|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد|
پروگریسو یوتھ الائنس حیدرآباد کی جانب سے ہفتہ وارسٹڈی سرکل کے تسلسل میں 14 فروری کو خانہ بدوش رائٹرز کیفے کے پارک میں ”تاریخی مادیت“ کے عنوان پر سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔جس میں کامریڈ وحید نادان نے عنوان پر تفصیلی بحث کی۔ انھوں نے عظیم فلسفی کارل مارکس کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ”انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں، گوکہ جن حالات میں وہ ایسا کرتے ہیں ان کا انتخاب وہ خود نہیں کرتے“۔ لہٰذا آج تک کے انسانی سماج غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری تمام اپنے بیرونی حالات اور اندرونی تضادات کے سبب عروج و زوال کا شکار رہے نہ کہ یہ کسی مافوق الفطرت شکتی کے اشاروں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ مختصراً انسانی سماج طبقاتی کشمکش کی بدولت ہی آگے کا سفر طے کرتا رہا اور اس کشمکش کے نتیجے میں ہمشیہ ایک نئے نظام نے پرانے سماجی ڈھانچوں سے جنم لیا۔ اسی طرح وہ سماجی رشتے جو انسانی ضروریات کی تکمیل نہ کرپائے تو نئے پیداواری رشتوں نے ان کی جگہ لی۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنے آغاز میں انسانی سماج کا انتہائی ترقی یافتہ عہد تھا۔ چونکہ اب سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر مکمل کرچکا ہے جس کے پیش نظر یہ آبادی کی اکثریت کو کچھ بھی مہیا نہیں کرپا رہا اور مصنوعی طریقوں سے اسکی عمر بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہٰذاانسانیت کی بقاء کیلئے آگے کا قدم صرف سوشلزم ہی ہے۔ یہی تاریخی مادیت کا خاصہ ہے۔
بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کامریڈ سرمد سیال نے کہا کہ آج تک ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے وہ صرف غیر سائنسی تجزیے، جھوٹ، فریب اور مکاری پر مبنی حکمران طبقے کی تاریخ ہے جس میں حکمرانوں اور بادشاہوں کو ہیروز بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور عوام کو ناکارہ اور حکم ماننے کے آلہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ جس کی حالیہ مثال ارطغرل غازی کی زندگی پر بنائے گئے ڈارمے سے لی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس تاریخی مادیت ہمیں سائنسی طرز فکر کے تحت عوامی تاریخ اور پیداواری قوتوں کے سبب ہونے والی ثقافتی، معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنا سکھاتی ہے۔
بحث کو سمیٹتے ہوئے کامریڈ مجید پنہور نے کہا کہ تمام تر بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ سماجی تبدیلی فقط چند سرپھرے سپر مین یا فاتح سپہ سالاروں کے بدولت نہیں بلکہ انسانی محنت اور اس محنت کے نتیجے میں پیداواری قوتوں میں تبدیلی کے سبب ہی ہوتی ہے۔ لہذا یہی طرز فکر نئے نظام کی تعمیر میں نہ صرف مددگار ثابت ہوگا بلکہ یہ نسلِ انسانی کی نجات کا واحد راستہ ہے۔