|رپورٹ: مرکزی بیورو، پروگریسو یوتھ الائنس|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 12 اور 13 مارچ کو کراچی میں دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ پی وائی اے ہر سال موسمِ سرما اور گرما میں مارکسی سکول منعقد کرتی رہی ہے مگر کرونا وباء کے عرصے میں سکول کا فزیکل اہتمام ممکن نہیں رہا تھا اور اس دوران متعدد آن لائن سکول منعقد کیے گئے۔ سو حالیہ مارکسی سکول ایک لمبے عرصے بعد پہلا فزیکل سکول تھا جس میں انتہائی مشکل حالات کے باوجود ملک بھر سے ساتھیوں نے شرکت کی۔
اس دو روزہ سکول میں زیرِ بحث لانے کے لیے چار موضوعات منتخب کیے گئے تھے، جو ”عالمی و ملکی تناظر“، ”مارکسزم بمقابلہ مابعد نو آبادیات“، ”جیمز ویب ٹیلیسکوپ، بِگ بینگ تھیوری اور مارکسی فلسفہ“ اور ”کیا کِیا جائے؟“ تھے۔
سکول کے پہلے دن کا پہلا سیشن ”عالمی و ملکی تناظر“ تھا، جس کا آغاز صبح دس بجے کیا گیا۔ اس سیشن کو کراچی کے کامریڈ عادل عزیز نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف شمالی پنجاب کے کامریڈ یار یوسفزئی کی تھی۔ یار یوسفزئی نے عالمی تناظر پر بحث کا آغاز عالمی پیمانے پر شدید ہوتے عدم استحکام سے کیا اور خاص کر روس اور یوکرائن کے حالیہ تصادم کو زیرِ بحث لایا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران آج نام نہاد ترقی یافتہ دنیا تک کو جنگوں میں رگید رہا ہے، یار یوسفزئی نے بیان کیا کہ یہ حملہ جہاں امریکہ سامراج کی کمزوری کا اظہار ہے وہیں اس کے پیچھے پیوٹن کے سامراجی عزائم کارفرما ہیں نیز سامراجی روس کے مقابلے میں مغربی ممالک بھی کسی طور پر عوام کیلیے نجات دہندہ نہیں بلکہ مغربی ممالک اور ان کے تحت چلنے والے سامراجی اداروں کی تاریخ بھی خون آلود ہے، چنانچہ عوام کو سب سے پہلے طبقاتی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں جڑت قائم کرنے اور اپنے اپنے ممالک میں موجود اپنے طبقاتی دشمنوں سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد یار یوسفزئی نے عالمی معیشت کی صورتحال پر بات رکھی جس کے بحران کو حالیہ روس اور یوکرائن کے تصادم نے مزید تیز کیا ہے، یار یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ہر جگہ پر افراطِ زر انتہاؤں کو چھو رہا ہے نیز عوام پر کٹوتیوں، نجکاری اور بیروزگاری کے حملے جاری ہیں جس کا ردعمل عوامی تحریکوں کے ذریعے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جیسا کہ سال کے آغاز میں قزاقستان کے اندر محنت کشوں کی ملک گیر طاقتور تحریک میں نظر آیا۔ مگر خود رو تحریکوں کی اپنی محدودیت ہوتی ہے جو واضح پروگرام اور انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں جلد ہی کمزور ہو کر ختم ہونے کی طرف جاتی ہیں۔ نیز یار یوسفزئی نے برطانیہ، امریکہ، چین، جرمنی، اٹلی، ترکی اور ایران کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی اور مستقبل کے لیے محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکوں کے اُبھار کی ناگزیریت کا تناظر دیا۔ یار یوسفزئی کا کہنا تھا عالمی سطح پر محنت کش طبقہ بالعموم سیاسی محاذ کی بجائے صنعتی محاذ پر متحرک ہو رہا ہے، ضرورت محض ان کے معاشی مطالبات کو ساتھ لیتے ہوئے ایک سوشلسٹ سیاسی پروگرام کے ساتھ جوڑنے کی ہے تاکہ بسترِ مرگ پر پڑے اس نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکے۔
یار یوسفزئی کی تفصیلی گفتگو کے بعد شرکاء کی جانب سے سوالات کیے گئے اور بلوچستان سے ستار، سندھ سے مجید پنہور، بہاولپور سے حمزہ، ملتان سے راول خان، شمالی پنجاب سے عثمان سیال، کشمیر سے کامریڈ عاقب، پشاور سے کامریڈ سحاب اور کامریڈ خالد، کراچی سے کامریڈ ثناء اور کامریڈ پارس جان نے اس بحث میں حصہ لیا۔
اس کے بعد یار یوسفزئی نے نظریات اور انقلابی پارٹی کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے عالمی و ملکی تناظر پر بحث کو سمیٹا اور پہلے سیشن کے اختتامی کلمات ادا کیے۔
