|تحریر: فضیل اصغر|
پاکستان کا موجودہ معاشی بحران اس کی 76 سالہ تاریخ کا سب سے بدترین بحران ہے۔ ملکی معیشت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی وقت دیوالیہ قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جو سیاسی اور آئینی بحران کو بھی ساتھ لیے ہوئے ہے جو اب ایک ریاستی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس میں تمام ریاستی ادارے، تمام سیاسی پارٹیاں اور میڈیا عوام کی نظروں میں اپنی وقعت کھو بیٹھے ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پوری ریاست اپنی وقعت کھو بیٹھی ہے۔ حکمران آپس میں کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں وہ راز بھی افشا کر رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس سب کے نتیجے میں معاشی بحران اور تیزی سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور بیروزگاری میں بھی تیز ترین اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مختلف اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیبر مارکیٹ میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، لہٰذا بہت بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو ہی بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں بھی زیادہ تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے جو کہ یقیناً انتہائی تشویشناک ہے۔ عالمی و ملکی معاشی بحران اور پاکستانی مینوفیکچرنگ سیکٹر کی تکنیکی پسماندگی کے باعث ملک بھر میں بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ نیا روزگار پیدا ہونے کی بجائے جو موجود ہے وہ بھی تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا نظام تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم مارکیٹ کے تقاضوں سے کوسوں دور ہونے کی وجہ سے انہدام کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایسی صورت حال میں تمام نوجوانوں اور طلبہ کے سامنے ایک تاریک مستقبل ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان یا تو ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں یا پھر چھوٹی موٹی نوکریوں کی تلاش میں، یا پھر فری لانسنگ کو ایک آپشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ فری لانسنگ سے وابستہ اکثریتی نوجوان محض زندہ رہنے کی خاطر اسے مجبوراً اپنا رہے ہیں جبکہ کچھ نوجوان اس میں اپنا ایک مستحکم مستقبل بھی دیکھ رہے ہیں۔ بہر حال نوجوانوں کے سامنے آج فری لانسنگ ایک سنجیدہ آپشن کے طور پر موجود ہے۔ روایتی نظام تعلیم اور اس سے جڑے روزگار، یعنی ڈگری کے بلبوتے پر نوکری حاصل کرنے کا روایتی طریقہ کار شدید ترین حد تک متاثر ہو چکا ہے، جس کے صرف معیشت ہی نہیں بلکہ سیاست اور بحیثیت مجموعی سماج پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لہٰذا آج مارکسی نقطہ نظر سے یہ بحث انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے کہ آیا فری لانسنگ کے پاکستانی سماج اور سیاست، بالخصوص طلبہ سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ اسی طرح فری لانسنگ سے جڑی کئی اور بحثیں بھی موجود ہیں جن پر مارکسی نقطہ نظر سے بات ہونا بہت ضروری ہے۔ مثلاً ٹیکنالوجی میں حالیہ پیش رفتوں جیسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس، 5G، بلاک چین ٹیکنالوجی وغیرہ کے عمومی کام اور بالخصوص فری لانسنگ پر اثرات اوران کے مستقبل کے حوالے سے بھی ایک بحث موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی آج کل زیر بحث ہے کہ فری لانسنگ ایک ایسی پیش رفت ہے جس نے تمام مزدوروں کو آزاد کر دیا ہے اور اب وہ سرمایہ داروں کو اپنی قوت محنت نہیں بیچ رہے بلکہ ”کاروباری (Entrepreneur)“ بن چکے ہیں۔ اس کے ساتھ پھر کئی مزید سوالات بھی جڑ جاتے ہیں مثلاً یہ کہ اگر فری لانسنگ تیزی سے مزدوروں کو ختم کر رہی ہے اور ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی اس میں مزید تیزی لائے گی تو پھر تو ایک دن سب کاروباری بن جائیں گے۔ تو کیا پھر ہمیں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنی چاہیے یا نہیں؟ اور پھر اس سے جڑے کئی اور سوالات کہ مزدوروں اور طلبہ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ وغیرہ۔ اس تحریر میں ان سوالات اور پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر مارکسی نقطہ نظر سے بحث کی گئی ہے۔
فری لانسنگ کیا ہے؟
فری لانسنگ درحقیقت خدمات کا شعبہ ہی ہے، جس میں گرافک ڈیزائننگ، کانٹینٹ رائٹنگ (مضامین اور اسائنمنٹس وغیرہ لکھنا، مضامین اور کتابوں کی پروف ریڈنگ کرنا وغیرہ)، ویب ڈیویلپمنٹ، سوشل میڈیا مینیجمنٹ، کھاتہ داری (مختلف کاروباروں کے آن لائن کھاتوں کا حساب رکھنا)، وڈیو ایڈیٹنگ سمیت دیگر کئی خدمات کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ گگ اکانومی (Gig Economy) کی ہی ایک شکل ہے۔ بہر حال گگ اکانومی میں جسمانی خدمات (Physical Services) فراہم کی جاتی ہیں جیسے ٹرانسپورٹ (اوبر، کریم وغیرہ)، کھانوں یا اشیاکی ترسیل (فوڈ پانڈا) وغیرہ۔ جبکہ فری لانسنگ میں تخلیقی و علمی خدمات سرانجام دی جاتی ہیں جیسے ڈیزائننگ، لکھائی، ویب ڈیویلپمنٹ وغیرہ۔
گگ اکانومی میں لوگ اپنی خدمات خاص دورانیے کیلئے ایک کنٹریکٹ کی صورت میں بیچتے ہیں۔ یہ کنٹریکٹ تھوڑی دیر کیلئے بھی ہو سکتا ہے اور بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان ایک لمبے عرصے کیلئے تعلق کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ مثلاً فوڈ پانڈا وغیرہ کا استعمال وقتی ہی ہوتا ہے، جبکہ فری لانسنگ میں یہ ایک لمبے عرصے کا تعلق بھی بن سکتا ہے جیسے کسی گاہک(Client) کو لمبے عرصے کیلئے کوئی کام کرانا ہے مثلاً اپنے یوٹیوب چینل کیلئے وڈیو ایڈیٹنگ کرانی ہے یا کسی دکاندار نے اپنا کھاتے کا حساب رکھنا ہے یا ایڈورٹائزمنٹ کرانی ہے وغیرہ۔
فری لانسنگ کیلئے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز بنے ہوئے ہیں جیسے فائیور (Fiverr)، جو گاہکوں اور فری لانسرز کا رابطہ کراتے ہیں اور اس کے عوض اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر اپنی خدمات بیچنے والوں کو جہاں نئے آرڈر لینے کیلئے مسلسل تگ و دو کرنی پڑتی ہے وہیں مخصوص دورانیے میں کام پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر دیر ہوجائے تو پروفائل اچھی نہیں رہتی جس سے پھر آرڈر بھی کم ملتے ہیں۔ کئی پلیٹ فارمز ایسے بھی ہیں جہاں پیسے دے کر اپنی پروفائل کو زیادہ خریداروں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ یعنی کہ ان پلیٹ فارمز پر یہ گارنٹی نہیں کہ آپ کو کام ملے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت فری لانسنگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
