|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی کے IHBM ڈیپارٹمنٹ میں 23 ستمبر کو پروفیسر منظور احمد نے طالبہ کو ہراساں کیا۔ اس واقعے سے دوماہ قبل بھی پروفیسر منظور احمد نے متاثرہ طالبہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔ اسائنمنٹ کو بنیاد بناتے ہوئے پروفیسر منظور مسلسل طالبہ کو بلیک میل کر رہا تھا۔ مگر طالبہ نے پروفیسر کی بلیک میلنگ اور ہراسانی کے خلاف جرات کا مظاہرہ کیا اور خاموشی اختیار کرنے کی بجائے اس واقعے کے بارے میں اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں کو آگاہ کیا۔ طلبہ کو پہلے ہی پروفیسر منظور پر شدید غصہ تھا کیونکہ یہ پروفیسر پہلے بھی کئی طالبات اور فیکلٹی کی خاتون ممبران کو ہراساں کر چکا تھا۔ کئی شکایتوں کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
اس واقعے کی خبر سنتے ہی طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مجرم کو گھسیٹتے ہوئے ڈین کے دفتر لے گئے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ اس پروفیسر کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور اسے فی الفور یونیورسٹی سے نکالا جائے۔ لیکن پھر بھی انتظامیہ نے اس سنگین جرم کے خلاف کوئی کاروئی نہیں کی، الٹا طلبہ کو دھمکایہ اور الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر طلبہ کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا۔
انتظامیہ کی اس قدر ہٹ دھرمی نے طلبہ کو مزید مشتعل کردیا اور جے ایس یو ایم کے تمام شعبہ جات کے طلبہ نے 24 ستمبر کو اس رویے کے خلاف 10 بجے مین گیٹ پر پرامن احتجاج کی کال دی۔ جس میں طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور یونیورسٹی کا گیٹ بند کر دیا۔ اس احتجاج میں پروگریسو یوتھ الائنس کے و فد نے شرکت کی۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور انتظامیہ اور پروفیسر کے گھٹیا کردار کی مذمت کرتا ہے۔ طلبہ کی شاندار مزاحمت کو سلام پیش کرتا ہے اور اس جدوجہد میں طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عزم کرتا ہے۔
احتجاج میں بات کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے کہا کہ یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے، اس وقت تعلیمی ادارے ہراسمنٹ کا گڑھ بن چکے ہیں۔ اس کے خلاف طلبہ کو اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینی ہونگی۔ ان کمیٹیوں میں ہر کلاس کے طلبہ کو منظم کیا جائے اور اسی طرح شہر کے باقی تعلیمی اداروں کی کمیٹیوں سے ان کو جوڑا جائے۔ تاکہ کسی ایک ادارے میں جنسی ہراسانی اور دیگر مسائل کے خلاف طلبہ کی باہمی جڑت کے ساتھ مزاحمت کی جائے۔ ایک تعلیمی ادارے کے مسئلے کے خلاف پورے شہر کے طلبہ آواز اٹھائیں۔ اور اس سے بڑھ کر دوسرے شہروں اور دوسرے صوبوں کی کمیٹیوں کے ذریعے ملک بھر کے طلبہ کو اکٹھا کیا جائے اور ملک گیر سطح پر متحد ہوکر جدوجہد کی جائے۔ اس سے نہ صرف ہراسمنٹ بلکہ فیسوں میں اضافے، ہاسٹل و ٹرانسپورٹ کی کمی، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں اورطلبہ یونین پر عائد پابندی جیسے دیگر مسائل کو بھی حل کرایاجا سکتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ مزاحمت ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