سکول کا دوسرا سیشن ”مارکسزم بمقابلہ مابعد نو آبادیات“ پر تھا، جس کو بلوچستان کے کامریڈ رزاق غورزنگ نے چیئر کیا اور لاہور کے کامریڈ فضیل اصغر نے تفصیلی گفتگو کی۔ فضیل کا کہنا تھا کہ ہر ایک عہد میں عام حالات میں رائج نظریات حکمران طبقے کے نظریات ہوتے ہیں اور آج سرمایہ دارانہ زوال پذیری کے دور میں حکمران طبقے کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محنت کشوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کے اوپر سماج دشمن فلسفے اور نظریات مابعد جدیدیت و مابعد نوآبادیات سمیت دیگر صورتوں میں مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مابعد نو آبادیات بظاہر ایک انقلابی نظریہ لگتا ہے جو مغربی ممالک کے سامراجی کردار کی مذمت کرتا ہے نیز مشرقی ممالک اور ان کی تہذیب و ثقافت کو رومانوی انداز میں بڑی مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ درحقیقت یہ نظریہ مغربی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے اُبھار اور اس کے بنیادی اصولوں کی سمجھ بوجھ سے عاری ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے ایک عہد کے ترقی پسند کردار کو نظر انداز کر کے فقط اس کے سامراجی کردار کو زیرِبحث لاتا ہے اور یہ رائے قائم کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ممالک کا سامراجی کردار چند افراد کی منشاء پر منحصر تھا نیز مشرقی ممالک بغیر سرمایہ دارانہ نظام کے یہاں ایک جنت نظیر قائم کرسکتے تھے اور اگر مغربی سرمایہ داری مشرقی تہذیب کے سائے تلے پروان چڑھتی تو یہ کافی پر امن ارتقاء ہوتا۔ فضیل کا کہنا تھا کہ ما بعد نو آبادیات کے مطابق کوئی بھی نظریہ درست نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو پیش کرنے والا کسی نہ کسی طرح سے تعصب میں گرفتار ہوتا ہے۔ اور بالآخر جس نقطے پر یہ نظریہ مختتم ہوتا ہے وہ یہ کہ کوئی معروضی سچ نہیں ہے، اور ہر فرد دوسرے فرد سے مختلف ہے اور کسی قسم کی مشترکہ جدوجہد یعنی طبقاتی جدوجہد ہی ممکن نہیں۔ اسی طرح مابعد نوآبادیات کے نام نہاد نظریے کے مطابق مختلف سیاسی، فلسفیانہ اور سماجی امور پر موقف کی رجعتیت کو واضح کیا اور اس کے مقابلے میں مارکسزم کے موقف کو واضح کیا۔
فضیل کی تفصیلی گفتگو کے بعد شرکا ء نے سوالات کیے اور لاہور سے باسط، ملتان سے فرحان، پشاور سے ہلال، کشمیر سے کامریڈ عبید زبیر اور کراچی سے کامریڈ پارس نے بحث میں حصہ لیا۔ اسی طرح مابعد نوآبادیات کے ابھار کے پیچھے محرکات بالخصوص سٹالنزم کے کردار پر روشنی ڈالی۔
اس کے بعد فضیل اصغر نے گفتگو کو سمیٹا اور ان الفاظ پر اس سیشن کا اختتام کیا کہ مابعد نوآبادیات ایک ری ایکشنری نظریہ ہے جو محنت کش طبقے کی مشترکہ جدوجہد کو منقسم کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ استحصال کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اس کے خلاف ہمیں واضح طور پر مارکسی نظریات ہی نظر آتے ہیں جو سائنسی بنیادوں پر سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کا درست تناظر اور سماج کی تبدیلی کا واضح لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ سکول کے پہلے دن کا اختتام ہوا۔
دوسرے دن کا پہلا سیشن اور مجموعی طور پر تیسرا سیشن ”جیمز ویب ٹیلی سکوپ، بِگ بینگ تھیوری اور مارکسی فلسفہ“ تھا۔ اس کو ملتان سے کامریڈ راول اسد نے چیئر کیا اور لیڈ آف کراچی کے کامریڈ عادل عزیز نے دی۔ عادل نے مارکسی فلسفے یعنی جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے بگ بینگ تھیوری جو اپنے جوہر میں غیر سائنسی ہے، پر تفصیلی گفتگو کی۔ عادل کا کہنا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور بگ بینگ کو نقطہء آغاز قرار دینا غلط ہے۔ اس کے بعد عادل نے موجودہ دور میں سائنس کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ٹیکنالوجی اور سائنس انتہائی ترقی کے باوجود سرمایہ دارانہ حدود کے اندر مقید ہے۔ اور سائنس کا اولین مقصد اس نظام کو برقرار رکھنا رہ گیا ہے جس کے لیے سائنس کو اس نظام کیلیے جواز فراہم کرنے اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار کیلئے ایجادات کرنے تک محدود کردیا گیا ہے۔ عادل کا کہنا تھا جیمز ویب ٹیلیسکوپ کی لانچنگ ایک خوش آئند عمل ہے کیونکہ اس کے ذریعے انسان ابتدائی کہکشاؤں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے گا اور اس سے حاصل کردہ تمام ڈیٹا غیر مادی و غیر سائنسی نظریات کا تریاک ہوگا اور اس کائنات سے جڑے پراسرار سوالوں کو ہمیشہ کیلیے حل کردے گا۔