کیا فری لانسنگ ایک ترقی پسند پیش رفت ہے؟
مارکسی نقطہ نظر سے ترقی پسند پیش رفت وہ ہوتی ہے جو: 1) ذرائع پیداوار کو ترقی دے اور سماجی ضروری وقت محن کو کم کرے 2) محنت کش طبقے کے طبقاتی شعور اور اتحاد میں اضافہ کرے۔ یعنی کہ اگر معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، ہر وہ پیش رفت جس سے پیداوار کے ذرائع (فیکٹریاں، مشینری، تکنیک وغیرہ) میں ترقی آئے جس کی بنیاد پر کم محنت کے ساتھ (کم وقت میں) زیادہ اور بہتر اشیا تیار کی جا سکیں یا خدمات فراہم کی جا سکیں، ترقی پسند کہلائے گی۔ اگرچہ اس میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ پیش رفت رائج الوقت پیداواری نظام کی حدود میں رہتے ہوئے بالعموم سماج کو ترقی دے رہی ہے یا ترقی کے رستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ سماجی و سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، ہر وہ پیش رفت جس سے محنت کش طبقے کے طبقاتی شعورمیں اضافہ ہو، اور اس کے اتحاد میں اضافہ ہو، ترقی پسند کہلائے گی۔ اس شعور سے مراد ہے کہ محنت کش طبقہ کسی بھی انفرادی فرق کے باوجود بحیثیت مجموعی ایک طبقہ ہے جو ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے سرمایہ دار طبقے کو اجرت کے عوض اپنی قوت محنت بیچ کر ساری دنیا کی دولت پیدا کرتا ہے۔ یعنی کہ سارا نظام اسی کی محنت سے چلتا ہے۔ اور جب یہ نظام چلا وہ رہا ہے تو پھر ذرائع پیداوار پر ملکیت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔ یعنی بطور طبقہ سرمائے اور محنت کے نامیاتی تضاد کا شعور طبقاتی شعور کی بنیاد ہوتا ہے۔
اس بنیاد پر ہی ہم فری لانسنگ کو بھی جانچنے کی کوشش کریں گے۔ فری لانسنگ کئی حوالوں سے ترقی پسند ہے جبکہ کئی حوالوں سے نہیں ہے۔ مثلاً اگر معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اتنے بڑے پیمانے پر فری لانسنگ کا ظہور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت عالمی منڈی میں محنت کی تقسیم کار کی گلوبلائزیشن کے باعث ہوا ہے اور یہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی پیداوار ہے۔ ایک طرف شدید ترین استحصال کے باعث محنت کشوں کی حقیقی اُجرتیں بہت کم ہو چکی ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قوت خرید میں کمی ہو چکی ہے اور منڈی سکڑ رہی ہے جبکہ دوسری طرف نت نئی ٹیکنالوجی نے پیداواری صلاحیتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ سرمایہ داری میں یہ صورتحال زائد پیداوار یا زائد پیداواری صلاحیت کی موجودگی کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے جس کے باعث آج عالمی مالیاتی بحران جنم لے چکا ہے۔ ہمیں تکنیک میں تیز ترین ترقی نظر آتی ہے خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر تکنیکی ترقی جیسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس، 3D پرنٹنگ، انٹرنیٹ آف تھنگز (Internet of Things)، بلاک چین ٹیکنالوجی وغیرہ کی وجہ سے آج سرمایہ دارانہ نظام میں انتہائی کم وقت میں بے تحاشہ پیداوار کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں سرمایہ دار اپنی شرح منافع کو بڑھانے کے لیے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے سستی ہنر مند لیبر حاصل کر رہے ہیں تاکہ کم سے کم لاگت اور اجرتیں ادا کر کے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے یعنی شرح استحصال کو بڑھایا جائے۔ لیکن اس عمل سے بھی سرمایہ داری کا بحران کم ہونے کی بجائے مزید شدت ہی اختیار کررہا ہے۔ لیکن ان نتائج سے بے پرواہ سرمایہ دار آج اپنے منافعوں کو بڑھانے کیلئے ایسے طریقے اپنا رہے ہیں جن سے مزدوروں کی اُجرتیں کم ترین سطح پر رکھی جا سکیں۔ اسی عمل کے باعث فری لانسنگ کے نتیجے میں پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ ممالک کے مزدور بھی اب عالمی منڈی کا حصہ بن چکے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے مزدوروں کی نسبت انتہائی سستے ریٹ پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی اجرتوں میں گراوٹ آ رہی ہے جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ لہٰذا آج بحیثیت مجموعی فری لانسنگ کے نتیجے میں مزدوروں کی اُجرتیں کم ہوئی ہیں۔
مگر اس کا دوسرا پہلو بھی موجود ہے؛ وہ ہے سیاسی و سماجی پہلو۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو فری لانسنگ کا دوہرا کردار سامنے آتا ہے۔ ایک طرف تو فری لانسنگ سے جڑے مزدور جہاں ایک چھت کے نیچے مل کر کام کرنے کی بجائے منتشر ہوئے ہیں اور الگ الگ کام کر رہے ہیں، وہیں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مزدور اتحاد کو بظاہر نقصان ہوا ہے۔ جس کا فائدہ سرمایہ دار اجرتیں کم کر کے اُٹھا رہے ہیں۔ مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج یہ جدید پرولتاریہ انسانی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر عالمی لیبر مارکیٹ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج پاکستان میں بیٹھا فری لانسر امریکہ کی کمپنیوں کا کام کر رہا ہے۔یعنی مزدور کے سماجی حالات اور وہاں پر لیبر قوانین کا اطلاق ایک پسماندہ ملک کے مطابق ہے لیکن اس کی خدمات دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ سماج میں براہ راست حاصل کی جا رہی ہیں۔سرمایہ داری نے اپنے آغاز سے ہی عالمی منڈی کی تشکیل اور محنت کی عالمی سطح پر تقسیم کار کا آغاز کر دیا تھا جس کا تفصیلی جائزہ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں بھی لیا تھا اور اس کے تضادات کو بھی آشکار کر دیا تھا۔ آج فری لانسنگ کی بنیاد میں بھی وہی عمل اور تضادات موجود ہیں صرف ان کی نوعیت تبدیل ہوئی ہے جبکہ عالمی منڈی کے اور عالمی معیشت کے پھیلاؤ نے قومی ریاست کی محدودیت اور متروکیت کو بھی مزید واضح کردیا ہے جو مارکسزم کے ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“ نعرے کی سچائی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے اس عمل میں مزید اضافہ ہو گا اور مزدوروں کی یکجہتی کے لیے آن لائن یا دیگر پلیٹ فارم بھی ابھریں گے جو سرمایہ داروں کے استحصال کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ پہلے ہی ہم امریکہ، برطانیہ اور چین جیسے ممالک میں اس کا عملی مظاہرہ دیکھ چکے ہیں جب گگ اکانومی سے وابستہ مزدور کسی موبائل ایپ کے ذریعے رابطے میں آتے ہیں اور کسی خاص مقام یا دن کا تعین کر کے اپنے حقوق کے لیے احتجاج یا ہڑتال کرتے ہیں۔ مزدوروں کی عالمی یکجہتی کے حوالے سے یہ انتہائی ترقی پسند اقدام ہے جس کے نا صرف مستقبل میں عالمی مزدور تحریک پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر سوشلزم کے پھیلاؤ میں بھی اس کا اہم کردار ہوگا۔
