|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
4جنوری کو ایک 7 سالہ بچی زینب کو اغوا کرنے بعد انتہائی بے دردی کیساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اورپھر اسے قتل کر کے ایک کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ یہ ایک انتہائی وحشت ناک اور غیر انسانی واقعہ ہے اور اس واقعے کیخلاف ملک بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 9جنوری کو زینب کی لاش ملنے کے بعد ملک بھر کی عوام اور خاص طور پرنوجوانوں نے اس واقعے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پورے ملک میں نوجوانوں نے فیس بک اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ اسی غم و غصے اور پولیس کی ہٹ دھرمی کے خلاف قصور شہر میں بھی 10جنوری کو بہت بڑا مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے میں لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا رخ کیا اور ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھائے وہ پولیس کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ اسی دوران پولیس کی جانب سے مظاہرین پر گولیاں چلا دی گئیں۔ جس کے نتیجے میں دو لوگ مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے غم و غصے میں مزید اضافہ کر دیا۔ جس کے بعد پورے ملک میں نوجوانوں نے خاص طور پر یونیورسٹی طلبہ نے مختلف شہروں میں احتجاجوں کی کال دی۔ یاد رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ صرف قصور شہر میں اس سے پہلے اسی طرز کے 11واقعات اور بھی ہو چکے ہیں اور پولیس کی جانب سے ان پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میں پچھلے واقعات اور ان پر پولیس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے شدید غم و غصہ اکٹھا ہو چکا تھا ۔ وہ غم و غصہ بالآخر اس واقعے پر ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ گیا۔
اسی سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس نے بھی ملک کے متعدد شہروں میں احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسی احتجاجی سلسلے میں 11جنوری بروز منگل کو ملتان شہر میں مختلف جگہوں پر احتجاج اور ریلیاں نکالی گئیں۔ سب سے پہلا احتجاج گول باغ میں کیا گیا۔ اس احتجاج کا آغاز دن 12بجے ہوا۔ اس احتجاج میں سینکڑوں طلبہ نے شرکت کی۔ جن میں ایمرسن کالج ملتان،بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان، نشتر میڈیکل کالج، ایجوکیشن یونیورسٹی ملتان، سائنس کالج ملتان، کمپری ہینسو کالج ملتان کے طلبہ شامل تھے۔ یہ احتجاج ایک گھنٹہ لگاتار چلتا رہا جس میں نوجوانوں نے شدید نعرے بازی کی۔ نوجوانوں کو دیکھتے دیکھتے مقامی لوگ بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔
اس کے بعد گول باغ سے چونگی نمبر 6تک ایک ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے دوران بھی نوجوانوں نے شدید نعرے بازی کی اورپورے شہر کو متوجہ کیا۔ ریلی کا اختتام چونگی نمبر 6پر ہوا۔ چونگی نمبر 6 پر آدھا گھنٹہ احتجاج کیا گیا۔ یہ کافی مصروف علاقہ ہے اسی وجہ سے احتجاج کو ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔اسی دوران دیگر کالجوں اور سکولوں کے طلبہ بھی ایک ریلی کی صورت میں اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ احتجاج میں پورے شہر کے نوجوانوں کی شدید نعرے بازی سے انکا غم و غصہ واضح جھلک رہا تھا۔ پھر چونگی نمبر 6سے چیز اپ (chase up) پلازہ تک انتہائی مصروف سڑک بوسن روڈ پر ایک اور ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی میں سینکڑوں نوجوانوں نے شرکت کی۔ اس ریلی کا اور اسکے ساتھ ساتھ احتجاجات کا خاتمہ چیز اپ پلازہ پر جا کر ہوا۔ یہاں بھی نوجوانوں نے کچھ دیر رک کر نعرے بازی کی۔
ان احتجاجوں اور ریلیوں میں پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں سمیت دیگر نوجوانوں نے نعرے بازی اور تقریریں کیں۔ طلبہ نے ریاستی دہشت گردی، حکومتی غنڈہ گردی، ریاستی نا اہلی ، سرمایہ دارانہ نظام، حکمرانوں اور ریاستی اداروں کیخلاف شدید نعرے بازی کی اور زینب کے قتل کے حقیقی مجرم حکمرانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بیوروکریٹوں، ججوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کو قرار دیا گیا۔ نوجوانوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے ایسے کئی واقعات آئے روز ہوتے ہیں جن کا ذکر کسی میڈیا چینل پر نہیں ہوتا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عام لوگ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار عوامی دباؤ کی وجہ سے میڈیا کو مجبوراً عام لوگوں پر ہونے والا ظلم دکھانا پڑ جاتا ہے مگر وہ میڈیا کا عوام دوست ہونے کی نشانی نہیں بلکہ عوامی طاقت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسے واقعات پر مظلوم کو انصاف بھی صرف عوامی دباؤ کی وجہ سے ہی مل پاتا ہے۔
اسی طرح پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہا کہ یہ سب کچھ اس گلتے سڑتے نظام کی وجہ سے ہے۔ اس نظام میں آج کوئی انسان محفوظ نہیں ہے۔ آج پوری دنیا میں ہمیں وحشت، دہشت اور درندگی نظر آتی ہے۔ چاہے مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک ہو جہاں لاکھوں انسانوں کو قتل اور بے گھر کر دیا گیاہے یا پھر پاکستان جہاں عام لوگوں کے لیے جہنم کا سماں ہے جس میں روز ان کو جلنا، تڑپنا اور چیخناپڑتا ہے۔جہاں ظلم کی بے تحاشا شکلیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک زینب کا واقعہ بھی ہے۔ ایسی صورت حال میں ان حکمرانوں کی زندگیاں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ لوگ جنت میں رہ رہے ہیں۔ انکی عیاشیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک طرف اربوں عام لوگ ہیں جو ذلت ، جہالت، پسماندگی، وحشت اور دہشت میں زندگیاں گزار رہے ہیں اور ایک طرف مٹھی بھر لوگ ہیں جن کے پاس دنیا کی ہر سہولت موجود ہے۔ ان مٹھی بھر (ایک فیصد)وحشیوں کو اربوں انسانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ انکے لیے یہ سب بھیڑ بکریاں ہیں۔ جبکہ یہ عام لوگ (مزدور اور کسان) ہی ہیں جو پوری دنیا چلا رہے ہیں ۔ ایسا ہمیشہ کیلئے نہیں رہ سکتا۔ ہمیں(مزدوروں ،کسانوں اور طلبہ کو) ان مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں اور ان کے نظام سرمایہ داری کے خلاف منظم ہو کر ایک جدوجہد کرنا ہو گی اور اس انسان دشمن نظام جس کا نام سرمایہ داری ہے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ظلم کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