واقعہ ٹوبہ ٹیک سنگھ: اس بربریت کا بدلہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے!

|تحریر: سلمیٰ ناظر|

سوشل میڈیا پر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والے انتہائی خوفناک اور وحشت ناک واقعہ کی ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک بھائی اپنی بہن کا گلا دبا کر اس کا قتل کر رہا تھا اور اس کا باپ، بھائی اور ماں ظلم کا یہ پہاڑ ٹوٹتے ہوئے چپ چاپ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ یہ واقعہ دراصل 17 اور 18 مارچ کی درمیانی شب پیش آیا جب 22 سالہ ماریہ نامی لڑکی کو اس کے بھائی نے گلا دبا کر قتل کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق ماریہ کا چھوٹا بھائی اور باپ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کیا کرتے تھے۔ مگر جب ماریہ اپنے ساتھ مسلسل ہونے والے اس گھناؤنے عمل سے تنگ آ گئی اور اس نے اپنی بھابھی کو اس بارے میں بتایا تو ماریہ کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا گیا۔
پاکستان میں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور یہ واقعہ پورے سرمایہ دارانہ سماج کی غلیظ اور تعفن زدہ حقیقت کا اظہار ہے، بلکہ ایسے واقعات پاکستان میں ایک معمول بن چکے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام نے خواتین کے بدترین حالات کی نسبت سے پاکستان کو دنیا کے 75 ممالک میں سر فہرست رکھا ہے۔ 2022 ء میں ہونے والے ایک سروے کے نتیجے میں یہ سامنے آیا تھا کہ پاکستان میں ہر دو گھنٹوں میں ایک خاتون ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ اگر ہم پچھلے چند سالوں میں پاکستان کے اندر خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کا جائزہ لیں تو دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مختلف رپورٹوں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017ء میں زیادتی کے 3327 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، 2018ء میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد بڑھ کر 4456 کی تعداد تک پہنچ گئی، 2019ء میں 4573 تک، 2020ء میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 4478 تک گری اور اگلے ہی سال یعنی 2021ء میں ان کیسز کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر 5169 تک تجاوز کر گئی۔ یہ مختصر سی ایک رپورٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان خواتین کے لیے ہراسمنٹ، تشدد، زیادتی و قتل اور ذلت و رسوائی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ لیکن یہاں ہمیں ایک اور بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اوپر بیان کردہ اعداد و شمار میں زیادتی کے صرف وہ کیسز شامل ہیں جو رپورٹ ہوئے جبکہ حقیقت میں ان کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماریہ کا کیس بھی کسی تھانے یا نیوز چینل اور اخبار کے ذریعے سامنے نہیں آیا بلکہ اطلاعات کے مطابق اس کے گھر والوں نے جب اس کا قتل کیا اسی دن اسے دفنا دیا تھا اور سب اہل علاقہ نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔ لیکن ماریہ کا قتل اس تعفن زدہ سرمایہ دارانہ نظام، حکمران طبقے، یہاں انصاف کی رکھوالی کرنے والے اداروں، انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں کے منہ پہ زور دار طمانچہ ہے اور یہ ایک واقعہ ان لوگوں کے آگے سوال کھڑے کر رہا ہے جو چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ آج خواتین کے لیے سب سے زیادہ محفوظ مقام گھر کی چار دیواری ہے جہاں وہ کسی بھی قسم کی ہراسمنٹ، تشدد اور ظلم و زیادتی سے بچ سکتی ہیں۔ لیکن گھر کی ”محفوظ“ چار دیواری سمیت گلی، کوچوں، تعلیمی اداروں، مدرسوں اور کام کی جگہوں پر رونما ہونے والے یہ ہیبت ناک واقعات اس بات کی گواہی ہیں کہ آج خواتین اور بچیاں کہیں بھی کسی وحشی کی ہوس کا نشانہ بن سکتی ہیں۔
