہ داری تک کا سفر انسان نے قدیم اشتراکیت، غلام داری، جاگیرداری سے ہوکر کیا ہے اور یہ سلسلہ آگے جاری رہے گا۔

مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کے تجزیے کا آغاز شے(commodity) سے کیا اور واضح کیا کہ اس نظام کی بنیاد اشیاء کے عمومی تبادلے پر کھڑی ہے، سادہ لفظوں میں کہا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ چیزوں کو انسانوں کی ضرورت کیلئے نہیں بلکہ بیچنے کیلیے پیدا کیا جاتا ہے۔ مختلف اشیاء کے تبادلے کیلئے ان کے بیچ قدرِ مشترک انسانی محنت تھی جس کو مارکس نے واضح کیا کہ کسی مخصوص عہد میں ضروری سماجی وقتِ محن ہی اس شے کی قدر کا تعین کرتا ہے جس کی بنا پر مختلف چیزوں کا آپس میں تبادلہ ممکن ہو پاتا ہے۔

فضیل نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اشیاء کا تبادلہ جب وسیع پیمانے پر پھیلا تو زر کی صورت میں ایک تبادلے کے ذریعے کا اُبھار ہوا جو ابتدا میں خود مجسم قدر ہوتا تھا مگر آج وہ فقط ایک ضمانتی ٹوکن کے سوا کسی کردار کا حامل نہیں۔ فضیل نے زر کے بطور سرمایہ کے کردار پر گفتگو کی اور کہا کہ سرمایہ دار زر کے ذریعے وہ شے خریدتا ہے جس کی کھپت کے ذریعے وہ پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر زر کا حامل ہوجاتا ہے۔ وہ زر جس کو کسی پیداواری عمل میں لگا کر اس سے مزید زر پیدا کیا جائے سرمایہ کہلاتا ہے۔ انسانی سماج میں انسان کی قوت محنت کے سوا کوئی ایسی شے نہیں جو اپنی قدر سے زیادہ قدر کو پیدا کرسکے۔ اس بنا پر ایک امر واضح ہے کہ منافع منڈی میں تبادلے کے عمل سے قبل پیداوار کے عمل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔

مارکس سے قبل کے معیشت دانوں کا خیال تھا سرمایہ دار مزدور سے اس کی محنت خریدتا ہے جبکہ مارکس نے اس حقیقت کا پتہ لگایا کہ سرمایہ دار مزدور کی محنت نہیں بلکہ قوتِ محنت خریدتا ہے جس کو وہ اپنی منشاء کے مطابق استعمال کرتا ہے، سو منافع دراصل مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت ہے۔

فضیل نے اپنی گفتگو کا اختتام اس بات پر کیا کہ منافعے کے حصول کا عمل زائد پیداوار کے بحران کو جنم دیتا ہے۔ مقابلہ بازی اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہونے والی بے ہنگم پیداوار کے نتیجے میں جہاں ایک طرف پیداواری صلاحیت اور تکنیک بہت جدید ہو جاتی ہے وہیں دوسری طرف وہ منڈی کی حدود سے بھی زیادہ پیداوار کرنے کے قابل ہو جاتی ہے جس سے سرمایہ دار طبقے کا شرح منافع تیزی سے گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح محنت کش جو قدرپیدا کرتے ہیں اس سے کئی گنا کم اجرت حاصل کرتے ہیں، نتیجتاً وہ تمام اشیا خریدی ہی نہیں جا سکتیں جو منڈی میں پیدا ہوتی ہیں، یعنی کہ منڈی کے اندر بہتات ہوتی ہے مگر طلب سُکڑجاتی ہے۔ آج عالمی سرمایہ دارانہ نظام اسی بحران کا شکار ہے جو مارکس کے تجزیے کی سچائی کو واضح کرتا ہے۔

فضیل کی تفصیلی گفتگو کے بعد سوالات جوابات کا سلسلہ شروع ہوا اور گوجرانوالہ سے صبغت وائیں، خیبر پختونخوا سے خالد چراغ، اسلام آباد سے حارث چوہان، بلوچستان سے عالم زیب، ملتان سے فرحان رشید اور لاہور سے آدم پال نے گفتگو میں حصہ لیا۔

بحث میں حصہ لینے والے ان مقررین نے مارکسی معیشت کے مختلف پہلوؤں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجوہات پر مزید روشنی ڈالی اور ان کی وضاحت کی۔

