|رپورٹ: ہمراز سروانی|
گزشتہ روز 4 اکتوبر 2017ء بروز بدھ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی قائدین سٹوڈنٹ فیڈریشن نے جامعہ میں مکمل ہڑتال کی کال دی جس کے تحت تمام روز یونیورسٹی کی تمام سرگرمیوں کو بند رکھا گیا اور کونسلز کے ممبران کے مطابق آج بھی یہ ہڑتال جاری رہے گی۔ یہ ہڑتال کافی عرصے سے جاری طلبہ کے حقوق کی جانب انتظامیہ کی عدم توجہی کا پیش خیمہ ہے۔ طلبہ کے بنیادی مسائل میں فیسوں میں مسلسل اضافہ ، غیر معیاری اور طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں انتہائی محدود ہاسٹل، ضرورت سے کم بسوں کی تعداد وغیرہ شامل ہیں۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی عمومی طور پر متوسط طبقے کے پڑھنے کی جگہ ہے لیکن اس کے باوجود طلبہ سے بھاری بھرکم فیس اینٹھی جاتی ہیں جو کہ 2015ء میں انتظامیہ اور طلبہ کے مابین ہونے والے معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اس سب کے باوجود بھی فیس کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ اکثر کونسل ممبران کا کہنا ہے کہ پہلے جب کوئی طالب علم اپنے تعلیمی اخراجات ادا نہیں کر پاتا تھا تو وہ ذاتی حیثیت میں مہم چلا کر اساتذہ اور طلبہ سے چندہ مانگ کر اس کیلئے فیس کا انتظام کر لیا کرتے تھے لیکن اب فیسوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ کوئی بھی مہم ناکافی ہے۔ سال میں دو دفعہ داخلے کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں پورے پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کرتی ہے جن کیلئے اسلام آباد بالکل اجنبی شہر ہوتا ہے لیکن ہاسٹل کی عدم دستیابی کی وجہ سے پہلے ہی سمسٹر میں طلبہ و طالبات کو کیمپس سے باہر شہر میں رہائش تلاش کرنی پڑتی ہے جو کہ اخراجاتی اور حفاظتی اعتبار سے بالکل بھی موزوں نہیں۔ اس کے علاوہ اور بے شمار مسائل ہیں جن کے خلاف طلبہ گاہے بگاہے آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
رئیس الجامعہ کی آمرانہ پالیسیوں کا طلبہ کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں اور علاوہ ازیں موصوف پر بے ضابطگی کے الزامات بھی ہیں۔ جیسا کہ 2015ء میں سینڈیکیٹ ممبران اور یونیورسٹی کے بیشتر سینیئر اساتذہ کی مخالفت کے باوجود سٹودنٹ انڈوومنٹ فنڈ کا 16 کروڑ روپیہ دبئی اسلامک بینک میں انوسٹ کر دیا گیا۔ بنکوں کی عالمی درجہ بندی کی ایجنسی موڈیز کے مطابق دبئی اسلامک بینک ایک تیسرے درجے کا بینک ہے جس کی شرح منافع کم اور متزلزل ہے۔ ایسے بینک میں طلبہ کے حصے کا پیسہ تمام تر مخالفت کے باوجود کیوں انویسٹ کر دیا گیا اس سوال کا جواب صرف ریئس الجامعہ یا ان کے قریبی رفیق ہی دے سکتے ہیں۔ بہر حال بینک سے ملنے والا منافع ضرورتمند طلبہ کیلئے وظیفوں میں ہی کھپایا جانا تھا لیکن اس بات پر آج تک سوالیہ نشان ہے کہ بینک سے کب کیسے اور کتنا منافع ملتا رہا۔ اس کہانی کو ملک کے کئی مستند اخبار تفصیل میں رپورٹ کر چکے ہیں۔ طلبہ کے حقوق کیلئے سرگرداں ڈھانچے بھی اکثر اوقات ان مسائل کا چرچا کرتے رہے ہیں لیکن انتظامیہ نے حتی الامکان حد تک اپنے کان اور آنکھیں بند رکھیں۔ موجودہ ہڑتال کل سے جاری ہے اور سٹودنٹ کونسلز کے مطابق اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان کے مطالبات مانے نہیں جاتے۔ کل سارا دن جاری رہنے والی ہڑتال کے باوجود انتظامیہ کا کوئی بھی نمائندہ طلبہ سے مذاکرات کیلئے نمودار نہیں ہوا جس کے نتیجے میں آج بھی جامعہ کو بند رکھا جائے گا۔ اس ضمن میں QSF نے 13 نکاتی مطالبات کی فہرست بنا رکھی ہے جو کہ درجہ ذیل ہے:
