|تحریر: مظہر علی|
جنوبی پنجاب کے دوسرے بڑے شہر بہاولپور میں موجود اسلامیہ یونیورسٹی، بی زیڈ یو ملتان کے بعد جنوبی پنجاب کے مقامی پسماندہ علاقوں کے غریب طالب علموں کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ کیونکہ اس خطے کے طلبہ کی اکثریت غربت و بیروزگاری کی وجہ مہنگی پرائیویٹ یونیورسٹیوں یا پھر وفاق یا اپر پنجاب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کی وجہ سے بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، حاصل پور، لودھراں و دیگر قریبی شہروں کے طلبہ اعلیٰ تعلیم یہیں سے حاصل کرتے ہیں۔ محنت کش گھرانوں سے وابستہ طلبہ پہلے ہی تعلیم سے محروم تھے لیکن اب درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے دروازے بھی بند ہوتے جا رہے ہیں۔
2019 ء سے یونیورسٹی انتظامیہ فیسوں میں مسلسل اضافہ کرتی جا رہی ہے اور اب تک دو سو فیصد سے زائد کا اضافہ کر چکی ہے۔ جس کی ایک وجہ وفاق کی جانب سے مسلسل ہر بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی جبکہ دوسری بڑی وجہ یونیورسٹی انتظامیہ کی لوٹ مار و شاہ خرچیاں ہیں۔
یونیورسٹی کی فیسوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جہاں ایک طرف طلبہ کی بڑی تعداد درمیان میں ڈگری چھوڑ گئی ہے، تو وہیں دوسری طرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں طلبہ فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے داخلہ لینے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف طلبہ تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ سیٹیں بیچنے میں مصروف ہے۔ جس کی وجہ سے اس پسماندہ خطے میں غربت اور ناخواندگی بڑھ رہی ہے اور والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکال کر ورکشاپوں اور ہوٹلوں پر بھیجنے لگے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ہر سال ہزاروں طلبہ کو اسکالر شپس دے رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ احساس اسکالر شپ و دیگر اسکالر شپ کی رقم وصول کرنے کے باجود طلبہ کو ٹرانسفر نہیں کر رہی اور فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنا رہی ہے جبکہ یونیورسٹی میں آئے روز فنکشنز، سیمینار و فیسٹیولز منعقد کیے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس وقت اکثر طلبہ کی سکالر شپس پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ جو طلبہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں انکو بلیک میل کیا جاتا ہے اور مختلف پیڈ کالم نگاروں و صحافیوں کو ملا کر خود کو پاک صاف اور طلبہ کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جبکہ انہی طلبہ کی فیس کے پیسوں سے مختلف صحافیوں و کالم نگاروں کو مراعات دی جا رہی ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کی رائے کے برعکس شدید گرمی کے موسم میں سمر سمیسٹر کا انعقاد کر دیا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ ہیٹ اسٹروک و بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایچ ای سی نے اس سمر سمیسٹر کے ڈرامے پر نوٹیفکیشن جاری کیا کہ کسی یونیورسٹی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سال میں تین ریگولر سمیسٹر کا انعقاد کرے، مگر کرپشن اور شاہ خرچی میں لتھڑی ہوئی اس انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اور اب سمر سمیسٹر کی ڈیڑھ ماہ پہلے فیس وصول کرنے کے بعد اگلے سمیسٹر کا چالان طلبہ کو تھما دیا گیا ہے۔ اور سمیسٹر چار ماہ کی بجائے دو ماہ میں ختم کیا جا رہا ہے، جس میں نہ تو پوری طرح سے کلاسز ہو رہی ہیں اور نہ ہی طلبہ کو بیٹھنے کے لیے کلاسز مل رہی ہیں۔ یونیورسٹی میں سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ طلبہ کے لیے جہاں کلاس رومز دستیاب نہیں ہیں تو وہیں دوسری طرف پینے کا ٹھنڈا پانی تک بھی میسر نہیں ہے۔ ایسے میں طالب علم اور ان کے والدین دوہری اذیت کا شکار ہیں۔
ان تمام مسائل کے خلاف طلبہ میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔ خصوصاََ سوشل میڈیا پر ان مسائل کے خلاف کیمپئین جاری ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے اپنی ساری جمع پونجی صرف کرنے کے بعد اب تعلیم جاری رکھنے کے لیے گھر بیچ کر فیس ادا کرنے کی نوبت آگئی ہے۔ انتظامیہ مکمل طور پر طلبہ کے مسائل سننے سے انکار کر رہی ہے۔ انتظامیہ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ کلاسیں ہو رہی ہیں یا نہیں۔ انتظامیہ کو بس ہر صورت میں فیس بٹورنی ہے۔ یونیورسٹی پیجز پر مسائل کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبہ کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور مسائل کو چھپانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل اسلامیہ یونیورسٹی میں تعلیم کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ یونیورسٹی دیوالیہ ہوچکی ہے۔یونیورسٹی ملازمین تک کو تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں۔
ایسے میں پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو ایک پیغام دینا چاہتا ہے کہ یہ طلبہ دشمن انتظامیہ تب تک یہ حملے جاری رکھے گی جب تک ہم متحد نہیں ہوتے ہیں۔ ہمیں متحد اور منظم ہو کر ان مسائل کے خلاف لڑنا ہوگا۔ ہمیں ہر کلاس سے نمائندے منتخب کرنے ہوں گے اور انکی بنیاد پر ہر ڈیپارٹمنٹ اور پھر یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ کی منتخب کمیٹیاں بنا کر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ یہی طلبہ کی منتخب کمیٹیاں جمہوری انداز میں طلبہ کے مسائل کے لیے لڑ سکتی ہیں اور انہی سے ہی ہم اس تعلیم دشمن نظام اور انتظامیہ کو لگام ڈال سکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ فیسوں میں اضافہ، تعلیمی بجٹ میں کمی، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی کمی، خستہ حال انفراسٹرکچر، نا کافی لیبارٹریز اور کلاس رومز وغیرہ جیسے مسائل تعلیم کے بجٹ اور اس سرمایہ دارانہ ریاست سے وابستہ ہیں۔ اور اس ملک کی ریاست اور حکمران طبقہ تعلیم کو اپنی ترجیحات میں ہی نہیں لاتا، بلکہ اس سے خود کو بری الذمہ کرار دے چکا ہے اور تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنانے کی طرف گامزن ہے۔ ملک اس وقت عملاََ دیوالیہ ہو چکا ہے۔ آئی ایم کی ایماء پر آنے والے عرصے میں عوامی اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کیا جائیگا اور محنت کش عوام پر مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور ناخواندگی کے بم گرائے جائیں گے۔ اس لیے طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کی منتخب کمیٹیاں تشکیل دے کر ملک بھر کے طلبہ کی طرف سے منتخب شدہ طلبہ کمیٹی بنائی جائے اور اس کو مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد سے جوڑ کر ان تمام مسائل سے مستقل نجات کے لیے ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ منافعے پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلست انقلاب کیا جائے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد تعلیم کاروبار نہیں بلکہ ہر شخص کا بنیادی حق ہوگا اور مزدور ریاست کی طرف سے تعلیم مفت مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح لاعلاجی، بے گھری، جہالت، غربت اور بے روزگاری کا بھی مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
ایک کا دکھ۔۔۔ سب کا دکھ!
سوشلسٹ انقلاب۔۔۔ زندہ باد!