|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد|
پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ملک بھر میں 8 مارچ محنت کش خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے ریلیاں، سمینار، اسٹڈی سرکلز اور سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا۔ اسی تسلسل میں 12 مارچ بروز جمعہ، پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد کے زیر اہتمام خانہ بدوش رائٹرز کیفے میں ”صنفی جبر، جنسی ہراسانی اور معاشی غلامی کے خلاف انقلابی جدوجہد“ کے عنوان سے سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سندھ یونیورسٹی سمیت مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ مجید پنھور نے سرانجام دیے اور سمینار کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس حیدرآباد کے آرگنائزر سرمد سیال نے اس دن کی اہمیت اور جنسی ہراسانی و زیادتی کے بڑھتے واقعات پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج جس مناسبت سے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اس کا مقصد ان تحریکوں اور دنوں کو یاد کرنا نہیں بلکہ ان سے سبق اخذ کرنا ہے۔ 8 مارچ دنیا بھر میں عورت کی آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتاہے۔ ایک طرف تو لبرل اور فیمنسٹ رنگ برنگے نعرے لگا کر وعورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ملا عورت کو چاردیواری میں قید رکھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور حکمرانوں کے ایجنڈے کے تحت محنت کش طبقے کو صنفی بنیادوں پر تقسیم کررہے ہیں۔ یہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے عورت کے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں، مگر جب پوراسماج ہی آزاد نہیں ہے تو عورت کیسے آزاد ہو سکتی ہے۔ عورت کی آزادی پورے سماج کی آزای کے ساتھ جڑی ہوئی ہے سماج آزاد تو عورت آزاد۔ اسلیئے آزادی کی اس لڑائی میں محنت کش طبقے میں موجود مردوخواتین کو مل کر لڑنا ہوگا۔ دنیا میں ابھرتی تحریکیں اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ سرمایہ دار اور ان کے تنخواہ دار حکمران محنت کشوں کی تحریک کو دبا نہیں پائیں گے۔
اس کے بعد میزان راہی نے انقلابات میں خواتین کے کردار پر بات کرتے ہوئے بحث کو آگے بڑھایا کہ فرانسیسی انقلاب سے لے کر بالشویک پارٹی کے عظیم انقلاب روس تک اگر دیکھیں تو ہمیں ان انقلابات میں محنت کش خواتین کا اہم کردار نظر آتا ہے لہذا اس کے پیش نظر ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ سماج کو بدلنا ہے تو اسے ماں کی نظر سے دیکھیں۔
اختتام پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما کامریڈ پارس جان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ عورت کو کوئی چیز یا مردوں کی جنسی تسکین کے لیے کموڈیٹی بناکر پیش کرنا یا محض جینز پہنا نا آزادی نہیں بلکہ اصل آزادی معاشی آزادی ہے، جو صرف اس وقت ممکن ہے جب عورت خاندان کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر سماج کی ترقی میں مرد کے بازو سے بازو ملا کر میدان عمل میں آئے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ نظام میں ممکن ہے، جس میں سرکار کی جانب سے اجتماعی نرسریاں اور اجتماعی باورچی خانے وجود میں آئیں گ، جس کی مثال سوویت یونین ہے جہاں عورت خاندانی ذمہ داری سے آزاد تھی اور معاشرے کی ترقی کے لیے سرگرم تھی۔ خواتین کی ان سر گرمیوں میں شمولیت آرٹ، سائنس اور دوسرے علوم کی ترقی کی وجہ بنی۔ خلا میں جانے والی پہلی عورت کا تعلق بھی سوویت یونین سے تھا۔
فیمنزم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عورتوں کے حوالے سے جتنے بھی مسائل موجود ہیں یہ عمومی طور پر صرف محنت کش طبقے کی خواتین کو درپیش ہیں، حکمران طبقے کی خواتین کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا (بحیثیت مجموعی)۔ کیونکہ مرد، عورت کا دشمن نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقہ محنت کش طبقے کا دشمن ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد۔ کسی عورت کے حکمران بننے سے کیا عورتوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اسکی واضح مثال یہ ہے کہ کیا بے نظیر کے دورِ حکومت میں خواتین کے تمام مسائل ختم ہو گئے تھے اسکا جواب نہ میں ہے۔ ان مسائل کا حل صرف غیر طبقاتی نظام یعنی سوشلزم ہے۔ عورت کا استحصال مرد نہیں بلکہ یہ نظام کررہا ہے۔ سرمایہ دار نظام کی بقاء اسی میں ہے کہ محنت کش طبقے کا ا ستحصال کیا جائے۔ یعنی استحصال اس نظام کی بنیاد ہے جس کے بغیر یہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہی عورت کی آزادی کا ضامن ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ایک انقلابی سوشلزم ہی انسانی سماج کی ترقی کا واحد راستہ ہے۔