|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور|
خواتین کے عالمی دن پر پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور کی جانب سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں یونیورسٹی طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ معراج ہاشمی نے ’’خواتین کی حقیقی نجات، صرف سوشلسٹ انقلاب‘‘ کے موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام میں بالعموم محنت کش طبقے اور بالخصوص عورت کے شدید ترین استحصال کو شرکا کے سامنے بیان کیا اور کہا کہ موجودہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور اب جب تک اس کو اکھاڑ کر پھینکا نہیں جاتا، یہ محنت کشوں کا خون کا خون چوس چوس کر ہی اپنی سانسیں بحال رکھے گا۔ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے عورت کے آزادی کے تمام تصورات مجرد ہیں جو کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے عورت کی آزادی کے تصورات کے سامنے ہیچ معلوم پڑتے ہیں۔درحقیقت حکمران طبقہ اس حساس معاملے پر بھی محنت کش طبقے کو منقسم کر کے کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس لیے ہم عورت کی حقیقی آزادی کے تصور کو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے ذریعے ہی شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں اور یہی وقت کی پکار ہے۔
اس کے بعد یاسر ارشاد نے بات کو مزید آگے بڑھایا اور تاریخ کے اوراق کو کھنگالتے ہوئے عورت کے سماجی کردار اور استحصال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قدیم دور میں نجی ملکیت کی عدم موجودگی کے سبب مرد اور عورت برابر تھے اور عورت کی فضیلت نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے سبب تھی۔مگر نجی ملکیت کے ابھرتے پدرسری سماج کا آغاز ہوا۔ اس دیو ہیکل سماجی تبدیلی کی وجہ سے عورت سے اس کا تاریخی سماجی کردار اور رتبہ چھن گیا اور آج عورت ایک جنس کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ عورت کو سرمایہ دارانہ نظام نے بے شمار حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ ان حقوق کی بازیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سوشلسٹ انقلاب۔یہ ناممکن نہیں کیونکہ انہی خواتین نے تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب ، سوویت انقلاب کا آغاز کیا اور آج یہ پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ممکن ہے۔ لیکن اس کی اولین شرط محنت کش طبقاتی جڑت ہے۔
سیمینار میں شریک طالبات نے بحث کو بڑے غور سے سنا اور عورت کے استحصال کے حوالے سے کئی سوالات سامنے رکھے۔ سیمینار کے اختتام کے بعد بھی مختلف پہلوؤں پر گفتگو جاری رہی۔