|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
نئے تعلیمی سال کے آغاز میں بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہاسٹل کی فیس میں سو فیصد اضافہ کیا ہے۔ اضافے سے پہلے ہاسٹل کی سالانہ فیس چار ہزار روپے تھی اور اب فی سمسٹر چار ہزار روپے ہاسٹل کی فیس کی مد میں لیے جا رہے ہیں، جو کہ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ ہاسٹل کی فیس میں اس بے تحاشہ اضافے کے باوجود ہاسٹل کے اندر طلبہ کے لیے بنیادی سہولیات بھی مکمل طور پر ناپید ہیں۔
بلوچستان کی سب سے قدیم اور بڑی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی اس وقت شدید بحران کی زد میں ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ اس تعلیمی بحران کا تمام بوجھ ملازمین، محنت کشوں اور طلبہ کے کندھوں پر منتقل کر رہی ہے۔ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی مارچ کے مہینے میں برائے نام ہی کھلی تھی۔ ایک طرف مارچ کے مہینے سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام یونیورسٹی کے تمام تر ملازمین اور محنت کش اپنی تنخواہوں کے مسائل کی وجہ سے ہڑتال کر رہے ہیں جس کے باعث یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب طلبہ کے مسائل بھی مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل کے مسائل کبھی حل ہوئے ہی نہیں۔ ایک تو بلوچستان میں یونیورسٹیاں بہت ہی کم ہیں اور جو موجود ہیں ان میں ڈیپارٹمنٹ بہت محدود ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی چونکہ صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اس لیے بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے طلبہ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں طلبہ کی اکثریت محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی اکثریت اپنا پیٹ کاٹ کر باہر کے ہاسٹلوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ جہاں آنے جانے کا کرایہ اور لوکل بسوں میں دھکے اضافی مسئلے ہیں اور طلبہ کو وقت پر یونیورسٹی پہنچنے میں بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں رہنے والے طلبہ بھاری فیسیں دے کر ہاسٹل میں جگہ پاتے ہیں جہاں پریشانیوں کا جِن بوتل سے باہر نکلتا ہے اور طلبہ کو ڈرانا شروع کرتا ہے۔ ہاسٹلوں کے واش رومز میں پانی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ 2022ء کی طوفانی بارشوں میں واٹر سپلائی سسٹم بری طرح متاثر ہوا تھا اور آج دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ خستہ حال پڑا ہے۔ پینے کے پانی کے لیے کسی زمانے میں ہاسٹل کے ہر بلاک میں فلٹر کولر ہوتے تھے۔ جن میں کچھ خراب ہونے کے بعد کباڑ میں بیچ دیے گئے اور جو موجود ہیں وہ انتظامیہ کی نااہلی کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد سارے بلاک کے لیے ایک مشترکہ پلانٹ لگایا گیا جس میں تمام بلاکوں کے پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اور اب اس میں سے کبھی کبھار ہی پانی آتا ہے۔ یونیورسٹی میں طلبہ کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔
میس کے کھانوں کی بات کی جائے تو طلبہ کو ہاسٹل میں انتہائی غیر معیاری اور مضرِ صحت کھانا بہت مہنگا ملتا ہے، صرف دال کی قیمت سے اندازہ لگایا جائے تو ڈیڑھ سو میں پانی میں تیرتی ہوئی دالیں ملتی ہیں۔ باقی کھانے تو عام طلبہ کی پہنچ سے ویسے ہی بہت دور ہیں۔ اس لیے اکثر طلبہ نے ہاسٹل میں اپنے کمروں کے اندر ہی چھوٹا موٹا کچن ترتیب دے رکھا ہے جس کے اخراجات طلبہ کو الگ سے جھیلنے پڑتے ہیں۔ جب کھانا خود بناتے ہیں تو طلبہ کو ہاسٹل میں گیس کی شدید قلت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہاسٹل میں ایک روٹی 50 روپے کی ملتی ہے جو سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے 25 روپے کی تھی۔ ان تمام مسائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہاسٹل کی فیس میں مسلسل اضافہ ہی کرتی آئی ہے جبکہ ہاسٹل میں طلبہ کے مسائل ختم یا کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اس سے ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے کہ طلبہ کی فیسوں میں کیے جانے والے اضافے کی مد میں ملنے والی رقم طلبہ کے مسائل حل کرنے میں صرف نہیں کی جا رہی۔
پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کے تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہاسٹل کی فیسوں میں کیے گئے اضافے کو فی الفور واپس لے اور طلبہ کو ہاسٹل میں تمام سہولیات مفت فراہم کرنے کے لیے فی الفور اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یونیورسٹی کے تمام طلبہ سے یہ اپیل بھی کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین، جوکہ پچھلے چند سالوں سے مسلسل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام اپنی تنخواہوں کے مسائل کے حوالے سے سراپا احتجاج ہیں، کے ساتھ مل کر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ کبھی بھی طلبہ کے مسائل حل کرنا نہیں چاہے گی۔ طلبہ کو اپنی طاقت کے زور پر ہی باقی ملازمین کے ساتھ مل کر یہ لڑائی لڑنی ہو گی اور اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے۔ محنت کش اور طلبہ ہی ایک دوسرے کی طاقت ثابت ہو سکتے ہیں اور یہ لڑائی جیت سکتے ہیں۔