گورنمٹ ایمرسن کالج ملتان: کالج یا جیل خانہ!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اکثر اوقات خوفناک جیل خانوں کے منظر دیکھنے میں آتے ہیں جس کے اندرخطرناک قسم کے مجرم، جن میں بڑے بڑے قاتل اور دہشت گرد قید ہوتے ہیں۔ ان کو سخت قسم کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔ اونچی اونچی دیواریں، خاردار تاروں سے ڈھکی ہوئی۔ داخلی راستوں پرسخت چیکنگ کی جاتی ہے۔ کسی قسم کی غیرمعمولی حرکت پرنظر رکھنے کے لئے پولیس ہر وقت جیل میں گشت کرتی رہتی ہے۔ خوف و ہراس کی مسلسل حالت برقرار رکھی جاتی ہے۔ مگر اب جو کہانی آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے اس میں سکرپٹ بھی وہی ہے کردار بھی وہی ہیں بس کرداروں کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں، جیسا کہ جیلر کا نام پرنسپل ہے، پولیس کی جگہ پروفیسر اور قیدی یا مجرم طالب علم ہیں۔  

ایمر سن کالج جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے جس میں جنوبی پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہروں سے طالبعلم تعلیم حاصل کرنے کے جرم میں یہاں داخل ہوتے ہیں۔ جس میں تقریباً 12سے 15ہزار قیدی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ کالج اس خطے کی سب سے قدیم جیل ہے جس کی بنیاد 1920ء میں برطانوی سامراج کے دور میں رکھی گئی تھی۔

کالج کے اطراف سے گزرنے والے کسی بھی انجان شخص کے ذہن میں اس کی دیواریں دیکھ کر سب سے پہلا خیال آتا ہے کہ غالباً یہ کو ئی جیل خانہ ہے شاید۔ اونچی اونچی دیواریں، خاردار تاروں سے ڈھکی ہوئی۔ پہلی نظر میں ایسا ہی لگتا ہے مگر یہ درسگاہ ہے۔ پچھلے عرصے میں سکیورٹی کے نام پر کی جانے والی سختی کی وجہ سے ملک کی ہر درس گاہ نے جیل خانے کا روپ دھار لیا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ہر روز جب طلبہ کالج میں داخل ہو تے ہیں تو آگے سیکورٹی گارڈ ہر طالب علم کی اس طرح چیکنگ کرتا ہے جیسے یہ ہیرون سمگل کرنے جا رہے ہوں۔ ابھی گیٹ سے بندہ داخل ہوتا ہی ہے کہ آگے آپ کے سامنے پروفیسروں کا ٹولا آپ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے جن کا کام پرائمری سکول کے پی ٹی ماسٹر کی طرح طلبہ و طالبات کا کالج یونیفارم چیک کرنا ہوتا ہے، اگرکسی طالب علم کا یونیفارم نامکمل ہو تو اس کی تذلیل کی جاتی ہے اور گھنٹوں کھڑا رکھا جاتاہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کالج یونیفارم کے جوتے نہ ہونے کی صورت میں سزا کے طور پر ننگے پاؤں جوتے سر پر رکھ کر کلاس روم تک بھیجا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پروفیسروں کی سربراہی میں سکیورٹی گارڈز کے ساتھ کالج کا چکر لگایا جاتا ہے اور ہر طالب علم تلاشی لی جاتی ہے اور اگر موبائل دریافت ہوجائے تو وہ ضبط کر لیا جاتا ہے اور جرمانہ بھی ڈالا جاتا ہے۔ کالج کی حدود میں دس یا دس سے زیادہ افراد کا اکھٹا ہونا منع ہے۔ کالج کی مرکزی عمارت کی حالت خستہ حال ہے کلاس رومزمیں 1960ء کی دہائی کا فرنیچر زیر استعمال ہے جوکہ آثارقدیمہ کا منظر پیش کرتا ہے۔ کالج میں ایک بھی کینٹین موجود نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے کالج جہاں دوسرے شہروں سے طلبہ پڑھنے آتے ہیں ان کے لیے صرف ایک بوائز اور ایک گرلز ہاسٹل موجود ہے۔ جس میں الا ٹمنٹ کرانے کے لئے بولی لگائی جاتی ہے جس میں پرنسپل سے لے کر وارڈن تک اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ یہ ہاسٹل جیل کے اندر جیل کی مانند ہے جس میں آپ کو کالج کی اوقات کے دوران یونیفارم کے بغیر نہیں نکلنے دیا جاتا ہے۔ ہاسٹل میں کسی بھی وزیٹر کا داخلہ ممنوع ہے اور رات کو 9بجے کے بعد ہاسٹل میں بھی داخلہ بند کر دیا جاتا ہے۔ ہاسٹل میں کئی دفعہ غیر معیاری اور مضر صحت میس کی وجہ سے بہت سارے طلبہ بیمار ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ شہر کے مختلف کونوں سے طلبہ یہاں پڑھنے آتے ہیں جن کے لیے صرف 3بسیں دستیاب ہیں جو پورے شہر کیلئے ناکافی ہیں اوراکثریت کو کالج تک آنے کے لیے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بسوں میں، جس طرح مرغیوں کو گاڑی میں لادا جاتا ہے ایسے ہی طلبہ کیساتھ ہوتا ہے۔  

پیچھے عرصے میں چلنے والی شاندار طلبہ تحریک میں بی ایس، ایم ایس اور ایم ایس سی کے طلبہ نے اپنے چند مطالبات کو منوایا جس میں سمسٹر کے شیڈول پر عمل، مقررہ عرصے میں ڈگری، سیشنل نمبروں میں اضافہ شامل ہیں مگر اس کے علاوہ دیگر مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس کے حصول کے لئے ایک جدوجہد آنے والے عر صے میں کھلنے کی طرف جائے گی۔

ان تمام تر مسائل سے گزرنے کے بعد انسان کی تخلیقی صلاحیت تو بہت دور کی بات ہے انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بندہ نیم پاگل ہوجاتا ہے اور شدید بیگانگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور جو لوگ مکمل پاگل ہو جاتے ہیں وہ کالج میں پروفیسر بھرتی ہوجاتے ہیں۔ کلاس روم ہر روز طلبہ کو اپنے ماضی کے کھنڈرات میں لے جاتے ہیں اور ان میں ناامیدی، مایوسی اورنفرت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں سیکھایا جاتا ہے۔  

فیض احمد فیض کے الفاظ میں۔ ۔ ۔

پڑھنے والوں کے نام!

وہ جو اصحاب طبل وعلم 

کے دروں پر کتاب اور قلم 

کا تقاضالئے، ہاتھ پھیلائے

پہنچے، مگر لوٹ کر گھرنہ آئے

وہ معصوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں کی لو کی لگن

لے کر پہنچے جہاں

بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.