|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبہ کی 17 روزہ تاریخی جدوجہد نے پاکستان کی طلبہ تحریک پر معیاری طور پر اثرات ڈالے ہیں اور اس ہڑتال سے پاکستان میں طلبہ تحریک کو ایک نئی شکتی اور حوصلہ ملا ہے۔ اسی ضمن میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبات نے یونیورسٹی کی رجعتی انتظامیہ کے طالبات پر غلیظ قسم کی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کا ٹرانسپورٹ سسٹم مکمل طور پر جام کر دیا اور انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ ایک ایسے سماج میں جہاں خواتین کو طبقاتی جبر کے ساتھ صنفی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ایسے میں طالبات کی یہ لڑائی غیر معمولی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اسلامک انٹرنیشنل کی طالبات نے اپنی جرأت اور بہادری سے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں شروع ہونے والی نئی طلبہ سیاست میں طالبات اپنے طلباء ساتھیوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کی اہل ہیں جس کا اظہار ہڑتال کے دوران ان کی بہادری سے ہو رہا تھا۔
اسلامک یونیورسٹی کی ہڑتالی طالبات کا کہنا تھا کہ مذہب اور سیکیورٹی کو جواز بناتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے طالبات کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ہاسٹل اور یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت نہ صرف سٹوڈنٹ کارڈ بلکہ طالبات کا موبائل فون بھی چیک کیا جاتا ہے۔ ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی سے باہر جانے کی اجازت کا عمل انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے جس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ طالبات کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بھی ہے۔ طالبات کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے دِنوں انتظامیہ کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں میک اپ کرنے کی ممانعت، قمیص کی مخصوص لمبائی کا ہونا، حجاب پہننا اورد یگر لازمی قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلامک انٹرنیشنل کی انتظامیہ نے کچھ عرصہ پہلے بھی اسی طرح کا مضحکہ خیز اور انتہائی تذلیل آمیز نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں ایک میٹرس پر دو طالبات کے سونے پر پابندی لگائی تھی۔ اس طرح کے اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ ریاست اور اس کے ادارے کس حد تک رجعتی ہیں اور ابھرتی طلبہ تحریک کا رستہ روکنے کے لیے یہ سماج پر اوپر سے رجعت اور مذہبیت مسلط کرنے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔ مشال خان کا ریاستی پشت پناہی میں قتل اس کی واضح مثال ہے جب ریاستی اداروں نے اپنی گماشتہ طلبہ تنظیموں کی مدد سے توہین رسالت و مذہب جیسے حساس مسئلے کو استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا چاہی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح پچھلے عرصے میں بہت سے ایسے اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں جن میں پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے پر حملہ، پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر کا یہ بیان کہ جو طالبات حجاب پہنیں گی ان کو پانچ نمبر زیادہ دئیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ بڑھتے ہوئے معاشی و سیاسی بحران کے زیر اثر عمومی سماجی شعور میں تیز ترین تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور محنت کش ہوں یا نوجوان، حکمران طبقے کی مسلط کردہ تمام تر تفریقوں اور تعصبات کو رد کرتے ہوئے اپنے بنیادی اور حقیقی مسائل کے لئے لڑنا چاہتے ہیں اور یہی بات حکمران طبقے اور ریاستی اداروں کے خوف کا باعث ہے۔
حکمران طبقہ بلند سماجی شعور کو مذہب، لسانیت، جنسی تفریق اور دیگر تعصبات کی بنا پر کند کرنا چاہتا ہے۔ آج تعلیمی اداروں میں فی میل سٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور آنے والے دنوں میں ابھرتی طلبہ تحریک میں یہ طالبات بھی کلیدی کردار ادا کریں گی۔ طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جہاں ایک طرف ریاست اور حکمران طبقہ لسانی بنیادوں پر طلبہ تحریک کو بکھیرنا چاہتا ہت تو وہیں جنسی بنیادوں پر بھی تفریق پیدا کرتے ہوئے طلبہ اتحاد کو توڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس طبقاتی نظام کی پیدا کردہ جنسی تفریق کا مقابلہ کرنے کے لیے اس لڑائی کو محنت کشوں او ر طلبہ کی عمومی لڑائی کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان کا مقصد طلبہ میں خوف و ہراس کی نفسیات پیدا کرنا ہے اور سیکیورٹی اور مذہب کی آڑ میں ان پابندیوں کا مقصد طلبہ کی اپنے بنیادی حقوق کے لیے تحریک کو دبانا ہے تاکہ حکمران طبقے کی تعلیم کے نام پر لوٹ مار جاری رہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ان تمام رجعتی اقدامات کی نا صرف مذمت کرتا ہے بلکہ ان تمام اقدامات کے خلاف اسلامک انٹرنیشنل کی طالبات کے ساتھ عملی طور پر اس لڑائی میں شریک ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس مطالبہ کرتا ہے کہ ہر قسم کی جنسی تفریق کا خاتمہ کیا جائے، مخلوط اور یکساں نظام رائج کیا جائے اور تعلیم کا کاروبار بند کر کے مفت تعلیم فراہم کی جائے۔