جنسی ہراسانی اور ریپ کلچر سے نجات کیسے ممکن ہے؟

|تحریر: علی رضا جلبانی|

سرمایہ دارانہ نظام کی شکست و ریخت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے جو معاشی،سیاسی،سماجی و اخلاقی گراوٹ کو جنم دے رہی ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب تشدد، قتل، ڈکیتی، خودکشی اور دیگر انسانیت سوز واقعات رونما نہ ہوں۔ اس طرح کے واقعات کا حد سے بڑھ جانا یہ واضح کر رہا ہے کہ حکمران طبقہ عوام کو تحفظ اور بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے۔اخلاقی اور سماجی گراوٹ پسماندہ ممالک میں اپنی انتہاوں کو پہنچ چکی ہے۔اس گراوٹ کا اندازہ لگانا ہو تو آپ پاکستان کے سماج کی کسی بھی اخلاقی قدر اور اسکی عملی حیثیت کا معائنہ کرلیں، صورتحال آپ کے سامنے آجائے گی۔ خواتین کی عزت کرنا اور ان کو سماج میں باعزت مقام دینا ایک ایسا سماجی نعرہ ہے کہ جس کا سب سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور بہت لوگ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کو باعزت زندگی میسر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دن بہ دن بڑھتے ہوئے جنسی ہراسانی اور ریپ کے واقعات سماج کی کھوکھلی بنیادوں کو مزید کھوکھلا کر رہے ہیں۔

 

خواتین پرجبر اور سماجی رویہ

 

خواتین پر جبر اپنی انتہاوں کو پہنچ چکا ہے۔ عورتیں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے استحصال کا شکار ہیں تو دوسری طرف پدر سری میں رہتے ہوئے اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے دوہرے تہرے جبر کا شکار ہیں۔ خواتین کو جنسی ہراسانی، ریپ، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل جیسے سنگین جرائم کا سامنا ہے۔ایسے جرائم کی اکثریت تو طبقاتی تفاوت کے باعث منظر عام پر آتی ہی نہیں اور اگر کہیں کوئی واقعہ رپورٹ ہو بھی جائے تو اداروں میں بیٹھے افسران اور ریاستی کارندے خود اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ رپورٹ شدہ واقعات بھی دفتروں میں فائلوں کے پہاڑ تلے دبا دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان جرائم کی شکلیں شدید گھناؤنی ہوتی جا رہی ہیں۔ یہاں مجرموں کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ معاشرتی طور پر ان گھناؤنے اعمال کی پشت پناہی بھی کی جاتی ہے۔

 

ریپ کے واقعات کو لباس سے جوڑ دینا اس سماج کی عورت مخالف ذہنیت کو سب سے گھناؤنا ثبوت ہے۔ ریپ کے واقعات یا ہراسانی جیسے جرائم کے بڑھ جانے کی بنیادی وجہ اخلاقیات کی کمی یا مذہب سے دوری نہیں بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے عورت کو انسان کے درجے سے گرا کر بکنے کی چیز بنا دیا ہے جہاں عورت کو دولت کے بل بوتے پر خرید و فروخت کیا جاتا ہے اور ان سے گھریلو کام اور بچے پیدا کرنے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ گھر ہو یا درسگاہ، دفتر ہو یا بازار، زیادہ تر محنت کش طبقے کی عورتیں ہی ہراسمنٹ یا ریپ کا ہدف بنتی ہیں۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں اگر دیکھا جائے تو دونوں میں ہی اس طبقے کی خواتین کو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں کیس رپورٹ ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کیس رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ یہاں پر اس طرح کے کیسز کو رپورٹ کرنے کے لیے ایسے ادارے موجود نہیں جہاں خواتین اپنے ان مسائل کو اس خوف کے بغیر رپورٹ کر سکیں کہ ان سے بلاوجہ کے غیر اخلاقی سوال نہیں پوچھے جائیں گے یا اگر کوئی خاتون انتظامیہ کی طرف سے کیے جانے والے غیر اخلاقی سوالات کو برداشت کر کے رپورٹ کروا بھی دے تو بعد میں اسے یا اس کے خاندان کو معاشرے میں نفرت بھری نگاہوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی ان کے سماجی تشخص پر آنچ آئے۔ غیر انسانی و غیر اخلاقی واقعات کا تیزی سے مسلسل بڑھنا سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا کہ اب اس نظام میں خواتین کا رہنا جہنم میں رہنے کے مترادف ہے۔

 

نا جانے کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو کبھی رپورٹ نہیں کیے جاتے اور جو رپورٹ کیے جاتے ہیں ان کے فیصلے سالوں تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ اگر ہم فیمینسٹ اور لبرلز کی تحریروں اور پلے کارڈز پر توجہ دیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف مرد ہی عورتوں کا استحصال اور ان پر ظلم و جبر کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو صرف صنف (gender) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق خواتین پر ظلم جنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جب کہ ہم مارکس وادی کہتے ہیں یہ استحصال طبقات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

 

