|تحریر: ثاقب اسماعیل|
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ خواتین پر ثقافتی جبر نہ صرف تیسری دنیا میں بلکہ ترقی یافتہ سماج میں بھی بظاہر کم دکھنے کے باوجود بہت زیادہ حد تک بڑھ چکا ہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران فرانس میں خواتین پر گھریلو تشدد کے کیسز میں تیس فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح سپین میں لاک ڈاؤن کے دوران پہلے دو ہفتوں میں گھریلو تشدد کے کیسز میں 18 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ برطانیہ میں صنفی بنیادوں پر خواتین کے قتل اور جنسی ہراسمنٹ کے واقعات بڑھ چکے ہیں اور امریکہ سمیت یورپ میں صنفی جبر خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
تیسری دنیا غیرت کے نام پر قتل، جنسی ہراسانی و ریپ، خواتین کی ٹریفکنگ، ونی کی رسم، تیزاب گردی، جبری شادیاں و کم عمری میں شادیوں کے انسانیت سوز واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہ واقعات آئے روز رونما ہو رہے ہیں۔
ریاستی سطح پر بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں اسقاط حمل کا بنیادی انسانی حق چھیننے سے لے کر ایران میں مہسا امینی کا قتل ہو یا افغانستان میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی اور محنت کش خواتین کو مردوں کی نسبت کم اجرتیں ادا کیے جانا، یہ تمام ناانصافیاں اور جرائم نام نہاد جمہوری ریاستی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔
خواتین پر ہونے والے جبر کو جڑ سے سمجھنے کے لیے تاریخ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ خواتین ہمیشہ سے غلامی میں نہیں رہیں بلکہ ایک ایسے سماج کا قیام جس میں عورت کو غلام بنایا گیا یا نچلا درجہ دیا گیا (جسے پدر شاہی بھی کہا جاتا ہے) تاریخ میں ایک خاص وقت پر آ کر ہوا۔ ہزاروں سال قدیم اشتراکی سماج میں رہنے کے بعد جب طبقاتی سماج کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی پدر شاہی کا بھی آغاز ہوا اور عورت غلام بن گئی۔
قدیم اشتراکی دور آج کے جدید انسانی دور سے بالکل مختلف تھا۔ اس میں مرد و عورت کے مابین حیاتیاتی تقسیم کے علاوہ کسی قسم کی تقسیم نہیں تھی۔ کسی قسم کا جبر و استحصال وجود نہیں رکھتا تھا۔ فطرت کا مقابلہ کرنے کے لیے سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے تھے۔ مل بانٹ کر کام انجام دیتے اور کام کی تقسیم بھی اسی اشتراکیت کی بنیاد پر ہی کی جاتی تھی۔ اس سماج میں نسل چونکہ ماں سے پہچانی جاتی تھی اس لیے عورتوں کی بڑی قدر و منزلت ہوتی تھی۔ یوں انسانی تہذیب نے لمبا عرصہ مدرسری سماج کے تحت گزارا۔
فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ میں اس سوال کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھا۔ بشریات کے ماہرین ہینری مارگن اور ٹیلر نے قدیم قبائل کا مطالعہ کر کے، یہاں تک کہ مارگن نے بذات خود اروکوئس انڈین قبائل کے ساتھ وقت گزارا تاکہ قدیم اشتراکی سماج کا نقشہ کھینچا جا سکے۔
اس دور میں زندہ رہنے کی بنیادی شرط ہی یہ تھی کہ فطرت پر عبور حاصل کیا جائے۔ اسی کاوش میں انسان نت نئے اوزار بناتا گیا جس سے سماج کی مجموعی پیداوار بڑھتی گئی اور یوں انسانی تاریخ میں پہلی بار ضرورت سے زائد پیداوار حاصل ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی پھر یہ سوال بھی کھڑا ہوا کہ اس زائد پیداوار پر ملکیت کس کی ہو گی۔ اس طرح طبقاتی سماج (دو طبقوں میں تقسیم سماج، حکمران طبقہ اور محنت کش طبقہ) کا آغاز ہوا۔ طبقاتی سماج میں بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری تک محدود خواتین سماجی پیداواری عمل سے کٹتی گئیں۔ خاندان نے آہستہ آہستہ کثرت زوجگی سے یک زوجگی تک کا سفر طے کیا۔ نجی ملکیت کے جنم کی وجہ سے وراثت کی منتقلی بھی شروع ہو گئی، لہٰذا نسل ماں کی بجائے باپ سے پہچانی جانے لگی۔
خواتین پر ہونے والا جبر مردوں کا کوئی حیاتیاتی مسئلہ نہیں بلکہ طبقاتی نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا ”سماجی حالات انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں۔“ طبقاتی نظام کے آنے سے سماج میں مرد کی حاکمیت قائم نہیں ہوئی بلکہ حکمران طبقے کی حاکمیت قائم ہوئی جس میں غلام صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ مرد بھی تھے۔ انہی مرد غلاموں میں سے ایک سپارٹیکس نامی غلام کا نام آپ نے ضرور سنا ہو گا جس نے آقاؤں کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔
یہ طبقاتی سماج مختلف ادوار میں مختلف اشکال میں موجود رہا۔ آغاز میں یہ غلام داری کی صورت میں موجود تھا، جو پھر جاگیرداری نظام میں تبدیل ہوا اور آج سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں موجود ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی تقسیم سمیت منڈی کی ضرورت کے تحت تمام خواتین گھروں میں قید نہیں رہیں بلکہ اب خواتین کی کافی بڑی تعداد بظاہر آزاد ہے اور کاروبار سے لے کر نوکری تک کر رہی ہے۔ مگر یہ آزادی جھوٹی ہے۔
اکثریتی مرد اور عورتیں محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی مزدور ہیں اور سرمایہ دار طبقے کو اپنی قوت محنت بیچ کر زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ ان کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے اور اس استحصال سے پھر سرمایہ دار مرد و خواتین اپنے منافعے بناتے ہیں اور اپنی دولتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف محنت کش غربت اور جہالت میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں اُلٹا دوہرے جبر کا شکار ہو چکی ہیں۔ ایک طرف وہ نوکری کرتے وقت سرمایہ داروں سے اپنی محنت کا استحصال کرواتی ہیں تو دوسری طرف گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کرتی ہیں۔ اسی طرح سماج میں موجود غلیظ عورت دشمن سوچ کا بھی سامنا کرتی ہیں۔
لہٰذا عورت کی حقیقی آزادی صرف تب ہی ممکن ہے جب ظلم، جبر اور استحصال کی بنیاد ’ذاتی ملکیت‘ کا خاتمہ کیا جائے۔ آج یہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذیعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے ہی ممکن ہے۔ سوشلزم میں اجتماعی سماجی ضروریات کے تحت پیداوار کی جائے گی نہ کہ منافع کمانے کے لیے۔ اسی طرح سوشلزم میں اجتماعی کچن، اجتماعی لانڈریاں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈے کئیر سنٹر قائم کیے جائیں گے اور خواتین گھریلو کام کاج سے آزاد ہوں گی۔ اسی طرح سوشلزم میں خواتین کے متعلق غلیظ پدر شاہی سوچ کا بھی خاتمہ ہو گا۔ سوشلزم میں حقیقی معنوں میں عورت آزاد ہو گی اور بطور انسان سماج میں اپنا تخلیقی و پیداواری کردار ادا کرے گی۔ در حقیقت عورت کی آزادی ہی حقیقی معنوں میں نسل انسانی کی بھی حقیقی آزادی ہو گی۔ مگر عورت کی آزادی کی بنیادی شرط پورے سماج کی آزادی ہے جو ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