|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پنجاب یونیورسٹی، لاہور|
گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں چند لڑکوں کا ایک گروہ طالبہ کے تعاقب میں ڈیپارٹمنٹ کے اندر گھس آیا اور مبینہ طور پرطالبہ کو ہراساں کرنا شروع کیا۔ اسی دوران جب انس نامی کلرک نے مداخلت کی اور انہیں روکنے کی کوشش کی تو ہراساں کرنے والوں میں سے ایک لڑکے نے کلرک پر فائر کیا اور گولی کلرک کا بازو چیرتے ہوئے آر پار ہو گئی۔ زخمی حالت میں کلرک کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
یہ واقعہ پنجاب یونیورسٹی میں تعینات سیکیورٹی کی بھاری نفری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ اور ملازمین کسی طور بھی محفوط نہیں ہیں۔ کسی بھی وقت کوئی بھی غنڈہ بے خطر دندناتا ہو ا کیمپس میں داخل ہو کر کسی کی بھی جان سے کھیل سکتا ہے۔
چند سال قبل ’نامعلوم افراد‘ نے رات گئے ہاسٹل میں گھس کر ایک درزی کو قتل کر دیا تھا، اس کے باوجود بھی انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی طرف سے طلبہ اور ملازمین کی سیکیورٹی کی خاطر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھائے گئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یونیورسٹی میں جگہ جگہ پرٹہلتے ہوئے سبز وردیوں میں ملبوس سیکیورٹی گارڈز کی بھاری نفری کس کام کے لیے تعینات کی گئی ہے؟ طلبہ کی فیسوں پر پلنے والی اور یونیورسٹی کے بجٹ پر بوجھ اس بھاری نفری نے آج تک کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟
باہر سے آ کر یونیورسٹی کا امن برباد کرنے کا المیہ تو ہے ہی مگر اس کے علاوہ یونیورسٹی میں آئے روز طلبہ دشمن تنظیم جمعیت اسلامی (جو کہ حقیقت میں پاکستان کے حکمرانوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی اپنی پالی ہوئی تنظیم ہی ہے) کی بدمعاشی سے یونیورسٹی کے ماحول میں ہر وقت خوف و ہراس کی کیفیت رہتی ہے۔ وہ کسی بھی کلاس اور کینٹین پر جا کر طلبہ کو ہراساں کر کے ان کے ساتھ مار پیٹ کرتے اور اپنی طلبہ دشمنی کو بے نقاب کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح اس تنظیم کو مختلف لسانی اور علاقائی کونسلوں سے بھی لڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جمعیت اور علاقائی و لسانی بنیاد پر قائم کونسلوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہی ملتی ہیں۔ یہاں ایک اور بات واضح ہونی چاہیے کہ علاقائی و لسانی بنیادوں پر بنی ہوئی کونسلوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی انہیں مسائل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں جن مسائل کا سامنا عام طلبہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن حکمران طبقہ اور یونیورسٹی اانتظامیہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت جان بوجھ کر کونسلوں کو تشکیل دیتی ہے تاکہ طلبہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے رہیں اور آپس میں الجھتے رہیں کیونکہ جب طلبہ تمام قسم کے تفرقات کو ختم کر کے ایک ہو جائیں گے اور اپنے مسائل کے خاتمے کے لیے حکمرانوں اور یونیورسٹی انتظامیہ پہ ہلہ بولیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت طلبہ کو ان کے مسائل حل کرنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے سے نہیں روک سکے گی۔ یہی بات ہے جس سے حکمران اور یونیورسٹی انتظامیہ ڈرتے ہیں اور وہ کسی صورت ایسا نہیں ہونے دینا چاہتے۔
دوستو! اس وقت طلبہ میں ہراسمنٹ، بڑھتی ہوئی فیسوں، ہاسٹلز کی کمی، یونیورسٹی میں لڑائی جھگڑوں، ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی کمی، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے۔ یہ غصہ کسی بھی وقت ایک شاندار احتجاجی تحریک کی شکل میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ جس سے طلبہ اور تعلیم دشمن حکمرانوں، ریاستی اداروں اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو شدید خوف لاحق ہے۔
طلبہ منظم ہو کر درپیش تمام مسائل کے خلاف احتجاج نہ کر دیں اسی وجہ سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس کو قائم رکھنا ایک ریاستی پالیسی ہے۔ اسی غرض سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں جمعیت جیسی رجعتی تنظیموں اور لسانی و علاقائی تنظیموں کو پروان چڑھایا جار ہا ہے۔
یونیورسٹی میں طلبہ کے کسی اکٹھ یا سٹڈی سرکل پر یہ سیکیورٹی گارڈز چڑھ دوڑتے ہیں یا پھر یونیورسٹی انتظامیہ کی ایماء پر جمعیت جیسے غنڈہ گرد جتھوں کے ذریعے طلبہ پر حملہ کیا جاتا ہے اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو علاقے کی پولیس اور ایجنسیاں بڑے بڑے ڈالوں میں سوار ہو کر دندناتے ہوئے ہاسٹلوں سے طلبہ کو اغوا کر لیتی ہیں۔ اس لیے انتظامیہ اور ریاستی اداروں سے کسی قسم کے تحفظ اور ہراسمنٹ کی روک تھام کی توقع کرنا ایک بیوقوفی ہی ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس اس واقعہ کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو فوری طور پر ہر کلاس سے جمہوری طور پر منتخب شدہ نمائندے منتخب کر کے ہر ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی اور اسی طرح یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی پورے پاکستان میں منتخب شدہ مرکزی کمیٹی بنانی ہو گی جس میں طلبہ خود نمائندہ ہوں گے۔ ان تمام کمیٹیوں کے تحت ہی ہراسمنٹ اور سیکیورٹی سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے منظم ہو کر تحریک چلائی جا سکتی ہے۔
یہ مسائل چونکہ صرف پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کو ہی در پیش نہیں بلکہ لاہور کے تمام تعلیمی اداروں سمیت ملک بھر میں شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا لاہور اور پھر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اسی طرز پر منظم ہونے کی ضرورت ہے۔
طلبہ کے پاس واحد یہی راستہ ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت یہ جڑت قائم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں موجود تمام مسائل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں اور ملک کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی ایک بھی طالبعلم سے ہونے والے ہراسمنٹ کے واقعے یا پھر کسی اور ناانصافی کے لیے ملک بھر کے طلبہ میں احتجاجی تحریک اور یکجہتی قائم کی جائے۔ ان کمیٹیوں کے توسط سے محنت کشوں اور کسانوں سے اتحاد بناتے ہوئے ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
جینا ہے تو لڑنا ہو گا!
سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے!