|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس لاہور|
گذشتہ دوپہر سے لاہور پریس کلب کے سامنے شروع ہونے والا امپیریل کالج کے طلبہ کا دھرنا آج صبح تک جاری رہا۔ گذشتہ روز امپیریل کالج کے طلبہ نے جعلی اور غیر تصدیق شدہ ڈگریاں دئیے جانے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں طلبا و طالبات اس کروڑوں روپوں کے فراڈ کے خلاف سراپااحتجاج تھے۔ طلبہ نے پریس کلب چوک کو ٹریفک کے لئے بند کردیااوریونیورسٹی انتظامیہ،ایچ۔ای۔سی اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔متاثرہ شعبہ جات میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی،ہیلتھ اینڈ الائیڈ سائنسز اور سکول آف آرکیٹیکچر اینڈ ڈیزائن شامل ہیں۔
بوقت داخلہ امپیریل کالج آف بزنس سٹڈیز لاہور کی جانب سے تمام اخبارات میں PEC،HECسے تصدیق شدہ اشتہارات چھاپے گئے اور HEC،PEC کی ویب سائیٹ پر امپیریل کالج آف بزنس سٹڈیز لاہور کا نام تصدیق شدہ اداروں کی فہرست میں درج تھاجس کا کاغذی ثبوت بھی موجود ہے۔ لیکن اب 5 سال بعد HEC،PEC نے ڈگریاں تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے 5000 طلباء کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔جو کہ طلبہ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
یونیورسٹی کی طلباء نے سارا دن پریس کلب چوک کو ٹریفک کے لئے بند رکھا اور شدیدی سردی کے باوجود رات بھی وہیں گزاری۔ کچھ پولیس افسران کی طرف سے طلبہ کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور یقین دہانی کرائی گئی کہ آپ کے مطالبات تین دنوں میں پورے کئے جائیں گے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، اس وقت تک ہڑتال جاری رکھیں گے۔ طلباء نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے اور مطالبات درج تھے۔
یہ مسئلہ صرف امپیریل کالج کے طلبہ کا ہی نہیں بلکہ کئی نجی ادارے کے طلبہ یوں لٹ چکے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں انڈس انسٹیٹیوٹ کے طلبہ کے ساتھ بھی یہی ماجرا پیش آیا مگر احتجاج کے باوجود کوئی شنوائی نہ ہوئی۔مہنگے مہنگے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء اپنا وقت اور پیسہ صرف کرتے ہیں لیکن تعلیم مکمل ہونے پر انہیں ڈگری کے نام پر ایسا کاغذ تھما دیا جاتا ہے جس کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہوتی۔ اس سے قبل BZUلاہور کیمپس کے طلبہ بھی غیر تصدیق شدہ ڈگریوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
ایک طرف جہاں تعلیمی اداروں کی نجکاری جاری ہے تو دوسری طرف پرائیویٹ یونیورسٹیاں تعلیم دینے کے نام پر خوب مال بنا رہی ہیں۔ تعلیم کاکاروبار ہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جب کرنا ہی کاروبار ہے اور منافع بنانا مقصود ہے تو پھر جیسے مرضی بنایا جائے کون سی اخلاقیات، کیسا قانون۔ ریاستی اداروں کو مال کھلاؤ اور ان کی پشت پناہی سے طلبہ کی لوٹ مار شروع کردو۔ جب تک تعلیم کاکاروبار جاری ہے اور نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں تو ایسا بار بار ہوتا رہے گا۔ کبھی اس کالج کے طلبہ کے ساتھ تو کبھی اس یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ۔ اس لڑائی کو مفت تعلیم اور نجکاری مخالف لڑائی کے ساتھ جوڑ کر ہی لڑا جاسکتا ہے۔