آج یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ بچیوں اور خواتین کو اپنے بھائی اور باپ کے علاوہ کسی پہ یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خون کا رشتہ سب سے قریبی رشتہ ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے جو انسان کے خونی رشتوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور اس زوال کا سب سے زیادہ شکار خواتین اور بچیاں ہو رہی ہیں۔ ایک طرف حکمران طبقہ ہے جس کی عیاشیوں اور مال و دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف محنت کش طبقہ ہے جو بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور بدحالی سے دوچار ہے اور جب سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پنپتے ہوئے گھٹن زدہ معاشرے میں مرد، جو پدرشاہی کی وجہ سے سماجی طاقت رکھتا ہے، خواتین اور بچیوں پہ جبر، تشدد، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ذریعے اپنی سماجی اور معاشی بدحالی کا کتھارسس کرتا ہے تو ایسے میں ایک ذہنی طور پر پسماندہ اور زوال پذیر مرد کے لیے گھر میں بیٹھی خاتون، چاہے وہ اس کی بیٹی، بیوی، ماں یا بہن ہو، اس کے لیے آسان شکار ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کے زوال سے ہی رشتوں اور اخلاقیات کا زوال بھی جنم لیتا ہے۔
اس انسانیت سوز واقعہ کو ’دین سے دوری کا نتیجہ‘ قرار دینے والے اور دین کو بیچ کر کھانے والے انسان کی شکل میں جانور خود انتہائی غلیظ کردار کے حامل ہیں۔ یہ مسجدوں اور منبروں میں بیٹھے بھیڑیے، عوام کو اچھائی اور برائی کا سبق دینے کا ڈھونگ رچانے والے وحشی درندے سماج میں عورت کے استحصال اور ظلم و زیادتی کی ہر شکل کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے جواز بخشتے ہیں۔ دین سے دوری کا رونا رونے والے یہ وحشی اپنے ہی گھر کی عورتوں اور بچیوں کو، سکولوں، مسجدوں، مدرسوں اور گھروں میں جا کر اپنی ہوس اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، ایک طرف یہ سچے اور پارسا ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ ریپ اور جنسی جرائم کرتے ہیں۔ ان درندوں کو پالنے میں یہاں کے حکمرانوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے تاکہ عورت کی اس کے ساتھ ہونے والے جبر سے آزادی کا سوال ہی جنم نہ لے سکے اور ان کی آڑ میں محنت کش طبقے کے حقیقی دشمن کو چھپایا جا سکے، حکمران طبقہ یونہی اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکے اور محنت کش خواتین کبھی بھی غلامی سے آزادی حاصل نہ کر سکیں۔
یہاں کا قانون، عدالتیں، تمام ریاستی ادارے سرمایہ دار طبقے کی حفاظت کے لیے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ جہاں ماریہ جیسی خواتین مرنے کے بعد بھی انصاف حاصل نہیں کر پاتیں اور تشدد و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین ان پولیس اور عدالتوں کا رخ کرنے سے ڈرتی ہیں جہاں جنسی درندوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے کردار پہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور انہیں ہی قصور وار اور مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی خواتین بھی اپنی ملازم خواتین پر تشدد اور جبر کرتی ہیں اور بہت سے ایسے واقعات رپورٹ بھی ہو چکے ہیں لیکن قانون صرف حکمران طبقے کو ہی تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہی اس کا کام بھی ہے۔ محنت کش طبقے کی خواتین اور بچیاں ہی اکثر ان خوفناک واقعات کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین کو غیرت کے نام پہ قتل کر دیا جاتا ہے اور مرد اگر ریپ یا قتل بھی کر دے تو اسے اس کی مردانگی کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور اسے قانونی اور سماجی طریقوں سے بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک تو معاشی طور پر مضبوط ہوتا ہے اور دوسرا اس کی عزت اور غیرت، جو کہ حقیقت میں بے غیرتی ہی ہوتی ہے، پر کوئی آنچ نہ آ سکے کیونکہ اس سے پورے سماج کی ”غیرت“ کو ٹھیس پہنچے گی۔ بھائی کی جانب سے بہن کے ریپ یا تشدد کے بعض واقعات میں والدین کی جانب سے بچیوں کو خاموشی اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ گھر کی ”عزت“ پہ کوئی بات نہ آئے جبکہ کسی لڑکی کے اپنی پسند کی شادی کر لینے پہ، یہ کہہ کر کہ خاندان کی ”عزت“ کا سوال ہے، اس کا قتل کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس سماجی پراگندگی اور عزت کے نام پر رچائے جانے والے ڈرامے کا کھلا تضاد ہے۔
