نمکین سیاسی غزل۔۔۔بالشویک تحریک کے صد سالہ موقع کی مناسبت سے

(بالشویک تحریک کے صد سالہ موقع کی مناسبت سے 
عالمی سرمایہ دارانہ روبہ زوال صورتحال پر شعری تبصرہ)

یہاں پھنس رہے ہیں وہاں پھنس رہے ہیں
جہاں بھر کے شاہِ جہاں پھنس رہے ہیں

وہ گائے مقدس کی روحِ مقدس
وہ مہ رُو وہ شہزادگاں پھنس رہے ہیں

وہاں پر کسی شے پہ قدغن نہیں ہے 
کُھلی جیل میں جانِ جاں پھنس رہے ہیں 

کوئی جِن پہ اُنگلی اُٹھاتا نہیں تھا
بھری بزم میں ہاں جی ہاں پھنس رہے ہیں

میاں مّنے کِس کھیت کی تم ہو مُولی
تمہارے تو ابّا مِیاں پھنس رہے ہیں 

تضاداتِ سرمایہ داری تو دیکھو
کہ سرمایہ دارِ جہاں پھنس رہے ہیں 

بہت دُور تک جا چُکا جھاڑیوں میں 
شکاری کے تیر و کماں پھنس رہے ہیں

بہت بے کسوں کو نچوڑا ہوا ہے 
مگر اب تو دھوبی میاں پھنس رہے رہیں

جنہیں ناز آئین و دستور پر تھا 
وہ خود کر کے تبدیلیاں پھنس رہے ہیں 

مجھے کیوں نکالا اُسے کیوں نہ ڈالا
وہ کر کر کے آہ و فغاں پھنس رہے ہیں

ابھی کل تلک تو یہی ہوتا آیا
نکالے گئے ہیں جہاں پھنس رہے ہیں

بہت بے وفا ہیں یہ پھنسوانے والے
کہ اب اُن کے تقدیس خواں پھنس رہے ہیں 

ہے زمبابوے میں بھی جاری مداری 
وہاں بھی کوئی کالے خاں پھنس رہے ہیں

ہے قبضہ ، تسلّط ، تحکّم کا چکر 
ہمارے لیے وہ کہاں پھنس رہے ہیں 

پٹا پی ٹی اے کا نرالا بنا ہے
کہ جو کھولتے ہیں زباں، پھنس رہے ہیں 
***
عمران ہاشمی
25نومبر 2017ء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.