کچھ کیلئے دو وقت کی روٹی، کچھ کیلئے کیرئیر
سرمایہ دارانہ نظام کے اچھے وقتوں میں، جب معاشی اُبھار تھا، تب مڈل کلاس بالخصوص نوجوانوں کو یہ نظر آتا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو ایک کامیاب اور مستقل کیرئیر بنایا جا سکتا ہے۔ اس دور میں بڑی تعداد ڈاکٹر، انجینئر، بینکار وغیرہ بنی اور ایک مستحکم مستقبل بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا عرصہ تھا۔ اس عرصے کے دوران سرمایہ دارانہ نظام میں عالمی سطح پر معاشی ابھار دیکھنے کو ملا۔ یہ اُبھار مختلف اونچ نیچ کے ساتھ 2008ء تک چلا۔ اگرچہ اس عرصے میں بھی بڑے معاشی بحران آئے مثلاً (1973ء کی کساد بازاری) بہر حال متعدد وجوہات، جن میں چین کا عالمی منڈی کیلئے کھل جانا، سوویت یونین کا انہدام، گلوبلائزیشن میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں، کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کا پہیہ چلتا رہا۔ مگر 2008ء کے عالمی معاشی بحران نے ایک معیاری تبدیلی کو جنم دیا۔ 2008ء کے بحران کے بعد بڑے پیمانے پر پیداواری سیکٹر کی بندش اور غیر پیداواری شعبوں جیسے سٹاک مارکیٹ، پراپرٹی کی خرید و فروخت وغیرہ میں سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے کو ملا (اگرچہ یہ عمل 1970ء کی دہائی کے بحران کے بعد سے ہی جاری تھا)۔ اس سب کے نتیجے میں 2008ء میں شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران سے آج تک باہر نہیں نکلا جا سکا، اور اب تو عالمی سطح پر یہ بحران ایک خوفناک حد کو کراس کرتا جا رہا ہے۔ آج عالمی سطح پر مہنگائی اور بیروزگاری میں تیز ترین اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اس بحران میں اب ایک اور بڑا اضافہ ہو چکا ہے، وہ اضافہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے درحقیقت ذرائع پیداوار (Means of Production) اور طرز پیداوار (Mode of Production) کے تضاد میں ایک معیاری جست لگا دی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں سرمایہ دارانہ نظام میں پیداواری صلاحیت کو مزید بڑھا دیا ہے جبکہ دوسری جانب سرمایہ دارانہ منڈی اس پیداوار کی کھپت کیلئے بہت کم پڑ گئی ہے۔ اس عالمی معاشی بحران نے پاکستان جیسی پسماندہ اور قرضوں پر منحصر ریاستوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی لیے آج پاکستان دیوالیہ قرار دیے جانے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس ساری صورت حال سے آج نوجوان نہ صرف گزر رہے ہیں بلکہ کچھ نتائج بھی اخذ کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نتیجہ تو انہوں نے یہ اخذ کر لیا ہے کہ آج پاکستان میں ایک ’مستحکم مستقبل‘ ناممکن ہے۔ لہٰذا جب ایک مستحکم مستقبل ممکن ہی نہیں تو پھر یقیناً یہی سوچ ان کے ذہنوں میں گردش کر رہی ہے کہ کوئی بھی عارضی کام، بشرطیکہ اس سے پیسے آرہے ہوں، پکڑ لو۔ اب چونکہ فری لانسنگ کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے، یعنی وقتی گزارے یا فوری فائدے کی، لہٰذا اس کی طرف نوجوانوں کا جھکاؤ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں فری لانسرز کی مکمل تعداد کے حوالے سے تو کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں البتہ پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد سے زائد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم تک رسائی تو کُل آبادی کے محض دس سے بارہ فیصد کے نصیب میں ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نوجوانوں کی اکثریت فری لانسنگ کا حصہ بن چکی ہے لیکن بہرحال تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کافی بڑی تعداد یا تو اس کا حصہ ہے یا پھر اس کے متعلق سوچ ضرور رہی ہے۔ بالخصوص کورونا وبا کے بعد اس میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان پوری دنیا میں سب سے زیادہ فری لانسرز رکھنے والا چوتھا ملک ہے۔ بیروزگاری کی وجہ سے پاکستانی فری لانسر انتہائی سستے ریٹ پر کام کرتا ہے، لہٰذا باقی دنیا میں اس کی ڈیمانڈ بھی بہت زیادہ ہے۔ فری لانسنگ کا حصہ بننے والوں میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو چند روپے کمانا چاہتے ہیں تا کہ محض زندہ رہا جا سکے۔ جبکہ دوسرے وہ جو فری لانسنگ میں یا اس کے ذریعے اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں۔
اول الذکر اکثریت میں ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو اور کوئی روزگار نہ ہونے یا تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے فری لانسنگ کا حصہ بننے پر مجبور ہیں۔ ان میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو ڈگری کر چکے ہیں اور وہ بھی جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ فری لانسنگ ان کیلئے ویسے ہی ہے جیسے کسی دیہاڑی دار مزدور کیلئے کوئی عارضی کام۔ ان کی اکثریت کو اول تو شدید مقابلہ بازی کی وجہ سے آرڈر ہی نہیں ملتے جبکہ باقی تعداد مختلف سافٹ ویئر ہاؤسز میں اور دوسروں سے آرڈر لے کر (پیسوں کے عوض) کام کرنے والوں کی ہے۔ یہ سب نئے نئے فری لانسنگ کا حصہ بنے ہیں، لہٰذا اپنی پروفائل اور تعلق واسطے میں کمزوری کی وجہ سے خود آرڈر نہیں لے پاتے۔ دوسرا ان کے پاس تیز انٹرنیٹ، جدید اور تیز کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ سمیت دیگر ضروری وسائل بھی موجود نہیں ہیں۔ یہ ان فری لانسرز سے آرڈر لیتے ہیں جو پہلے سے ہی اس کام میں اپنی جگہ اور پیسے بنا چکے ہیں کیونکہ پہلے سے موجود بڑے فری لانسرز اپنی بہتر پروفائل اور تعلق واسطے کی بنیاد پر قدرے آسانی سے آرڈر لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں کئی تو باقاعدہ مختلف بیرونی کمپنیوں کے مستقل کنٹریکٹ بھی لے لیتے ہیں کیونکہ ان کمپنیوں کو بھی اپنے الگ سے مزدور رکھنے کی بجائے یہ سستے پڑتے ہیں۔ ان کنٹریکٹس کو پورا کرنے کیلئے یہ لوگ پھر آگے مزید نئے آنے والے یا کمزور فری لانسرز کو کام پر رکھتے ہیں اور انہیں ماہانہ یا آرڈر کے حساب سے مختلف کام سونپتے ہیں۔ اس طرح وہ درمیان میں اپنا کمیشن بھی وصول کرتے ہیں (یہ کمیشن اچھا خاصہ ہوتا ہے، کئی مواقعوں پر تو یہ باقی تمام فری لانسرز کو دیے جانے والے پیسوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے)۔ لہٰذا اگر غور کیا جائے تو فری لانسرز کی اکثریت وہ ہے جو کہ ایک بے قاعدہ قسم کی تنخواہ پر گزارا کر رہی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ مزدور ہیں۔
