|تحریر: ماہ نور باجوہ|
لاک ڈاون کے باعث عمومی طور پر جرائم میں جہاں بہت اضافہ ہوا ہے وہیں دوسری طرف خواتین پر جبر میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جس میں گھریلو کام کاج میں اضافہ، گھریلو تشدد نیز بیروزگاری، لاعلاجی اور اس جیسے دیگر کئی مسائل نے بھی شدت پکڑی ہے۔ ایسے میں فیسوں کی وصولی کا معاملہ اس ستم کو روا رکھنے اور اس میں اضافے کا سبب بن رہا ہے کہ بڑھتی بیروزگاری و بیکاری سے لاکھوں افراد کی جیبیں اب فیسوں کا بوجھ اُٹھا نہیں سکتیں۔ لہٰذا ہوا کچھ یوں کہ لوگوں نے اپنے بچوں اور خاص کر بچیوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کے ارادوں کو ہی ترک کر دیااور اسے چھوڑ دینا ہی بہتر سمجھا۔
یہاں ہمیں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ آپ سب اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تعلیم کا حصول تو ہر بچے پر فرض ہے، یہاں تک کہ 1973کے آئین میں بھی یہ درج ہے کہ ریاست ان بچوں کو تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی پابند ہے۔ تو یہاں میں پوچھنا چاہوں گی کہ کہاں ہیں وہ سہولیات؟ کہاں وہ مواقع؟
ساتھ ساتھ میں یہ بتاتی چلوں کہ ہم جس نظام میں رہتے ہیں وہ بنیادی طور پر طبقاتی نظام ہے جسے آج سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ موجودہ کرونا وبا نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک طبقاتی نظام ہے جو حکمران طبقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے انسانوں کو مسلسل ظلم و جبر کی چکی میں پیس رہا ہے۔ اسکی ایک مثال ہمیں انڈیا میں نظر آئی جہاں حالیہ دنوں میں ایک بچی نے آن لائن تعلیم کیلئے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خود کو آگ لگا دی کہ وہ برداشت نہ کر سکی اور خود کشی کر کے اپنی ہی جان گنوا دی۔ یہاں یہ خود کشی نہیں بلکہ اس معصوم کا قتل ہے اور یہ قتل کسی اور نے نہیں بلکہ وہاں کی سرمایہ دارانہ ریاست نے کیا جو اپنی جیبیں بھر کر غفلت کی نیند سو رہی ہے۔
آن لائن کلاسز اس وقت ایک بہت سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ بھوک سے مجبور بیروزگار خاندان کسی صورت یہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، جبکہ ریاست صرف فیسیں بٹورنے کیلئے سینکڑوں طلبہ کو مستقبل کے خوف اور نفسیاتی دباؤ میں دھکیل رہی ہے جو ممکنہ طور پر کئی ایک خودکشیوں کا سبب بن سکتی ہے۔
ہمارے سماج کے پدرسرانہ تعلقات طالبات پہ اس دباؤ کو اور بھی شدید کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ عورت کو یہ مقام دیا گیا ہے کہ اس کے ذمے صرف کھانا پکانا، بچوں کی پرورش اور گھر کے دیگر کام ہیں تو ایسے معاشرے میں عورت کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور وہ اس سوچ کے تحت کہ کل کو بھی جب انہوں نے گھریلو کام ہی سرانجام دینے ہیں تو پھر تعلیم کی ضرورت کیوں اور چونکہ لوگ اتنے اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے تو لاک ڈاون جیسے حالات میں وہ لڑکیوں کو سکول، کالج اور یونیورسٹیوں وغیرہ سے جبراً فارغ کروا دیتے ہیں اور ان کے حصول تعلیم پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں۔
اب یہاں میرا ایک سوال ہے کہ یہ سب صرف عورتوں پر ہی کیوں؟ آخر وجہ کیا ہے اسکی؟ وہ اس لیے کہ اس پدرشاہی نظام میں صرف مردوں کی ہی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے اور ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ کل کو انہوں نے پورا گھر چلانا ہے، عورت کا کیا ہے؟ اس نے تعلیم کے بعد شادی کر کہ بچے ہی پیدا کرنے ہیں۔
تعلیم کا حصول معاشرے کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ایسا ہے کہ چونکہ مرد تعلیم حاصل کر کے پورا گھر چلاتا ہے لہٰذا مرد کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ عورت کی تعلیم کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے کون سے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ان مسائل کو حل کیا جائے؟ تو سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا جائے جس کی وجہ سے آج پدر سری سماج موجود ہے۔ جب تک یہ نظام ختم نہیں ہوتا تب تک نہ عورت حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتی ہے اور نہ ہی مرد۔
اب ضرورت یہ ہے کہ تمام محنت کش (خواتین اور مرد) یک جان ہوں اور اس سماج کو جڑ سے تبدیل کریں۔ تمام محنت کش، نوجوان طلبہ اور خواتین مشترکہ طور پر جدوجہد کریں اور ان ذرائع پیداوار پہ چند افراد کی ملکیت کا خاتمہ کریں تاکہ لالچ اور ہوس سے بھرے جبر کے رشتے ختم ہوں اور ایک حقیقی انسانی سماج پروان چڑھے۔