|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، میر پور|
تعلیمی اداروں میں جمعیت نے ہمیشہ کی طرح طلبہ دشمن روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انتظامیہ کے زیر سرپرستی میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کل ہاسٹل کے کمرے میں گھس کر ایک طالب ِ علم پر تشدد کیا جس کے بعد ہاسٹل میں موجود طلبہ نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور اکٹھے ہو کر ان غنڈوں کو پولیس کے حوالے کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ اور جمعیت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، پروگریسو یوتھ الائنس جمعیت کی اس غنڈہ گردی کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ فلفور جمعیت پہ پابندی عائد کی جائے۔
جمعیت کی غنڈہ گردی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں جمعیت کی طرف سے معصوم طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں جمعیت اور دوسری غنڈہ گرد تنظیمیں انتظامیہ کی سرپرستی میں کھلے عام غنڈہ گردی کرتی نظر آتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور اور اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں جمعیت اور دوسری تنظیموں کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے یونورسٹیاں میدانِ جنگ کے مناظر پیش کر رہی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست پر پابندی عائد کی گئی ہے اور یونیورسٹی کے داخلوں سے پہلے طلبہ سے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف لیا جاتا ہے تو جمعیت جیسی تنظیم کو تعلیمی اداروں میں کھلے عام غنڈہ گردی کی کیسے اجازت ہے؟
ضیاالحق کے دورِ حکومت میں جب طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی تب جمعیت اور دوسری مذہبی تنظیموں کو طلبہ کی ڈی پولیٹیسائزیشن کیلئے تخلیق کیاگیا تاکہ طلبہ سیاست کو صرف اور صرف لاٹھیوں اور بندوقوں کی سیاست بنا کر طلبہ کی اکثریت کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ اس طرح ایک لمبے عرصے میں ان جماعتوں کو نہ صرف یونیورسٹی انتظامیہ بلکہ ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں کھلی چھوٹ دی گئی اور طلبہ کو سیاست سے دور رکھا گیا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست یہ کیوں چاہتی ہے کہ طلبہ سیاست سے دور رہیں؟۔
پچھلے ایک لمبے عرصے سے سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے۔آئے روز بڑھتی مہنگائی اور فلاحی کاموں پر لگائی جانے ولای کٹوتیاں اور دوسری طرف حکمران طبقے کی بڑھتی لوٹ مار سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اور ان سب مسائل کے خلاف شدید عوامی غصہ پنپ رہا ہے۔ عوام کے بڑھتے عوامی غصے کو قابو میں رکھنا حکمران طبقے کیلئے لازمی ہو جاتا ہے تاکہ وہ اپنا تسلط قائم رکھ سکے اور لوٹ مار کوجاری رکھ سکے۔طلبہ عوام کی پڑھی لکھی پرت ہوتی ہے جس کے پاس اضافی وقت موجود ہوتاہے کہ وہ اپنے گرد وقوع پذیر ہونے ولاے واقعات کا جائزہ لے سکیں۔ پچھلے ایک لمبے عرصے سے اس بحران زدہ نظام نے طلبہ کے مسائل میں بھی بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں لگائی جانے والی کٹوتیوں کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو اہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان تو پہلے ہی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے تھے لیکن اب تو درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے بھی تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ طلبہ کی بڑی تعداد تعلیمی اخراجات کو برداشت کرنے کیلئے پڑھائی کے ساتھ ساتھ پا رٹ ٹائم نوکریاں کرنے پر مجبو رہیں۔
بڑھتی فیسوں، ہراسمنٹ، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی کمی اور دیگر مسائل کے خلاف طلبہ میں شدید غصہ موجود ہے اور اب وہ اس کے اوپر سوال اٹھانا شروع کر رہے ہیں۔ اسی لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی طرف سے جمعیت اور دوسری غنڈہ گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو بڑھا دیا گیا ہے تاکہ طلبہ میں خوف و ہراس کا ما حول قائم رکھا جائے اور طلبہ کی توجہ کو طلبہ اور بڑے پیمانے پر موجود عوامی مسائل سے ہٹا کر لاٹھی اور بندوقوں کی سیاست کی طرف مرکوز کی جائے اور طلبہ کی حقیقی تحریکوں کو روکا جائے۔ اسی لیے ان مسائل کے گرد ابھرنے والی کسی بھی طلبہ تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے جمعیت جیسے غنڈہ گرد تنظیموں کا سہارا لیا جاتا ہے۔او ر ہر قسم کی مثبت سرگرمیوں کو روکا جاتاہے۔ اور یونیورسٹی میں ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ طلبہ میں انتظامیہ اور ان غنڈوں کا خوف قائم رکھا جائے۔ یونیورسٹیاں تعلیمی اداروں کی بجائے فوجی چھاؤنیوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر طلبہ کو یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت اور حتیٰ کہ ڈیپارٹمنٹ کے اندر بھی روک کر کارڈ چیک کیے جاتے ہیں۔لیکن ان غنڈہ گرد عناصر کو کھولی چھوٹ دی گئی ہے۔ انتظامیہ کی سرپرستی میں یہ غنڈے سرِعام لاٹھیاں اور بندوقیں لے کے یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں اور طلبہ کو ہراساں کرتے ہیں۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد اب انتظامیہ اور ان غنڈوں کے کردار کو جان چکی ہے اور ان سے شدید نفرت بھی کرتی ہے جس کا واضح اظہار ہمیں کل جامعہ میر پور میں ہونے والے واقع سے ہوتا ہے جب طلبہ نے اکٹھے ہو کر جمعیت کے غنڈوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ اس واقع سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور یہ غنڈہ گرد تنظیمیں چاہے جتنی بھی طاقت ور کیوں نہ ہوں طلبہ کے اتحاد کی قوت کے سامنے کمزور ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہ ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ طلبہ متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ان غنڈہ گردوں سے اور باقی تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ ان مسائل کے گرد اکٹھے ہوں اور جمعیت جیسے غنڈی گرد غلاظتوں کو تعلیمی اداروں سے باہر نکال پھینکیں اور حقیقی سیاست کا آغاز کیا جائے جس میں تاریخ، ادب فلسفے اور بنیادی مسائل کے حل کی بحثوں کو عام کرتے ہوئے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے خلاف ہونے والے جبر کے خلاف ان کی جدوجہد میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہی ہے اور آگے بھی رہے گی ہم طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنتے ہوئے جدوجہد کو منظم بنیادوں پہ آگے بڑھائیں۔
طلبہ اتحاد ۔۔زندہ باد!