اس شعبے میں کامیابی سے کیرئیر بنانے والے کم تعداد میں ہیں۔ ان میں بھی مختلف قسم کے فری لانسرز موجود ہیں۔ کچھ وہ ہیں جنہوں نے فری لانسنگ کے ساتھ ساتھ یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے اپنی الگ سے بھی پروفائل بنائی ہوتی ہے اور ان پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ اپنے مستقل کلائنٹس (بیرونی کمپنیاں وغیرہ) کے کام بھی کر رہے ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی یوٹیوب وغیرہ سے بھی۔ اسی طرح مختلف کورسز بیچ کر بھی پیسے کماتے ہیں۔ جبکہ دوسرے وہ ہیں جن کا مکمل انحصار فری لانسنگ پر ہی ہے (سافٹ ویئر ہاؤسز یا ورکنگ سپیسز انہوں نے ہی بنائی ہوئی ہوتی ہیں)۔ یہ دونوں ہی بیرونی یا اندرونی کمپنیوں، یا مختلف انفرادی کلائنٹس سے آرڈر لیتے ہیں اور آگے مختلف چھوٹے فری لانسرز کو تنخواہ کے طور پر دے دیتے ہیں۔ خواہ ماہانہ بنیادوں پر پیسے دے کر کام کرایا جائے یا پھر آرڈر کے حساب سے، دونوں ہی صورتوں میں یہ تنخواہ ہی کہلائے گی۔ یہ بڑے فری لانسرز یہاں مڈل مین کا کام کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ٹھیکیدار ہیں۔ البتہ ان ٹھیکیداروں کے پاس مزدوروں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے غنڈے نہیں ہوتے (موجودہ بیروزگاری کے طوفان میں انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں)۔ ان بڑے فری لانسرز میں سے وہ جنہوں نے نئی نئی ٹھیکیداری شروع کی ہوتی ہے وہ خود بھی کام کرتے ہیں۔ یعنی کہ یہ فری لانسنگ کی دنیا کے نو دولتیے ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ تمام بڑے فری لانسرز نہ تو مزدور ہیں اور نہ ہی سرمایہ دار، بلکہ انہیں پیٹی بوژوازی کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ ایسی پیٹی بورژوازی جن کے سروں پر مسلسل آرڈر نہ ملنے اور پروفائل خراب ہونے کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں کاروبار چوپٹ ہونے کی تلوار۔ چونکہ فری لانسنگ میں مستقل بنیادوں پر کام ملنے کی گارنٹی نہیں ہوتی لہٰذا کبھی کبھار ان بڑے فری لانسرز کا کام ٹھیک ٹھاک چلتا ہے تو کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب آرڈر نہیں ملتے۔ بعد الذکر صورت حال کا زیادہ تر سامنا نو دولتی فری لانسرز کو ہی کرنا پڑتا ہے۔
بدترین استحصال
اوپر بیان کی گئی فری لانسرز کی مختلف پرتوں سے یہ واضح ہے کہ فری لانسنگ میں بھی محنت کا استحصال موجود ہے۔ یہ استحصال باقی شعبوں کی نسبت قدرے پیچیدہ اور کئی حوالوں سے انتہائی شدید تر بھی ہے۔
پیچیدہ ایسے کہ اس میں براہ راست ایک طرف سرمایہ دار اور دوسری طرف مزدور موجود نہیں ہیں بلکہ بعض صورتوں میں کوئی فرد پیسے دے کر اپنا کام کرا رہا ہے تو بعض میں کوئی کمپنی (سرمایہ دار)۔ اسی طرح فرد یا کمپنی اور فری لانسر کے درمیان ایک فری لانسنگ پلیٹ فارم موجود ہے جو اپنا کمیشن بھی وصول کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے فری لانسرز پھر آگے مزید چھوٹے فری لانسرز کو آرڈر دے کر ان سے الگ اپنا کمیشن وصول کر رہے ہیں۔ بہر حال اس گنجلک جال میں آخر کار اصل فائدہ بڑی کمپنیوں اور فری لانسنگ پلیٹ فارمز کو ہی ہوتا ہے۔ بڑی مچھلی بالآخر چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔
یہ استحصال باقی شعبوں کی نسبت زیادہ شدید ہے۔ کیونکہ فری لانسرز کے اوقات کار کا تعین نہیں ہوتا، لیبر قوانین اور یونین نہیں ہوتی، مستقل کام کی گارنٹی نہیں ہوتی، ہیلتھ انشورنس نہیں ہوتی، بیماری کی حالت میں چھٹی نہیں ملتی، پنشن نہیں ملتی، مستقل طے شدہ آمدن نہیں ہوتی، حتیٰ کہ کام کی جگہ کا کرایہ، کام کرنے کے آلات (کمپیوٹر وغیرہ)، مرمت، بجلی کے بل وغیرہ کا خرچہ بھی خود اُٹھانا پڑتا ہے۔ فری لانسنگ کے بارے میں سرمایہ دارانہ دانشور و معیشت دانوں کا یہ کہنا ہے کہ اس میں تو ہر فری لانسر مکمل طور پر اپنے فیصلوں اور کام میں آزاد ہے۔ نہ وہ وقت کا پابند ہے، نہ کام کی جگہ کا، نہ کسی سرمایہ دار کا، حتیٰ کہ نہ ہی کسی ایک کام تک محدود ہے۔ یعنی کہ وہ مزدور ہے ہی نہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر اسے درج بالا سہولیات کیونکر فراہم کی جائیں؟ اوپر ہم نے وضاحت کی ہے کہ اس گنجلک طریقہ پیداوار میں چند بڑے فری لانسرز کو چھوڑ کر کافی بڑی تعداد براہ راست مزدور ہے۔ اگر کوئی چھوٹا فری لانسر کسی بڑے فری لانسر سے آرڈر لینے کی بجائے خود آرڈر لے رہا ہے تو اسے اگرچہ مزدور نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ اپنا سیٹ اپ لگا کر اور خود کام کر کے آمدن حاصل کر رہا ہے، اور اسے چھوٹا کاروباری یا آزاد ہنر مند کہنا زیادہ بہتر ہوگا جس کی زندگی بھی مزدور جیسی ہی ہوتی ہے لیکن وہ آنے والے عرصے میں خود ٹھیکیدار بننے کا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے۔
زیادہ تر فری لانسنگ کا حصہ بننے والے نئے لوگوں کا شمار ان میں ہوتا ہے۔ مگر ان نئے لوگوں کے شامل ہونے سے فری لانسرز کے مابین مقابلہ مزید بڑھ جاتا ہے اور زیادہ ہنر مند ہی اس میں بچ پاتے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف نئے لوگوں کی شمولیت ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف کافی سارے فری لانسرز خود کام نہ ڈھونڈ پانے یا کم آرڈر ملنے کی وجہ سے کسی بڑے فری لانسر سے آرڈر لینے پر مجبور بھی ہوتے جاتے ہیں۔ اسی طرح فری لانسرز کے مابین مقابلہ بازی سے جہاں کچھ چھوٹے فری لانسرز بڑے فری لانسرز کا سہارا لینے لگتے ہیں تو وہیں دوسری جانب فری لانسنگ مارکیٹ میں ریٹ بھی کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سب کا بھی بالآخر فائدہ بڑے سرمایہ داروں اور فری لانسنگ پلیٹ فارمز کو ہی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کارل مارکس نے آج سے 156 سال پہلے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”سرمایہ“ میں، ایسی محنت جس کی اُجرت وقت کے حساب سے نہیں بلکہ اشیا کے حساب سے طے کی جائے، کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ مارکس ایسی اُجرت کو ”اُجرت – فی شے (Piecemeal Wage) کہتا ہے۔ مارکس نے یہ وضاحت کی کہ اُجرت کے ایسے طریقہ کار (اُجرت – فی شے) سے سرمایہ داروں کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ مزدوروں کو نقصان۔ مارکس لکھتا ہے کہ:
