|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس |
پچھلی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی معاشی بحران کا تمام بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر منتقل کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں میں فرق یہ ہے کہ معاشی بحران کی بڑھتی شدت کے نتیجے میں موجودہ حکومت آئی ایم ایف جیسے سامراجی لٹیرے ادارے کی سخت ہوتی شرائط کے زیرِ اثر اپنے عوام دشمن اقدامات کو تیزی سے سر انجام دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے اس کی پیشگی شرائط پر اصلاحات کے نام پر عملدرآمد جاری ہے۔ اسی سلسلے میں آنے والے بجٹ میں ایچ ای سی کو جاری ہونے والے فنڈز میں پچاس فیصد سے زائد کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں (Higher Education Institutions) کی جانب سے 2019-20 کیلئے بجٹ میں سے ایک اندازے کے مطابق 103 ارب روپے درکار تھے جبکہ دویلپمنٹ بجٹ کی مد میں 55 ارب روپے درکار تھے۔ اسی بنیاد پر ہائی ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس سال نئے داخلوں کی فیس کو دگنا کیا جائے گا، تمام جامعات میں سکالرشپ ختم کر دی گئی ہے اورا سی طرح ڈویلپمنٹ بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے نئی عمارتوں کی تعمیر اور نئے داخلوں کو روکنے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔
طلبہ کی فیسوں میں اضافے اور یونیورسٹی ملازمین کی تنخواہوں و دیگر اخراجات میں اور ترقیاتی بجٹ میں بڑے پیمانے پر پہلے سے ہی کٹوتیاں کی جا رہی تھیں اور یونیورسٹیوں کو اپنے اخراجات خود پورے کرنے کے لیے کہا گیا تھا یعنی کہ یونیورسٹیوں کو اپنے اخراجات طلبہ کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر پورے کرنے تھے (جو انہوں بخوبی کیے)اور اب مزید کٹوتی کی جارہی ہے۔
پچھلی حکومت کے دوران بھی ایچ ای سی کے فنڈز میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی تھی اور طلبہ کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی گئی تھی۔ پچھلے چند سالوں میں تعلیمی اخراجات میں کئی سو گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور تعلیم کو ایک مہنگی ترین کموڈیٹی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں کے بچوں کو تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق اس ملک کے حکمرانوں نے کبھی دیا ہی نہیں مگر اب نچلے درمیانے طبقے کے بعد اوپری درمیانے طبقے کے لیے بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ایک طرف اعلی تعلیم پر حکومتی اخراجات کم کیے جا رہے ہیں اور افراطِ زر میں شدید ترین اضافہ ہو رہا ہے جس کا براہِ راست شکار عام طالب علم ہیں، وہیں پر دوسری طرف یونیورسٹیوں کے انتظامی عہدوں پر بیٹھے پروفیسران نے بھی لوٹ مار کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ آج یونیورسٹیوں کے اندر کرپشن اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور تعلیم کے نام پر کاغذ کے کورے پیپر ڈگریوں کے نام پر انتہائی مہنگے داموں بیچے جا رہے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس حکمران طبقے کی اس عوام دشمن حکومت کے اس مجوزہ اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کا عہد کرتی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے حق پر اس کھلے عام ڈاکہ پر خاموش نہیں رہے گی بلکہ طلبہ کی تمام پرتوں کو اس طلبہ دشمن اقدام کے خلاف منظم کرے گی۔
پروگریسو یوتھ الائنس ہمیشہ یہ وضاحت کرتی آئی ہے کہ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے بڑھتے جبر کی وجہ بھی طلبہ کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا یہی پروگرام ہے۔ اسی لیے تعلیمی اداروں کو زندانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ طلبہ سے اس لوٹ مار کے خلاف جدوجہد کا حق بھی چھین لیا جائے۔
حکومت کے اس طرح کے ظالمانہ اقدام کی پیش بندی اور مفت تعلیم اور دیگر حقوق حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو اپنے قوتِ بازو پر انحصار کرنا ہوگا اور اپنی ماضی کی جدوجہد کی عظیم روایات کو زندہ کرنا ہوگا۔ اپنے حقوق کے دفاع کے لیے طلبہ کے پاس آج مزاحمتی سیاست کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو حقوق حاصل کرنے کی اس مزاحمتی سیاست میں شامل ہونے کی دعوت دیتی ہے۔
حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے!
جینا ہے تو، لڑنا ہوگا!