فضیل نے سیشن کا اختتام ان الفاظ سے کیا کہ آج عالمی سرمایہ داری زائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے۔ پیداواری صلاحیتوں سے کئی گنا کم پیداوار کی جاری ہے جو بذاتِ خود نئے بحران کا موجب بن رہا ہے۔ اس صورتحال میں جوئے کی منڈی اور تعمیرات کے شعبے کے بلبلے پھول رہے ہیں جو حقیقی معیشت کے عکاس نہیں بلکہ جلد یہ بلبلے پھٹنے کی طرف جائیں گے جو مزید بڑے پیمانے پر بحران کو جنم دیں گے۔ اس تمام تر بحران کی کیفیت سے نجات کی راہ منصوبہ بند معیشت کا قیام ہے جب اشیا منافعے کے لیے نہیں بلکہ انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پیدا ہوں گی۔

پہلے دن کے دوسرے سیشن کے اختتام کے بعد رات کے کھانے کا وقفہ ہوا اور اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کی سینٹرل ایگزیکیٹیو باڈی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پی وائی اے کی ملک گیر قیادت موجود تھی۔ اس اجلاس میں پی وائی اے کے موجودہ کام کی تفصیلات پیش کی گئیں اور ملک بھر میں تنظیم سازی کے عمل کو تیز کرنے کی منصوبہ سازی کی گئی۔

دوسرا دن

تیسرا سیشن: تاریخِ فلسفہ کا تعارف (ایک مارکسی تناظر)

دوسرے دن کے پہلے اور مجموعی طور پر تیسرے سیشن کا موضوع ”تاریخِ فلسفہ کا تعارف“ تھا جس کو چئیر ملتان سے فرحان رشید نے کیا اورلاہور سے آدم پال نے تفصیلی گفتگو کی۔

آدم نے گفتگو کا آغاز فلسفے کے تعارف اور اس کی ضرورت سے کیا کہ ایک معمولی زندگی گزارنے کی خاطر فلسفے کی ضرورت نہیں پڑتی مگر جب موجودہ سماج، تاریخ کے عمل اور اسی طرح کے دیگر پیچدہ مظاہر کو سمجھنا درکار ہو تو کسی ایک نقطہ نظر کا حامل ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ عام حالات میں عوام حکمران طبقے کے نقطہ نظر کے ہی حامل ہوتے ہیں اور ان ہی کے مطابق زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

آدم کا کہنا تھا کہ فلسفے کی تاریخ بنیادی طور پر انسانی سوچ و فکر کے ارتقاء کی تاریخ ہے جس نے کسی سیدھی لکیر میں ترقی نہیں بلکہ انسانی سماجوں کی تاریخ کے عین مطابق یہ بھی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ اس تاریخ میں عمومی طور پر خیال پرستی کا ہی غلبہ رہا جب کہ مادیت پسند سوچ کو مسلسل رد کیا جاتا رہا ہے۔ غلام دارانہ نظام کے عروج کے عہد کے یونان میں سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عظیم فلسفی موجود رہے جن سے قبل ہراقلیتس، امپیڈوکلیس و دیگر تھے۔ جہاں سوفسطائیوں اور کلبیوں کا بھرپور عہد رہا مگر غلام داری کے زوال کے ساتھ ساتھ یونان کی دانش بھی زوال پذیر ہو گئی اور ایک مسلسل تاریکی اور خیال پرستی کا غلبہ رہا، نیز عیسائیت کے اُبھار اور سلطنتِ روم کے قیام سے لے کر نشاۃ ثانیہ تک کا عہد مکمل طور پر خیال پرستی کے غلبے کا عہد تھا۔

فلسفے کے میدان میں دوبارہ اُبھار سلطنتِ روم کے زوال کے بھی سینکڑوں سال بعد نشاۃ ثانیہ کے عہد میں ہوا جب مختلف مسلم دانشوروں نے یونانی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا جو بعد میں یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بنے۔ اس عہد میں خیال پرستی پر مبنی چرچ کے نظریات کو چیلنج کیا گیا اور مادیت پسند سوچ کی بنا پر سرمایہ دارانہ نظام کی تعمیر کا عمل شروع ہوا۔ اس عرصے میں انسانی سوچ پر سے چرچ کے غلبے سے نجات عمل میں آئی مگر اس کے ساتھ ہی تجربیت پسندی اور عملیت پسندی کو اُبھار ملا اور حواس خمسہ کے علاوہ چیزوں کو جاننے کے تمام ذرائع کو رد کرتے ہوئے عقل کو بھی رد کر دیا گیا۔