1۔ 2015ء میں انتظامیہ اور طلبہ کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق فیس سٹرکچر پر نظر ثانی کی جائے اور اسے گزشتہ شکل میں بحال کیا جائے۔
2۔ طلبہ اور شعبہ جات کی بڑتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہاسٹلوں اور بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
3۔ یونیورسٹی سے نکالے گئے تمام طلبہ کو بحال کیا جائے۔
4۔ طالبات کے ہاسٹلوں کے مسائل کو حل کیا جائے جن میں کلیئرینس کے دوران رہائش، نہایت مختصر نوٹس پر کمرے خالی کرنے کا حکم اور غیر معیاری سہولیات شامل ہیں۔
5۔ بھاری اور غیر قانونی جرمانوں کی واپسی اور معافی۔
6۔ آر او کے خلاف فوری انکوائری جس کی غفلت نے طلبہ میں بد امنی کو ہوا دی۔
7۔ تمام شعبہ جات میں سمر سمسٹر کا اجرا کر کے امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔
8۔ جمنیزیم اور میڈیکل سینٹر کا معیار 17-2016 کے مختص کردہ فنڈز کے مطابق نہیں جو بالترتیب 20 ملین اور 22 ملین روپے ہیں۔ اس معاملے کی جانچ پڑتال کی جائے اور ان سہولیات میں بہتری لائی جائے۔
9۔ یونیورسٹی میں غیر ضروری رکاوٹوں اور ناکہ بندیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
10۔ کلیئرینس کے طریقہ کار کو ڈیجیٹل شکل دی جائے۔
11۔ دیگر سہولیات کو بہتر بنایا جائے جیسے کہ کیفے اور کینٹینوں کی تعداد اور معیار، سایہ دار جگہیں، کیمپس کو ڈیجیٹائز کرنا، رعایتی نرخوں پر کتابیں اور طلبہ دوست انتظامیہ۔
12۔ اگر میرٹ سیٹیں خالی ہوں تو سیلف فنانس والے طلبہ کو خود بخود میرٹ سیٹوں پر منتقل کر دیا جائے۔
13۔ شعبہ فارمیسی کو رجسٹر کیا جائے۔
معاشرے کی ہر دوسری پرت کی طرح طلبہ کے حقوق کی نادہندگی کی وجہ بھی وہی جابر نظام ہے جو تشکیل ہی عوام کی بجائے مٹھی بھر اشرافیہ کیلئے دیا گیا ہے۔ جو بھی اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائے، اس نظام کی تمام قوتیں اپنی تمام تر تب و تاب کے ساتھ اس کے خلاف سرگرم ہو جاتی ہیں۔ طلبہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی سب سے بڑی حق تلفی ان سے یونین سازی کا حق چھین کر کی گئی تھی۔ اگر وہ اپنے مسائل کی صحیح معنوں میں شنوائی کروانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ جامعات اور کالجوں میں طلبہ یونین کی بحالی کی خاطر میدان عمل میں قدم رکھیں۔ ہم ناقابل تصور حد تک بڑی رقم ریاست کو ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں۔ مفت اور معیاری تعلیمی سہولیات ہمارا بنیادی حق ہے۔ اگر یہ نظام ہمیں یہ حق دینے سے انکاری ہے تو ہمیں یہ حق چھیننا ہو گا۔ اس ضمن میں پروگریسیو یوتھ الائنس طلبہ کے ساتھ کھڑا ہے، ان کے مطالبات کی بھرپور حمایت اور جد و جہد کو جاری رکھنے کا عہد کرتا ہے۔
One Comment