جامشورو: سندھ یونیورسٹی میں ”اینٹی ہراسمنٹ ریلی“ کا انعقاد۔۔ اطاعت نہیں بغاوت!!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ یونیورسٹی|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ملک بھر 8 مار چ کو محنت کش خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جس کے تسلسل میں سندھ یونیورسٹی میں بھی پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے تعلیمی اداروں میں جاری جنسی ہراسانی، اقلیت سے تعلق رکھنے والی کم سن لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی، غنڈہ گردی، ٹرانسپورٹ کی کمی، چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کی طالبات نوشین اور نمرتا کے قتل کیخلاف، آرٹ فیکلٹی سے سنٹرل لائبریری براستہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ ریلی نکالے گئی۔ جس کیلئے پروگریسو یوتھ الائنس سندھ یونیورسٹی کے کارکنان نے تمام شعبوں میں پمفلٹ تقسیم کر کے طلبہ کو دعوت دی۔
انتظامیہ کی جانب سے ریلی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اس ریلی کو منعقد کرانے کی پاداش میں پروگریسو یوتھ الائنس سندھ یونیورسٹی یونٹ کے صدر مجید پنھور کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔ اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے این جی اوز کی تعاون سے لبرل خیالات کی ترویج کیلیے سمینارکا انعقاد کرایا گیا اور اس کے علاوہ مذہبی اجتماعات بھی کرائے گئے۔

ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے انقلابی جذبات سے شاندار ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبا و طالبات نے بھرپور شرکت کی۔ اور انتظامیہ اور ان کی دلال تنظیموں کو یہ پیغام دیا کہ اب طلبہ ہاسٹلز کے اندر قتل کی گئی طالبات اور پروفیسر مافیہ کی جانب سے جنسی ہراسانی پر خاموش نہیں رہیں گے۔ ریلی کے اختتام پر مطالعہ پاکستان کی طالبہ موتیاں میمن نے جنسی ہراسانی اور ٹرانسپورٹ کی کمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نام نہاد ہراسمنٹ کمیٹی میں طلبہ کی نمائندگی نہ ہونا اس بات کی وضاحت ہے کہ یہ طلبہ کے حق میں نہیں بلکہ ان کے خلاف بنائی گئی ہیں۔ جہاں طالبات کے آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی جائے۔ اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس سندھ یونیورسٹی کے انفارمیشن سیکرٹری دادن کپری نے انقلابی نظم پڑھی اور پروگریسو یوتھ الائنس سندھ یونیورسٹی کے صدر مجید پنھور کو دعوت دی۔

مجید نے اپنے خیالات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام کی اخلاقی گراوٹ اور انسان دشمنی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ ایک 7 روزہ بچی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا جائے، اور اسی طرح ان درسگاہوں میں بیٹھے بھیڑیوں کی وحشت کا اندازدو طالبات کے قتل سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم سائنسی بنیادوں پر ان واقعات کو سمجھتے ہوئے ان مسائل کی جڑ تک پہنچ کر ان کا خاتمہ کریں۔ ایک طرف ملا اشرافیہ جو عورت کو چار دیواری کا تقدس بنا کر پڑھائی سے لیکر زندگی جینے کا حق تک چھین لیتے ہیں، دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے بھی نام نہاد آزادی کے بینر تلے عورت کو ایک جنس بنادیا ہے اور اب عورت کو بھی اپنے منافعوں میں اضافے کیلئے استعمال کر ر رہے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ان دونوں نظریات کی یونورسٹی میں ترویج صرف اس نظام زر کو بچانے اور اپنی لوٹ مار کو قائم رکھنے کیلئے ہے۔ موجودہ عہد جہاں سرمایہ دارانہ نظام عالمی بحران کے زد میں ہے جس کے سبب طبقاتی استحصال سمیت قومی و صنفی جبر میں اضافہ ہورہا ہے جس کے خلاف تحریکیں بھی نمودار ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے جس کی بہترین مثال طالبان ریجیم اور اس کے آقاؤں کیخلاف افغانی محنت کش عورتوں کی جدو جہد ہے اور ہم انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ مجید پنھور کا مزید کہنا تھا کہ اس نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام کا قیام کرتے ہوئے عورت کو گھریلو مشقت سے نجات دلاکر سماجی محنت میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیے بغیر عورت پر جبر کا خاتمہ ناممکن ہے۔ لہذا ہم طلبہ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس جدوجہد میں ہمارے ساتھ شامل ہوں تاکہ اس ظالم نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جاسکے اور تمام تر ظلم و جبر سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصک کیا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.