مسئلے کا حل سوشلزم کیوں ہے؟



لبرلز اور نام نہاد فیمینسٹ عورتوں کو آزادی کا دھوکہ دیتے ہیں۔ یقیناً سرمایہ دارانہ نظام نے خواتین کو گھر کی دہلیز پار کر کے محنت کی منڈی کا حصہ بنانے میں اپنا کردار نبھایا ہے اور اس سے خواتین کی سماجی زندگی اور اہمیت کو بھی بڑھایا ہے مگر اس ترقی پسند قدم کے ساتھ ہی جدید قسم کے مظالم، استحصال اور محنت کی لوٹ مار کی راہیں بھی ہموار کر دی ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی اجرت کا فرق موجود ہے جو سرمایہ داروں کی جیبوں میں مزید دولت اکٹھی کرتا جارہا ہے جسکو ہمارے نام نہاد حقوقِ نسواں کا علم بلند کرنے والے فراموش کرجاتے ہیں۔ منڈی کی معیشت میں سرمایہ دار طبقہ آزادی کی بجائے خواتین کا ذہنی اور معاشی استحصال کرتا ہے۔ لبرلز کے نزدیک آزادی محض لباس اور رہن سہن سے تعلق رکھتی ہے لیکن حقیقت میں یہ صرف امیر طبقے اور درمیانے طبقے کی عیاشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جن کی تعداد مٹھی بھر ہے جبکہ اکثریت آبادی غریب طبقے کی ہے۔ وہ اپنے پرانے لباس میں لمبا عرصہ گزارتی ہیں۔ بعض خاندان تو چھت کو ترستے ہیں وہ اگر ایک دن اپنی محنت نہ بیچیں تو اگلے دن زندہ رہنا ان کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔امیر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اس ظلم کا شکار نہیں ہوتیں۔ ہم مارکسسٹ ہمیشہ سے اپنی تقریروں اور تحریوں میں درست دلیلوں سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ یہ لبرلز اور نام نہاد فیمینسٹ خواتین و حضرات محنت کش طبقے کی خواتین پر ہونے والے ظلم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس استحصال کو خوبصورت پردوں میں ملفوف کرکے جاری رکھنے کی سماجی اور سیاسی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین کو ملکیت کی حیثیت دی جاتی ہے اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اب تو نہ صرف خواتین بلکہ کم سن بچیوں اور بچوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اب محنت کش طبقے کے بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں شدت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور موجودہ نظام کے زوال کی وجہ سے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔اسی طرح تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہاں پر برائے نام اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تو تشکیل کی جا چکی ہیں مگر ان میں بھی انتظامیہ کے لوگ موجود ہوتے ہیں جو بذاتِ خود یا ان کے لاڈلے بچے یا ان کی پشت پناہی میں پلنے والے اس گھناؤنے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔تعلیمی اداروں یا دیگر جگہوں پر جہاں برائے نام اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں موجود ہیں وہاں اس قسم کے واقعات دن بدن زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ ہم نہ صرف ان کمیٹیوں کو رد کرتے ہیں بلکہ ان کے مقابلے میں محنت کشوں اور طلبہ کی ایسی کمیٹیاں بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان جرائم کو جڑ سے اکھاڑنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے اور تمام تر مسائل کا حل تلاش کرنے اور عوام دشمن پالیسیوں کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ محنت کش طبقہ ذہنی و جسمانی استحصال جیسے جرائم سے تب تک نجات نہیں حاصل کر سکتا جب تک گلی محلوں میں ایسی کمیٹیاں نہیں بنائی جاتیں جو انکے خلاف سیاسی جدوجہد کریں اور ان کا پورا کنٹرول عوام اپنے ہاتھوں میں نہ لے۔ اسی طرح جب تک تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال نہیں ہوتی تب تک سٹوڈنٹس کو ہراسمنٹ سمیت فیسوں میں اضافے، ہاسٹلز کی کمی،ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی وہ بنیاد ہے جو اس قسم کے جرائم کو جنم دیتا ہے۔بلاشبہ ان مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان وجوہات کو ختم کرنا بھی ضروری ہے جو انسان سے انسانیت کا درجہ چھین کر حیوان بناتے ہیں۔ اب اس فرسودہ نظام سے پیدا ہونے والی گھٹن سے کھلی ہوا میں سانس لینا بھی ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے اور یہ تب تک جارہی رہے گا جب تک منڈی کی معیشت موجود ہے جو کہ نہ صرف پدرسری کو قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ اسکے مزید گھناؤنے چہرے سامنے لے کر آرہی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ منڈی کی معیشت کو ایک منصوبہ بند معیشت سے بدلتے ہوئے نجی ملکیت کے تصور کو اجتماعی ملکیت کے ذریعے بدل دیا جائے اور اسی طرح ہی یہ سارا انسان دشمن سماجی ڈھانچہ بھی دھڑام سے آگرے گا اور اس کی بجائے انسان دوست، عورت دوست اور زندگی دوست سماجی ڈھانچہ پروان چڑھے گا جس کے قیام کے لیے واحد راستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.