ماریہ کے قتل کے واقعے کے بعد فیمنسٹ خواتین و حضرات ایک بار پھر عورت پہ ہونے والے تمام جبر کا واحد قصور وار مرد کو ٹھہرا رہے ہیں اور اب بھی یہی مؤقف اپنایا جا رہا ہے کہ اگر پدرسرانہ سماج کا خاتمہ کر دیا جائے تو خواتین پر جبر کا خاتمہ ہو جائے گا یا وہ اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔ لیکن خواتین کے سوال کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے طبقاتی بنیادوں پر اس کا جائزہ لینا ہو گا۔ وہ طبقاتی بنیادیں جو نجی ملکیت کو جنم دیتی ہیں جس کے نتیجے میں پدرسرانہ سماج جنم لیتا ہے۔ موجودہ پدرسرانہ سرمایہ داری کے نظام میں عورت کو نجی ملکیت سمجھا جاتا ہے اور مرد کو اس کا حاکم قرار دیا جاتا ہے۔ ماریہ کے قتل کی ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی ماں بھی اس کے قتل کے وقت وہاں موجود تھی مگر وہ اپنی بیٹی کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہی تھی یا اس کی بھابھی جسے اس نے اپنے ساتھ ہونے والے گھٹیا عمل کے بارے میں بتایا، وہ بھی اس کو بچانے کی کوشش نہیں کرتی۔ کیونکہ پدرسرانہ سماج میں خواتین بھی مرد کی حاکمیت کو ایک آفاقی سچائی مان کر قبول کر لیتی ہیں اور سماجی رسوم و رواج اور حکمران طبقہ اس سوچ کو مزید تقویت دیتا ہے۔
عورت کی حقیقی آزادی کے لیے ہمیں اسے مظلوم و محکوم رکھنے والے تمام عناصر اور ان کی بنیادی وجوہات کا گہرائی میں جائزہ لینا ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے پدرسری کا خاتمہ کسی دیوانے کے خواب جیسا ہے۔ کیونکہ پدرسری کی بنیادیں ہی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ انسان کی سماجی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سرمایہ داری نے صدیوں سے جاری طبقاتی تفریق (امیر اور غریب کا نظام) کے جابرانہ نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور پدری سری کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تحفظ دیا۔ خواتین پر مرد کی حاکمیت کو مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری نے خواتین اور بچوں کی سستی محنت کے استحصال کے عمل کا بھی آغاز کیا اور انہیں صنعتوں میں خام مال کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اس طرح عورت دوہرے جبر کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ایک طرف وہ سماج میں مرد کے جبر کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب سرمایہ دار اس کی محنت کا بدترین استحصال کرتا ہے اور اس کی مظلوم و مجبور سماجی حیثیت کے باعث اس سے انتہائی کم اجرت میں کام لیتا ہے اور زیادہ بڑے منافع نچوڑتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک میں آج بھی عورت شدید جبر کا شکار ہے اور وہاں پر عورتوں کے حقوق کے لیے بہت بڑی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں۔ امریکہ جیسی جدید سرمایہ دارانہ ریاست میں بھی حالیہ سالوں میں اسقاط حمل پر پابندی لگائی گئی ہے جس سے عورتوں سے ان کا ایک بنیادی حق چھین لیا گیا ہے۔ اسی لیے سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں عورت کی نجات ممکن ہی نہیں اور نہ ہی اس سماج کا حاکم سرمایہ دار طبقہ کسی بھی قیمت پر اس سستی محنت کو اپنے شکنجے سے آزاد ہونے دے گا۔ عورت کو اپنی حقیقی آزادی کے لیے اس نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی جس میں مرد محنت کش اس کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کریں گے۔ آج عورت کی آزادی کا اس کے علاوہ دوسرا کوئی اور طریقہ، سوچ یا نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر کوئی وجود رکھتا ہو گا تو وہ گمراہ کن ہو گا۔
ماریہ کے باپ، بھائی یا اس کے خاندان سے پہلے پاکستان کا حکمران طبقہ اور سرمایہ دارانہ نظام اس کے قاتل ہیں۔ اس لیے ماریہ کے قتل کا بدلہ صرف اس کے درندہ صفت لواحقین کو پھانسی پہ چڑھانے سے کبھی پورا نہیں ہو گا بلکہ اس کے بعد نہ جانے کتنی خواتین یا بچیاں ماریہ بنتی رہیں گی۔ ماریہ کے قتل کا بدلہ اس پورے درندہ صفت نظام اور دوغلے سماج کو اس کی متعفن زدہ اخلاقیات سمیت نیست و نابود کرنا ہو گا۔ اس ملک کے تمام حکمران ماریہ کے قاتل ہیں جو اس سماج کی گھٹیا، جعلی اور دوغلی اخلاقیات کا پرچار کرتے اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں جس کے لیے انہیں بھی پھانسی پہ چڑھا دینا چاہیے۔ اس بوسیدہ سماجی ڈھانچے میں عورت کو جانور سے بھی بدتر زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیا گیا ہے۔ سماج کی اس وحشت کا خاتمہ نجی ملکیت پر قائم اس غلیظ پدر سری کی سرپرستی کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب سے ختم کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ماریہ کے قتل کا بدلہ لینے کا یہ ہی بہترین طریقہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.