”اُجرت فی شے میں یقیناً مزدور کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوت محنت کو زیادہ شدت کے ساتھ استعمال کرے؛ اس سے سرمایہ دار کو محنت کی عمومی شدت (رفتار) میں اضافہ کرنے کا ایک آسان موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ مزدور کیلئے یومیہ کام کے اوقات کو مزید بڑھانا فائدہ مند ہو جاتا ہے، کیونکہ اس طرح اس کی یومیہ اور ہفتہ وار اُجرت میں اضافہ ہوتا ہے۔“
اس طرح زیادہ ہنر مند یا صحت مند مزدور یومیہ بنیادوں پر اپنے مدمقابل دوسرے مزدوروں کی نسبت زیادہ کما لیتا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف مزدوروں میں مقابلہ بڑھ جاتا ہے وہیں دوسری جانب ان کے استحصال میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ مارکس آگے چل کر لکھتا ہے کہ:
”اول، صنعت کی کسی ایک برانچ میں مزدوروں کے انفرادی فرق، بحیثیت مجموعی ورکشاپ میں ایک دوسرے کو برابر کر دیتے ہیں، کیونکہ دیے گئے ایک مخصوص وقت میں کی گئی اوسط پیداوار کی کل اُجرت بھی اوسطاً ہی مزدوروں کو دی جاتی ہے۔ دوم، اُجرتوں اور قدر زائد میں فرق کے تناسب میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کیونکہ ہر ایک مزدور کی جانب سے انفرادی طور پر کی گئی زائد محنت کا مجموعی حجم اسے ملنے والی اُجرت کے برابر ہی ہوتا ہے۔ مگر اُجرت – فی شے انفرادیت کو جو ایک بڑا دائرہ کار فراہم کرتی ہے وہ جہاں ایک طرف انفرادیت کو مزید تقویت دیتا ہے، اور اس کے ساتھ مزدوروں کو آزادی، خود مختاری اور خود اپنے فیصلے کرنے کا احساس بھی فراہم کرتا ہے؛ وہیں دوسری جانب ان میں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کو بھی پیدا کرتا ہے۔ اس طرح اُجرت – فی شے میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ جہاں یہ انفرادی سطح پر اُجرت (ایک مزدور کی اُجرت) کو اوسط اُجرت سے بڑھا دیتا ہے وہیں اسی کے نتیجے میں اوسط اُجرت کو کم بھی کر دیتا ہے۔“
اگرچہ فری لانسنگ کئی حوالوں سے روایتی پیداواری طریقہ کار سے مختلف ہے مگر آخری تجزیے میں یہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کی ہی پابند ہے۔ سرمایہ دارانہ دانشوروں و معیشت دانوں کے ”آزادانہ کام“ کے تمام تر پراپیگنڈے کے برعکس ہمیں فری لانسنگ میں مزدور ایک دوسرے سے مقابلے میں نظر آتے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ مقابلہ بڑی تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی کے نتیجے میں فری لانسرز میں بھی اب ایک بہت بڑی تعداد ایسی وجود میں آچکی ہے جس نے مختلف فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر اپنی پروفائلز تو بنائی ہوئی ہیں مگر انہیں آرڈر نہیں مل رہے۔ یعنی کہ اب فری لانسرز کی بھی بڑی تعداد ’بیروزگار‘ ہی بیٹھی ہے۔ جس بیروزگاری سے بچنے کیلئے انہوں نے فری لانسنگ کی طرف رُخ کیا تھا، اُس نے انہیں یہاں بھی دبوچ لیا ہے۔ اب فری لانسنگ کے شعبے کو بھی معیشت کے باقی تمام شعبوں کی طرح زائد پیداوار کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج فری لانسنگ میں ہمیں کم و بیش وہی سب کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جس کی وضاحت کارل مارکس نے 156 سال پہلے کی تھی۔ یعنی کہ اُجرت – فی شے کی وجہ سے مزدوروں کے مابین مقابلہ بازی میں اضافہ، اوسط اُجرت کا کم ہوتے جانا (آرڈرز کے ریٹ کم ہوتے جانا)، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری ان تمام عوامل میں مزید شدت لاتی جا رہی ہے۔ اس عمل میں خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں ہونے والی ترقی نے مزید شدت لائی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کی مدد سے گرافک ڈیزائننگ، وڈیو ایڈیٹنگ، کھاتہ داری سمیت تمام کام محض کمپیوٹر پر کمانڈ (Prompt) ٹائپ کر کے انتہائی کم وقت (ایک منٹ سے بھی کم) میں لیے جا سکتے ہیں۔ یعنی کہ اگر آپ کو کوئی لوگو (Logo) ڈیزائن کروانا ہے تو اے آئی کو اپنی مرضی کے لوگو کی تفصیل بتائیں اور وہ آپ کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں تیار کر دے گا۔ اسی طرح باقی کام بھی با آسانی کروائے جا سکتے ہیں۔ مگر بہتر کوالٹی اور زیادہ تعداد میں کام کروانے کیلئے ان اے آئیز کو خریدنا پڑتا ہے۔ اس طرح چھوٹے موٹے فری لانسرز کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ اے آئی کی ترقی کی وجہ سے فری لانسنگ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
پڑھے لکھے بیروزگار، پسماندہ نظام تعلیم اور فری لانسنگ
انگریز سامراج اور کانگریس و مسلم لیگ کے مقامی حکمرانوں کی ملی بھگت سے برصغیر کے خونی بٹوارے کے بعد پاکستان وجود میں آیا۔ نام نہاد آزادی کے بعد یہاں پر تمام تر ریاست اور نظام کالونیل طرز پر ہی آگے بڑھتا رہا۔ اس کا ایک واضح اظہار یہاں کے نظام تعلیم میں بھی ہوا جہاں غلامانہ سوچ کو پروان چڑھانے کا عمل جاری رہا اور کمپراڈور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی طالب علموں کی تربیت جاری رہی۔ اس طرح حکمرانی قائم رکھنے کیلئے یہاں کے حکمرانوں کی جانب سے جھوٹی تاریخ لکھی گئی اور ایک ایسا تعلیمی نصاب تخلیق کیا گیا جو تنقیدی فکر کی بجائے تابعداری سکھائے اور پڑھانے کا انداز ایسا جو تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی بجائے طوطے کی طرح رٹا مارنا سکھائے۔ اس سب میں بالخصوص ضیاء الباطل کے دور کے بعد معیاری اضافہ ہوا۔ پاکستانی حکمرانوں کی اس ثقافتی پسماندگی کی بنیادیں ہمیں ان کی معاشی پسماندگی میں ملتی ہیں۔ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنے آغاز سے ہی انتہائی پسماندہ تھا اور عالمی سرمایہ داروں کا مقابلہ کرنا تو دور مقابلہ کرنے کی سوچ تک سے عاری تھا۔ اس کی وجہ اس کی تاریخی پسماندگی تھی، یعنی کہ وہ عالمی منڈی میں اتنی تاخیر سے آیا تھا کہ اب عالمی سطح پر بڑی بڑی سامراجی طاقتوں میں تقسیم ہو چکی منڈی میں اس کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ تکنیکی اعتبار سے بھی یہ دیگر سرمایہ دارانہ طاقتوں کے مقابلے میں بہت پسماندہ تھا۔ اسی طرح اپنے آغاز سے ہی پاکستانی حکمران سرد جنگ کے دور میں امریکی کیمپ میں جا بیٹھے اور سامراجی قرضوں پر ہی منحصر ہو کر رہ گئے۔ ایوب خان کے دور میں (سامراجی سرمائے سے ہی) کسی حد تک صنعتکاری کی کوشش کی گئی مگر اس دوران مزدوروں کا شدید ترین استحصال کر کے چند سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے میں بے تحاشہ اضافہ کر لیا۔ تب یہ بات زبان زد عام تھی کہ ملک کی دولت پر امیر ترین ”بائیس خاندانوں“ کا قبضہ ہے، جبکہ دوسری جانب محنت کش عوام کی اکثریت سخت معاشی مشکلات کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور تھی۔ ایسی صورت حال نے 1968-69ء میں پاکستان میں ایک بہت بڑے انقلابی دھماکے کوجنم دیا۔ اس انقلابی تحریک نے ایوب خان اور یحییٰ خان جیسے آمروں کی حکمرانی کا خاتمہ کر ڈالا۔ بہر حال ایک ایسی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں، جو پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام رکھتی ہو، ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پاکستان سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا سنہری موقع گنوا دیا گیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے مختلف جمہوری ادوار بھی آئے اور مارشل لاء بھی لگے، بہر حال ریاستی سطح پر صنعتکاری کو فروغ دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی پاکستانی سرمایہ داروں کی یہ صلاحیت تھی کہ آزادانہ بنیادوں پر کچھ کر سکتے۔ لہٰذا پاکستان درآمدی ملک بن کر ہی رہ گیا۔ مگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کرنے کیلئے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بہر حال پاکستانی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہی رہا۔ مگر یہاں کا حکمران طبقہ اتنا خصی تھا کہ زراعت کو بھی جدید بنیادوں پر استوار نہ کر سکا۔ اگرچہ زراعت کی بڑھوتری کا بھی کافی حد تک انحصار صنعتی ترقی کے ساتھ ہی ہونا تھا، لیکن زراعت میں بھی ترقی کی جتنی گنجائش موجود تھی اسے حاصل کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، بلکہ الٹا زراعت کو بھی حکمرانوں کی کرپشن، زخیرہ اندوزی اور غیر سنجیدگی و نااہلی کی نذر کر دیا گیا۔ مثلاً آج تک نہ آبپاشی کا کوئی جدید نظام متعارف کرایا جا سکا، نہ نہری نظام اپ گریڈ کیا جا سکا، وغیرہ۔ اب چونکہ ایک طرف کبھی بھی ریاستی سطح پر صنعتکاری کی سنجیدہ کوشش کرنا تو دور ایسی سوچ تک موجود نہیں تھی اور دوسری جانب ایک رجعتی نصاب و ریاستی تعلیمی پالیسی موجود تھی، لہٰذا سرمایہ دارانہ منڈی کے جدید تقاضوں کے مطابق کبھی بھی تعلیمی نظام کو ڈھالا ہی نہیں گیا۔ اگرچہ چھوٹے پیمانے پر یونیورسٹیوں میں ایسے پروگرام اور شعبہ جات موجود تھے جو نیچرل سائنسز اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کی مناسبت سے کام کر رہے تھے، یعنی ان کے لیے ہنر مند مزدور تخلیق کر رہے تھے۔ مگر جس بڑے پیمانے پر بالخصوص مینوفیکچرنگ سیکٹر کیلئے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی ضرورت تھی، اس حوالے سے تعلیمی نظام بہت پسماندہ تھا۔ جب تک ملکی و عالمی سطح پر کوئی بڑا معاشی بحران شروع نہیں ہوا تب تک تو پاکستان میں بھی یہ تمام تر تضادات چھپے ہی رہے، مگر آج جب عالمی معاشی بحران تیز ہوتا جا رہا ہے اور پاکستانی معیشت بھی تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے تو یہ تمام تضادات پھٹ کر شدت کے ساتھ اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ مگر امریکی سامراج کے زوال کے نتیجے میں عالمی تعلقات میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور اب وہاں سے پاکستانی حکمرانوں کو ڈالر آنا بند ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف چین یا کسی اور سامراجی ملک سے بھی ویسی امداد کسی صورت نہیں مل سکتی جیسی امریکہ جنوبی ایشیا میں اپنے سامراجی مفادات کے تحت پاکستانی حکمرانوں کو دیتا رہا ہے۔ لہٰذا اب ملک دیوالیہ قرار دیے جانے کے قریب کھڑا ہے اور کسی بھی وقت دیوالیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل رہی ہے، اور مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے نوکریوں کی تلاش میں ہیں مگر نوکری نہیں مل رہی۔ یعنی کہ منڈی میں ان کیلئے روزگار موجود ہی نہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ”اس وقت 31 فیصد پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار ہیں جن میں 51 فیصد لڑکیاں ہیں۔“ اسی رپورٹ میں مزید یہ بتایا گیا کہ: ”نیچرل سائنسز میں داخلہ لینے والوں کی تعداد مارکیٹ میں ڈیمانڈ سے زیادہ ہے۔ گریجویٹ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 2018-19ء میں 14.9 فیصد سے 2020-21ء میں 16.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ شعبہ جاتی حوالے سے پچھلے دو سالوں میں گریجویٹ ہونے والوں میں بیروزگاری کی شرح یہ بتائی گئی ہے: ”انجینئرز (11 فیصد سے بڑھ کر 23.5 فیصد ہوئی)، کمپیوٹر سائنس (14.2 فیصد سے بڑھ کر 22.6 فیصد ہوئی)، ایگری کلچر سائنسز (11.4 فیصد سے بڑھ کر 29.4 فیصد)، میڈیکل (6.4 فیصد سے بڑھ کر 10.8 فیصد)۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار ایک سال پرانے ہیں اور حالیہ شدید ترین مہنگائی، کاروباری سرگرمیوں میں کمی اور دیگر وجوہات جیسے بڑی تعداد میں طلبہ کا فارغ التحصیل ہونا وغیرہ، کی وجہ سے ان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بہر حال ان اعداد و شمار سے ایک واضح جھلک دیکھنے کو ملتی ہے کہ مینوفیکچرنگ و خدمات کے شعبوں اور نظام تعلیم میں کتنی بڑی خلیج موجود ہے۔
