|برتولت بریخت، 23 دسمبر 1956ء|
|مترجم: جاذب سلیم|
مسٹر کے۔ سے اُس کی مالک مکان کی چھوٹی بیٹی نے پوچھا، ”اگر شارک مچھلیاں انسان ہوتیں تو کیا وہ چھوٹی مچھلیوں سے اچھا سلوک کرتیں؟“
”یقیناً“، اس نے کہا۔ اگر شارکیں انسان ہوتیں تو وہ چھوٹی مچھلیوں کے لیے سمندر میں وسیع خانے بناتیں جن میں جانوروں اور سبزیوں پر مبنی ہر قسم کی خوراک موجود ہوتی۔ وہ اس بات کا خیال رکھتیں کہ یہ خانے ہمیشہ تازہ پانی سے بھرے رہیں اور ہر طرح سے، حفظان صحت کے تمام انتظامات دستیاب کرتیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی ننھی مچھلی اپنا پنکھ زخمی کر بیٹھتی تو اس کی فوری طور پر مرہم پٹی کی جاتی، تاکہ وہ کہیں مر نہ جائے اور شارکیں وقت سے پہلے ہی کہیں اس کو نہ کھو دیں۔ سمندر میں وقتاً فوقتاً بڑے بحری تہواروں کا انعقاد کیا جاتا تاکہ ننھی مچلھیاں دکھی نہ ہوں؛ کیونکہ زندہ دل مچھلی ایک افسردہ مچھلی سے زیادہ ذائقے دار ہوتی ہے۔
یقینی طور پر اُن بڑے خانوں میں سکول بھی ہوتے۔ ان سکولوں میں ننھی مچھلیوں کو سکھایا جاتا کہ کس طرح سے شارکوں کے جبڑوں میں تیرنا ہے۔ مثلاً اُنہیں جغرافیہ کا علم دیا جاتا تاکہ وہ ان جگہوں کو جان سکتیں جہاں وہ بے کار میں اونگھتی بڑی شارکوں کو تلاش کر سکتیں۔ ننھی مچھلیوں کی اخلاقی تعلیم ہی سب سے اہم مضمون ہوتا۔ اُنہیں پڑھایا جاتا کہ ایک ننھی مچھلی کا خود کو خوشی خوشی قربان کرنا اس دنیا کا بہترین اور خوبصورت ترین فعل ہے اور یہ کہ اُن سب کو شارکوں پر اعتماد کرنا چاہیے، خصوصاً مؤخرالذکر کی اس بات پر کہ وہ خوبصورت مستقبل کی ضامن ہیں۔ چھوٹی مچھلیوں کو یہ سکھایا جاتا کہ یہ خوبصورت مستقبل صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے اگر وہ فرمانبرداری سیکھ جائیں۔ ننھی مچھلیوں کو تمام گھٹیا، مادیت پسند، خود پسندانہ اور مارکسی رجحانات سے بچ کے رہنا پڑتا اور اگر اُن میں سے کوئی بھی بھٹک کر ان نظریات کو اپناتا تو اس کی خبر فوری طور پر شارکوں کو پہنچانا ضروری ہوتا۔
اگر شارکیں انسان ہوتیں تو یقیناً وہ مزید مچھلی خانوں اور چھوٹی مچھلیوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جنگیں کرتیں۔ یہ جنگیں ان کی اپنی ننھی مچھلیوں کے ذریعے ہی لڑی جاتیں۔ شارکیں اپنی چھوٹی مچھلیوں کو سکھاتیں کہ وہ اور دوسری شارکوں کی ننھی مچھلیاں انتہا درجے کی مختلف ہیں۔ وہ یہ اعلان کرتیں کہ ننھی مچھلیاں اپنے گونگے پن کے لیے تو جانی ہی جاتی ہیں مگر وہ مختلف زبانوں سے بھی ناآشنا ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کی بات بھی نہیں سمجھ سکتیں۔ ہر ننھی مچھلی جو جنگ میں اپنی زبان سے ناآشنا چند دشمن مچھلیوں کو ہلاک کرتی تو اسے سمندری پودوں سے بنا ایک چھوٹا سا تمغہ لگا دیا جاتا اور اس کو ”ہیرو“ کے لقب سے نوازا جاتا۔
اگر شارکیں انسان ہوتیں تو یقیناً اُن کے ہاں آرٹ بھی ہوتا۔ ایسا آرٹ جس میں خوبصورت تصویریں ہوتیں، جن میں شارکوں کے دانتوں کا عمدہ رنگوں سے نقشہ کھینچا جاتا اور اُن کے جبڑے خوش نما باغیچے معلوم ہوتے، جن کے اندر کوئی بھی نہایت مسحورکن انداز میں اُچھل کُود سکتا ہو۔ سمندر کی تہہ میں موجود تھیٹروں میں بہادر چھوٹی مچھلیوں کو شارکوں کے جبڑوں میں جوش کے ساتھ تیرتا دکھایا جاتا اور، موسیقی کو اس خوبصورتی کے ساتھ ترتیب دیا جاتا کہ، خود کو منوانے کی طاقت رکھنے والے، ان خیالات کی لوری سنتے ہوئے ننھی مچھلیاں حالتِ غنودگی میں سیدھی شارکوں کے جبڑوں میں کھنچی چلی آتیں۔
اگر شارکیں انسان ہوتیں تو اُن کا ایک مذہب بھی ضرور ہونا تھا، جو انہیں بتاتا کہ، ”ننھی مچھلیوں کی حقیقی زندگی کی شروعات شارکوں کے معدے میں جانے کے بعد ہی ہو گی“۔
مزید برآں، اگر شارکیں انسان ہوتیں تو ننھی مچھلیاں زیادہ عرصے تک ایک دوسرے کے مساوی نہ ہو پاتیں، جیسا کہ اب ہے۔ بعض کو اہم عہدے دے دیے جاتے اور اُن کا مقام دوسروں سے بلند کر دیا جاتا۔ ان میں جو مچھلیاں تھوڑی بڑی ہوتیں اُنہیں اپنے سے چھوٹی مچھلیوں کو کھا جانے کی اجازت ہوتی۔ اس بات پر تو تمام شارکوں کا اتفاق ہوتا، کیونکہ اس طرح سے ان کو اپنے کھانے کے لیے نسبتاً بڑے نوالے ملتے۔ اور نسبتاً بڑی ننھی مچھلیاں اپنے عہدوں پہ براجمان، اساتذہ، افسر اور مچھلی خانوں کی تعمیر میں انجینئر وغیرہ بن کر ان ننھی مچھلیوں میں نظم و ضبط کو یقینی بناتیں۔
”قصہ مختصر، سمندر تہذیب یافتہ ہونا ہی تب تھا اگر شارکیں انسان ہوتیں۔ “
(مسٹر کیونرؔ کی کہانیوں سے اقتباس)