|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، راولپنڈی|
کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن اور تاحال چلتی صورتحال میں پاکستان کے نظام تعلیم کا بھیانک چہرہ بالکل ننگا ہوگیا ہے جو طلبہ کو سہولیات دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور جس کے خلاف ملک بھر کے طلبہ میں تحرک دیکھنے کو ملا ہے۔
ایرڈ یونیورسٹی راولپنڈی میں آن لائن کلاسوں اور فیس وصولی کے لیے ہونے والے ایک ہفتہ پہلے کے علامتی احتجاج کے تسلسل میں سٹوڈنٹس رائٹس کمیٹی کی جانب سے 5 اکتوبر بروزِ پیر کو ایرڈ یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے ایک احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
5 اکتوبر کو احتجاج کے لئے معقول تعداد میں طلبہ یونیورسٹی گیٹ کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان طلبہ نے منصوبہ بندی کے تحت پرامن طریقہ کار اپناتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرنے تھے لیکن پرامن احتجاج کو یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے پر تشدد بنانے کی کوشش کی گئی اور طلبہ کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ طلبہ سے بینر اور پلے کارڈز چھین کر پھاڑے گئے اور انہیں ایکسپیل کرنے اور انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئیں۔ احتجاج میں پی وائی اے کے مرکزی چیئرمین اور دیگر ممبران نے شرکت کرتے ہوئے طلبہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی۔
احتجاج میں شریک طلبہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی ہمارے جائز مطالبات تسلیم کر ے اور آن لائن کلاسز کا خاتمہ کرتے ہوئے فیسوں میں کمی کرے۔ انتظامیہ کی مسلسل دھمکیوں کے باوجود بھی طلبہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے پرامن احتجاج کا آئینی حق بروکار لاتے رہے۔ طلبہ نے انتظامیہ کی غنڈہ گردی کے خلاف نعرے بازی بھی کی اور ان کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ مطالبات ماننے اور دیگر سہولیات دینے میں ناکام رہتی ہے تو وہ متحد ہو کر یونیورسٹی کا بائیکاٹ کرنے کے طرف جائیں گے۔
انتظامیہ کے ایک وفد نے طلبہ سے مذاکرات بھی کیے، جو ناکام رہے۔ سٹوڈنٹس رائٹس کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں تاخیری حربوں کے ذریعے دھوکہ دیا گیا تو ہم احتجاج کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ منظم کریں گے اور اگر ہمیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا تو کسی بھی رد عمل کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ ہو گی۔
آگے کا راستہ
ہر تحریک اپنے ساتھ کچھ اسباق لے کر آتی ہے۔ یہ قیادت کا کام ہوتا ہے کہ ان اسباق سے سیکھ کر مستقبل کے لائحہ عمل کو درست راہ پر گامزن کرے۔ ایریڈ یونیورسٹی کے طلبہ کا خود رو طریقے سے احتجاج کے طرف جانا اور اس کے بعد طلبہ کی کمیٹی تشکیل دینا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ریاستی پشت پناہی سے موجود روایتی طلبہ تنظیمیں آج طلبہ کے اندر اپنی بنیادیں مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔ یہی حالات ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی موجود ہیں۔ اس صورتحال میں ہم سمجھتے ہیں کہ ایریڈ یونیورسٹی سمیت ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ قیادت کا ایک خلا موجود ہے اور یہی قیادت کا خلا ہی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی تحریکیں وسیع حمایت کے باوجود خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتیں۔
اس وقت ملک کے تمام اداروں میں طلبہ کی کمیٹیاں تشکیل دے کر ان کو سائنسی بنیادوں پر مبنی تناظر سے لیس کرنا چاہیئے تاکہ مستقبل میں بننے والی طلبہ تحریکوں کو کامیابی مل سکے۔
ایریڈ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کی کچھ تجاویز مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ سٹوڈنٹس رائٹس کمیٹی میں ہر ڈیپارٹمنٹ سے طلبہ کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
2۔ اپنے مسائل پر مبنی ایک لیف لیٹ تیار کر کے اس کے گرد ادارے کے اندر ایک بھرپور کمپئین کا آغاز کیا جائے۔
3۔ وہ طلبہ جو اس وقت اپنے گھروں میں موجود ہیں، ان سے رابطہ کاری کی جائے اور ایک سوشل میڈیا کمپئین کا آغاز کیا جائے۔
4۔ اپنے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے طلبہ کے سٹڈی سرکلز کا آغاز کرتے ہوئے ان کی سیاسی تربیت کی جائے۔
درج بالا تمام اقدامات بروئے کار لاتے ہوئے سٹوڈنٹس رائٹس کمیٹی کو ایک منظم تحریک کا دوبارہ سے پورے جوش و لولے کے ساتھ آغاز کرنا پڑے گا۔