یہاں پر آکر فلسفہ نری عملیت پسندی و تجربیت پسندی سے ہوتے ہوئے ولگر قسم کی مادیت پسندی کے شکنجے میں جا پھنسا جس کے نتیجے میں فلسفہ سائنس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت کا حامل نظر آتا ہے جو کہ آج تک جاری ہے جس میں فلسفے کو کمتر سمجھتے ہوئے اس کو مکمل رد کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران ہیگل نے جدلیاتی عینیت پرستی کے ذریعے عقلیت اور عملیت پسندی کو آپس میں جوڑا اور مادے اور شعور کے تعلق کو نئی جہت سے نوازا مگر شعور یا خیال کو مادے سے بلند تر بیان کیا جس کو بعدازاں مارکس نے درست طور پر جدلیاتی مادیت کے فلسفے میں سمویا اور بیان کیا کہ سوچ مادے کی خصوصیت ہوتے ہوئے مادے پر اثر انداز ہوتی ہے اور مادے اور شعور کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق ہے جس میں کسی ایک کو دوسرے پر ممتاز کرنے کی بجائے دونوں کو جوڑتے ہوئے حقیقت کو جانا، سمجھا اور بدلا جاسکتا ہے۔

آدم کی تفصیلی گفتگو کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور گوجرانوالہ سے صبغت وائیں اور مشعل وائیں، لاہور سے باسط خان، پشاور سے اسفندیار، ملتان سے راول اسد، اسلام آباد سے حیات اور بلوچستان سے سیما نے گفتگو میں حصہ لیا۔

ان تمام مقررین نے فلسفے کے ارتقا سمیت جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی بھی وضاحت کی۔

سیشن کا اختتام کرتے ہوئے آدم کا کہنا تھا کہ سوائے مارکسی جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار کے کائنات کے مظاہر اور موجودہ سماج کا درست تجزیہ کرنا ممکن نہیں۔ مارکسزم ایک سائنس ہے جو نہ صرف دنیا میں موجود تضادات کی تشریح کرتی ہے بلکہ اس دنیا کو بدلنے کی راہ بیان کرتی ہے اور ایک ایسے سماج کے قیام کا رستہ بتاتی ہے جب انسان روٹی، کپڑے، مکان اور دیگر بنیادی چیزوں کے حصول کی کشمکش سے آزاد ہوں گے اور انسان اور فطرت کے تضادات کی تسخیر کے عمل پر معمور ہوں گے۔ آج سرمایہ داری کے استحصال کے باعث صرف چند لوگ سائنس اور فلسفے تک رسائی رکھتے ہیں اور ہم ایک جدید دنیا بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جب اربوں انسانوں کو سائنس اور فلسفے تک رسائی ہوگی تو انسان کائنات کی تسخیر کرے گا اور اسی دھرتی پر ایک جنت قائم کی جائے گی۔

چوتھا سیشن: ”ریاست اور انقلاب“

سکول کے دوسرے دن کے آخری اور مجموعی طور پر چوتھے سیشن کا موضوع لینن کی شہرہ آفاق کتاب ”ریاست اور انقلاب“ تھا جس کو چئیر اسلام آباد سے عثمان سیال نے کیا جب کہ تفصیلی گفتگو لاہور سے ثناء اللہ جلبانی نے کی۔

ثناء اللہ نے گفتگو کا آغاز اس کتاب کے پسِ منظر سے کیا کہ انقلاب روس سے صرف 2 ماہ قبل لینن نے اس کتاب کو تحریر کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب انقلاب اور ردِ انقلاب کی جنگ جاری تھی۔ ایسے طلاطم خیز عہد میں اس کتاب کو تحریر کرنے مقصد انقلابیوں کے سامنے ریاست کے سوال کی اہمیت کو بیان کرنا تھا۔

ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے لے کر ٹی وی پر بیٹھے دانشوروں کی جانب سے ریاست کو بنیادی طور پر لوگوں کے آپسی سوشل کنٹریکٹ کے نتیجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو کہ ازل سے موجود ہے۔ ثناء اللہ نے واضح کیا کہ درحقیقت ریاست کا اُبھار زائد پیداوار کے اُبھارکے ساتھ جُڑا ہے۔ جب زائد پیداوار کی ملکیت کے سوال پر دو طبقات وجود میں آئے اور ان کی ملکیت پر جاری لڑائی ناقابلِ مصالحت سطح پر پہنچی تو ریاست (مسلح افراد کے جتھوں) کا اُبھار ہوا جس کا کام طاقتور طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا نہ کے دو طبقات کے درمیان مصالحت کرانا تھا۔ یہاں یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ شاید ریاست دونوں طبقات کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کرتی ہے درحقیقت ریاست حکمران طبقے کی حاکمیت اور ملکیت کا تحفظ کرنے اور محکوم طبقات کو محکوم رکھنے کا ادارہ ہی ہوتا ہے۔

ثناء اللہ نے مزید کہا کہ ریاست کی اپنے اُبھار سے لے کر آج تک ساخت اور اداروں کی شکلوں میں، ذرائع پیداوار اور پیداواری تعلقات کی تبدیلیوں کے ساتھ، تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں مگر آج بھی تمام تر نام نہاد جمہوری نعروں اور عوام دوست شکلوں کے باوجود ریاست حکمران طبقے کے مفاد کی خاطر کام کرتی ہے اور سرمایہ داروں کے مفاد کیلئے محنت کش محکوم طبقے کو دبانے اور ان پر جبر کرنے کا ہر حربہ استعمال کرنے کیلئے تیار ہوتی ہے۔ اس لیے محنت کش طبقے اور انقلابیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ریاست کے کردار پر واضح ہوں اور انقلاب کی تیاری کے عمل میں موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کے مقابلے میں محنت کش طبقے کی ریاست کے قیام کے عمل کی جدوجہد کو تیز کریں۔

ثناء اللہ نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کے فوراً بعد سرمایہ دارانہ ریاست کا شیرازہ بکھیر دیا جائے جس کی جگہ ایک مزدور ریاست تعمیر کی جائے گی جس کا مقصد قلت کو افراط میں بدلتے ہوئے عالمی سوشلزم کا قیام ہو گا۔ جب تک سماج میں قلت موجود ہے تب تک ریاست کا خاتمہ ناممکن ہے۔ سماج سے قلت کے خاتمے کے بعد کسی ریاست کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اور مزدور ریاست آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی چلی جائے گی تب جا کر اس دھرتی پر ایک حقیقی جنت تعمیر ہوگی۔

ثناء اللہ کی تفصیلی گفتگو کے اختتام پر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور سوالات کے بعد بلوچستان سے حضرت عمر، کراچی سے پرویز، ملتان سے راول اسد، کشمیر سے عمر ریاض اور یاسر ارشاد، لاہور سے شعیب سیال، اسلام آباد سے یار یوسفزئی اور لاہور سے آدم پال نے گفتگو میں حصہ لیا اور سوالات کے جوابات دیے۔

اس سیشن کا اختتام ثناء اللہ نے اس بات پر کیا کہ انقلابیوں کیلئے ضروری ہے وہ ریاست کے کردار پر واضح ہوں اور اس کتاب کو اولین ذمہ داری کے طور پر پڑھتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز کریں تاکہ ایک ایسا سماج بنایا جاسکے جس میں انسان کا انسان پر جبر کا خاتمہ ہو اور انسان اس کائنات کو تسخیر کرتے ہوئے حقیقی انسانی زندگی گزار سکیں۔

اس سیشن کے اختتام سے قبل کشمیر میں بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف تحریک کے روح رواں اسد کبیر نے کشمیر میں جاری تحریک اور 6 اگست کو پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی شٹر ڈاؤن ہڑتال پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔

سکول کا اختتام آدم پال نے ان الفاظ سے کیا کہ: سکول میں زیرِ بحث آنے والے نظریات محنت کش طبقے کے نظریات ہیں اور یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ان نظریات کو مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں اور طلبہ تک لے کر جایا جائے اور ایک انقلابی پارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تا کہ ظلم و جبر پر مبنی اس نظام کو بدلا جاسکے اور ایک ایسا سماج تعمیر کیا جائے جو واقع ہی ایک انسانی سماج ہو۔

آخر میں مزدوروں کا عالمی ترانہ ”انٹرنیشنل“ گا کر کیا گیا۔

سارے جہاں کے محنت کشو۔۔۔اٹھو کہ وقت آیا!

سوشلسٹ انقلاب۔۔۔زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.