عادل کی تفصیلی گفتگو کے بعد سوالات کیے گئے اور بلوچستان سے کامریڈ سیما، شمالی پنجاب سے کامریڈ حیات، لاہور سے کامریڈ باسط، بہاولپور سے کامریڈ حمزہ اور کراچی سے کامریڈ پارس جان نے بحث میں حصہ لیا۔ تمام تر گفتگو کے بعد عادل نے تمام سوالات کا جواب دیا۔
دوسرے دن کا دوسرا اور مجموعی طور پر چوتھا سیشن لینن کی کتاب ”کیا کِیا جائے؟“ پر تھا۔ اس سیشن کو پشاور کے کامریڈ خالد نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف ڈی جی خان کے کامریڈ آصف لاشاری نے دی۔ آصف لاشاری نے لینن کی اس کتاب کی نظریاتی و سیاسی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اس دور کے مختلف رجحانات پر بات رکھی جو اس وقت موجود تھے جب یہ کتاب لکھی گئی۔ آصف کا کہنا تھا بنیادی طور پر لینن اس کتاب میں اس وقت کے روس کے مختلف سیاسی رجحانات اور گروہوں پر تنقید کرتا ہے اور ایک انقلابی پارٹی کے بنیادی خدوخال وضع کرتا ہے جس میں نظریات کو سب سے اہم گردانتا ہے۔ نیز اس کتاب میں لینن پروفیشنل انقلابی سمیت پرفیشنل ازم پر بات کرتا ہے جس کے تحت ایک انقلابی کے لیے انقلاب کا فریضہ اس کیلئے ایک پروفیشن ہونا چاہیے۔ نیز اس کتاب میں لینن اصلاح پسندی، معیشت پسندی سمیت دیگر نظریات کے غیر درست کردار کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، محنت کش طبقے اور انقلابی پارٹی کا آپسی تعلق اور انقلابی پارٹی کا کردار وضع کرتا ہے جس میں لینن انقلابی پارٹی کو محنت کش طبقے کا ہراول دستہ کرادیتا ہے۔ آصف کا کہنا تھا کہ لینن نے اس کتاب میں واضح کیا ہے کہ انقلابیوں کا کام صرف معاشی مسائل کے گرد محنت کش طبقے کی تحریکوں میں شامل ہونا نہیں ہوتا بلکہ ان معاشی جدوجہوں کو سیاسی پروگرام اور مستقل حل یعنی سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ جوڑنا ہوتا ہے۔ نیز لینن نے اس کتاب میں محنت کش طبقے کے اخبار کی اہمیت کو واضح کیا ہے جو نہ صرف انقلابی تنظیم کا نمائندہ ہوتا ہے بلکہ اخبار کا کردار خود انقلابی تنظیم میں بطور آرگانائزر کے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لینن اس کتاب میں خود رو تحریکوں کی محدودیت کو بھی واضح کرتا ہے اور انقلابی پارٹی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
آصف کی تفصیلی گفتگو کے بعد شرکاء نے سوالات کیے جس کے بعد بلوچستان سے کامریڈ حضرت عمر، بہاولپور سے کامریڈ حمزہ، لاہور سے کامریڈ ثناء اللہ جلبانی اور کامریڈ فضیل نے بحث میں حصہ لیا اور آخر میں آصف لاشاری نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔
سکول کے اختتام پارس جان نے اختتامی کلمات ادا کرکے کیا جس میں پارس نے دنیا بھر میں بنتے انقلابی حالات میں درست نظریات پر قائم شدہ انقلابی پارٹی کی اہمیت پر زور دیا اور پاکستان میں ہنگامی بنیادوں پر ایک مارکسی پارٹی کے قیام کی جدوجہد تیز کرنے کا کہا۔ اور پارس نے کہا کہ یہ سکول بھی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ایک کڑی ہے۔ ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے کیلئے انقلابی نظریات سے لیس ہونا ہوگا تاکہ ہم مستقبل میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں کو سوشلسٹ انقلاب کی خوبصورت منزل سے ہمکنار کرسکیں اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و جبر کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر سکیں۔ سکول کا اختتام مزدوروں کے عالمی ترانے انٹرنیشنل کو گا کر کیا گیا۔
ہے جنگ ہماری آخری۔۔۔۔اس پر ہے فیصلہ!
سارے جہاں کے محنت کشو۔۔۔اٹھو کہ وقت آیا!
ہمارا راستہ۔۔۔جدوجد!
ہماری منزل۔۔۔۔سوشلسٹ انقلاب!