|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی |
13 اگست کو بلوچستان کے ضلع تربت /کیچ میں آبدر کے مقام پر ایک حملہ ہوا، جس کے ردِعمل میں بلوچستان میں فوجی دستے ایف سی (فرنٹیئر کور) کے اہلکاروں نے نزدیکی باغ میں والدین کے ساتھ کام کرنے والے کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم حیات مرزا بلوچ کو اس کے غریب ماں باپ کے سامنے بے دردی سے 8 گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ حیات بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف تربت سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں طلبہ اور عوام کی جانب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔ جس کے تسلسل میں بی ایس ای او (بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن) نے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کی کال دیتے ہوئے مختلف طلبہ تنظیموں سے شرکت کرنے کی اپیل کی۔
22 اگست کو پورے ملک میں حیات بلوچ کے بہیمانہ ریاستی قتل کے خلاف احتجاج ہوئے، اس موقع پر کراچی پریس کلب کے سامنے مختلف طلبہ تنظیموں کے طلبہ، محنت کشوں اور پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس ظالم ریاست سمیت اس فرسودہ نظام کو چیلنج کیا۔ مظاہرین کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار نظر آیا اور مظاہرین کی جانب سے شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔ واضح رہے کہ حیات بلوچ کے نام پر اٹھنے والی یہ تحریک صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک سے جڑی ہوئی ہے۔
اس موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے آرگنائزر کامریڈ امیر یعقوب نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل پر ریاستی دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل پاکستان کی تاریخ میں کوئی پہلا یا آخری قتل نہیں ہے۔ اگر یہ سرمایہ دارانہ ریاست اور یہ ظالم نظام مزید قائم رہے تو نجانے کتنے حیاتوں کی حیاتیاں ہم سے چھینی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں حیات بلوچ کے نام پر اٹھنے والی تحریک کو صرف بلوچستان تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس تحریک کو پورے ملک سے جوڑ کر منظم کرنے کے لیے پاکستان بھر کے تمام طلبہ اور محنت کشوں سمیت تمام مظلوم اقوام کے لوگوں کو متحد کرنا ہو گا اور اس جبر کے نظام کے خلاف لڑائی لڑ کر اس جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب تک لے جانا ہو گا۔