مگر اس مسئلہ کے بھی دو پہلو ہیں؛ ایک صنعتی و تکنیکی پسماندگی، جبکہ دوسرا تعلیمی نظام کی پسماندگی۔ اول الذکر میں نیا روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں جبکہ بعد الذکر میں ایسے ہنر مند مزدور پیدا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں جو منڈی کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں۔ یعنی کہ جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں نوکریاں ختم ہو رہی ہیں تو وہیں دوسری جانب بڑی تعداد میں ایسے نوجوان لیبر مارکیٹ میں آرہے ہیں جن کے پاس مطلوبہ ہنر اور عملی تجربہ ہی نہیں ہے۔ سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک رٹا سسٹم کی وجہ سے جب نوجوان فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو لیبر مارکیٹ میں انہیں عملی طور پر کام کا بالکل علم نہیں ہوتا کیونکہ انہیں تعلیمی اداروں میں تو محض نمبروں اور ڈگری کیلئے پڑھایا گیا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بھی بہت بڑی تعداد ڈگریاں اٹھائے ذلیل ہو رہی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ دونوں ایک دوسرے کی تباہی میں تیزی لاتے جا رہے ہیں، معاشی بحران میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر بھوک، ننگ اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر کسی نوجوان کی خوش قسمتی سے نوکری لگ بھی جاتی ہے تو اسے شدید کام کر کے انتہائی کم تنخواہ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ بلند ترین افراط زر کی موجودہ صورت حال میں تو ایک لاکھ روپے کی نوکری سے بھی گھر نہیں چلتا۔ جبکہ پاکستان میں تو اس وقت انجینئرنگ اور میڈیکل جیسے شعبے جنہیں ماضی میں ایک کامیاب مستقبل کی کنجی قرار دیا جاتا تھا، میں برسر روزگار ہونے کے باوجود بھی گزارا مشکل ہو چکا ہے۔ دوسری طرف دھڑا دھڑ نئے نوجوان منڈی میں آتے جا رہے ہیں جبکہ ان کی کھپت کی گنجائش پہلے سے بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس معاشی گھن چکر میں آج ہاتھ پیر مارتے نوجوان فری لانسنگ کا رُخ کر رہے ہیں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام جو پہلے ہی روایتی پیداواری تقاضوں کی نسبت سے انتہائی پسماندہ تھا، اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں لیبر مارکیٹ سے تو تقریباً مکمل طور پر بیگانہ ہو چکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق تعلیم و تربیت کیلئے جس قدر جدید تعلیمی انفراسٹرکچر، نصاب اور اساتذہ درکار ہیں، وہ موجودہ نظام تعلیم میں ممکن ہی نہیں۔ کورونا وبا کے بعد خاص طور پر آن لائن تعلیم نے روایتی نظام تعلیم کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) جیسی آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے اس کھوکھلے اور منہدم ہوتے ہوئے نظام تعلیم کو کھائی کی جانب ایک اور دھکا لگا دیا ہے۔ اب ChatGPT جیسی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کسی بھی عنوان پر اسائنمنٹ سے لے کر مکمل امتحانی پرچے تیار کیے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی عنوان پر تھیسز لکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح موجودہ پسماندہ ترین اور خستہ حال تعلیمی اداروں کی تو نام کی حد تک ضرورت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مگر دوسری طرف آج بھی پاکستان کی تعلیمی پالیسی 80 سال کے وہ رجعتی ترین بزرگ یا وہ رجعتی بیوروکریٹ بنا رہے ہیں جنہیں موجودہ تکنیکی ترقی بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معیشت اور سماج پر اثرات کا صفر علم ہے۔ جو تھوڑا بہت جدید معاشی تقاضوں سے ہم آہنگ نوجوان تھے وہ ویسے ہی ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے حکمرانوں کے پاس جہاں تعلیمی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کیلئے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے وہیں دوسری جانب وہ ان تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ سے خوفزدہ بھی ہیں۔ یہ حکمران چاہتے ہی نہیں کہ تعلیمی نظام کو بہتر کیا جائے۔ کیونکہ اس طرح انہیں تعلیمی اداروں میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھنے کا موقع دینا پڑے گا جو کہ ان کی حکمرانی کیلئے موت ہے۔ اسی لیے تو تعلیمی بجٹ کو کم ترین سطح پر رکھا ہوا ہے اور طلبہ یونین تک پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی حکمرانوں کو اس بات پر مکمل یقین ہے کہ پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔ اسی لیے سب نے بیرون ممالک میں اپنی جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں اور اپنی اولادوں کو تو پہلے ہی باہر بھیج چکے ہیں۔ لہٰذا ان سے یہ امید رکھنا کہ یہ تعلیمی نظام یا کسی بھی اور شعبے کو بہتر بنانے کی کوئی سنجیدہ کاوش کریں گے، انتہا درجے کی بیوقوفی ہوگی۔ حتیٰ کہ جتنے بھی نوجوان آج فری لانسنگ کر رہے ہیں، یہ سب یوٹیوب سے سیکھ کر کر رہے ہیں۔
اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستانی حکمران روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں: 1) عالمی و ملکی معاشی بحران (جو کہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے؛ یعنی کہ زائد پیداوار کا بحران) اور پاکستانی بورژوازی کا تاریخی خصی پن 2) مصنوعی طور پر گھڑے گئے ”نظریہ پاکستان“ کے منہدم ہو جانے کا خوف (جس سے اس مصنوعی ریاست کے وجود کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے) اور موجودہ صورت حال میں بڑی طلبہ تحریک و مزدور تحریک کا خوف۔
خوفزدہ حکمران، فری لانسنگ اور طلبہ سیاست
1984ء میں ضیاء الباطل کی جانب سے طلبہ یونین پر پابندی لگنے کے بعد سے پچھلی تین دہائیوں میں ملک بھر میں کوئی بڑی طلبہ تحریک دیکھنے کو نہیں ملی۔ بہر حال یہ سلسلہ مختلف اہم واقعات سے ٹوٹتا بھی رہا کورونا وبا سے پہلے مشال خان کے بہیمانہ قتل کے بعدبھی ملک گیر سطح پر احتجاج دیکھنے کو ملے۔ اسی طرح انٹر کے طلبہ کے احتجاجوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلبہ کے متعدد مسائل کے خلاف احتجاج اور دھرنے دیکھنے کو ملے۔ البتہ یہ تمام احتجاج اور دھرنے کسی طلبہ تنظیم نے منظم نہیں کیے بلکہ طلبہ کی جانب سے خود رو انداز میں کیے گئے۔ کورونا سے پہلے یہ سلسلہ کافی تیزی سے بڑھ رہا تھا مگر کورونا وبا کے دوران تمام تعلیمی ادارے بند ہو گئے اور آن لائن تعلیم کا آغاز ہوا۔ اس عرصے میں آن لائن تعلیم کے انتہائی دقیا نوسی انفراسٹرکچر اور طریقہ کار کے خلاف طلبہ کے احتجاج دیکھنے کو ملے۔ بہر حال کورونا وبا سے پہلے تعلیمی اداروں کے اندر جس تیزی سے طلبہ سیاسی عمل کا حصہ بن رہے تھے اس میں ایک وقتی تعطل ضرور آیا۔ بہر حال کورونا وبا کے بعد جب تعلیمی ادارے کھلے تو ساتھ ہی سرکاری و پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے طلبہ کی جانب سے آن لائن امتحانات کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگئے۔ لاہور سمیت کئی شہروں میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر مقدمے کیے گئے، ان پر بہیمانہ ریاستی جبر کیا گیا اور انہیں گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد جب سے تعلیمی ادارے دوبارہ کھلے تو حکمرانوں نے یہ سبق سیکھ لیا کہ اب مزید انہیں اس طرح سے نہیں چلایا جا سکتا۔ ایک بڑی طلبہ تحریک کے خوف سے یہ پالیسی بنائی گئی کہ کچھ عرصے کیلئے تعلیمی ادارے کھولو، کچھ دن بعد پھر مختلف لسانی بنیادوں پر قائم کونسلوں اور جمعیت جیسے اپنے پالتو غنڈوں کے درمیان لڑائی کرواؤ یا پھر لڑائی کو مزید ہوا دو۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں مسلسل خوف کی فضا قائم رکھو۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد تعلیمی اداروں کو دوبارہ بند کر دو۔ اسی طرح اُس تھوڑے سے عرصے میں جب تعلیمی ادارے کھلے ہوں تو اسائنمنٹس، مڈز، فائنل امتحان وغیرہ کا پریشر، بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے کا پریشر سمیت کئی اور ہتھکنڈوں سے طلبہ کو دبایا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک بیروزگار تاریک مستقبل کا خوف اور شدید مہنگائی تو ویسے ہی ان کے سامنے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج طلبہ، خاص طور پر سرکاری اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی بہت بڑی تعداد تعلیم کے ساتھ کوئی چھوٹی موٹی نوکری یا فری لانسنگ بھی کر رہی ہے۔ اکثریتی نوکریاں انتہائی کم اُجرت والی ہیں، اگر چند شعبے، جیسے کال سنٹرز، میں 50، 60 ہزار روپے یا حتیٰ کہ ایک لاکھ روپے کی نوکری مل بھی جاتی ہے تو اس میں شدید ترین استحصال بھی ہوتا ہے۔ ان میں سارا سارا دن بغیر سانس لیے کام کرنا پڑتا ہے اور کام ختم ہونے کے بعد انسان کے پاس بس سونے کے علاوہ اور چارہ نہیں ہوتا۔ اس طرح اس کی سماجی زندگی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف فری لانسنگ ہے۔ فری لانسنگ دیگر نوکریوں سے زیادہ خوفناک ہے۔ فری لانسنگ کرنے والے طلبہ دن رات اسی میں لگے رہتے ہیں کیونکہ فری لانسنگ کے ذریعے اگر چار پیسے کمانے ہیں تو پھر اسے ٹھیک ٹھاک وقت دینا پڑتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بھی وضاحت کی گئی ہے کہ فری لانسنگ میں کام کے اوقات کار کا تعین نہیں ہوتا، اور اب مقابلہ بازی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ وقت لگا کر ہی آرڈر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ نوجوان جو قدرے بہتر پیسے کما بھی لیتے ہیں تو یقینا پھر وہ اپنا لائف سٹائل بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر آرڈر ملنے کے حوالے سے غیر یقینی پن انہیں فری لانسنگ کو مزید وقت دینے پر مجبور کرتا ہے۔ فری لانسنگ سے جڑے ایسے کئی نوجوان ہیں جو چوبیس گھنٹوں میں سے محضچند گھنٹے کی نیند کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ بعض فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر کسی بھی وقت آرڈر آ سکتا ہے اور اگر آپ نے فوری جواب نہ دیا تو وہ آرڈر کسی اور کے پاس بھی جا سکتا ہے، اور آپ کی پروفائل خراب ہو سکتی ہے۔ آغاز میں تو فری لانسنگ باقی نوکریوں کی نسبت کافی آزادانہ محسوس ہوتی ہے اور انسان کو لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کر رہا ہے اور اسے کوئی بھی حکم دینے والا نہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اوپر بیان کیا گیا گھن چکر فری لانسنگ کے نو دولتیوں کیلئے ایک خوفناک روٹین بنتا چلا جاتا ہے۔ اب وہ سماج سے بھی کٹ کر رہ جاتے ہیں اور اپنی محنت سے بھی بیگانہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس بیگانگی کے متعلق کارل مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ:
”محنت کی تقسیم اور مشینری کے شدید ترین استعمال کی وجہ سے پرولتاریہ کی محنت اپنی تمام تر اپنی انفرادی خصوصیت کھو بیٹھی ہے، اور نتیجتاً مزدور کیلئے اپنے کام کے حوالے سے تمام تر لطف بھی۔ وہ مشین کا ایک پرزہ بن جاتا ہے، اور اب اس سے محض ایک ہی طرح کا کام، ایسا کام جو بار بار کر کے با آسانی سیکھ لیا گیا ہو، درکار ہوتا ہے۔لہٰذا مزدور کو دوبارہ کام پر لانے کیلئے درکار خرچے کو اس سطح تک لے آیا جاتا ہے کہ اب وہ بس خود زندہ رہ سکے اور اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے (نئے مزدور پیدا کر سکے)۔ مگر ایک شے کی قیمت، اور لہٰذا محنت کی قیمت بھی، اپنی پیداوار پر آنے والے خرچے کے ہی برابر ہوتی ہے۔ چنانچہ جوں جوں کام کا اکتاہٹ پن بڑھتا جاتا ہے، اسی تناسب سے اُجرت کم ہوتی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، جس تناسب سے مشینری اور محنت کی تقسیم بڑھتی جاتی ہے، اسی تناسب سے کام کا بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے، خواہ یہ کام کے اوقات کار بڑھنے سے ہو، دیے گئے مخصوص دورانیے میں زیادہ کام لینے کی صورت میں ہو یا پھر مشینری کی رفتار تیز ہونے کی صورت میں ہو۔“
بہر حال فری لانسنگ سے منسلک طلبہ کی اکثریت ان کی ہے جو فری لانسنگ کے تقاضوں پر پورا اترتے ہیں یعنی کہ ان کے پاس لیپ ٹاپ وغیرہ موجود ہیں، اور یا تو وہ کام جانتے ہیں یا پھر کم از کم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ان کی تعداد ابھی بھی طلبہ کی کل تعداد کی نسبت بہت کم ہے۔ یعنی کہ اکثریتی طلبہ فی الحال فری لانسنگ کا حصہ نہیں ہیں۔ مگر جو طلبہ فری لانسنگ کا حصہ نہیں ہیں وہ یا تو چھوٹی موٹی نوکریاں کر رہے ہیں، یا کسی نوکری کی تلاش میں ہیں، یا پھر فری لانسنگ کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ایسی تعداد بہت کم ہے جو محض گھر سے آنے والے پیسوں پر ہی چل رہی ہو۔ ایسی صورت حال نے وقتی طور پر جہاں طلبہ تحریک کو تعطل کا شکار کیا ہے وہیں طلبہ کو بھی مزدوروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں آج مجموعی طور پر عملی سیاست میں طلبہ کی شمولیت پہلے کی نسبت بہت کم نظر آرہی ہے۔ مگر دوسری طرف اس کے بالکل اُلٹ، طلبہ کی اکثریت آج پچھلی تین دہائیوں میں سب سے زیادہ سیاسی بھی ہو چکی ہے گوکہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی حمایت بھی نہیں کرتی۔ آج کیمپس میں ہر کینٹین پر جہاں امتحانات اور اسائنمنٹس کی بحثیں ہو رہی ہیں تو وہیں ساتھ ساتھ ملکی و عالمی سیاست بھی زیر بحث آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف میمز (Memes) میں تمام حکمرانوں کا مذاق اڑایا جانا اسی سیاسی عمل کا ہی حصہ ہے۔ یہ متضاد کیفیت در حقیقت موجودہ عہد کی عکاسی ہے جو تضادات سے بھرپور اور تیز ترین تبدیلیوں کا عہد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کے نتیجے میں آج عالمی سطح پر اصلاحات کی گنجائش ہی ختم ہوجانے کی وجہ سے ایک مستقل کامیاب کیرئیر بن ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا آج طلبہ کے ذہنوں میں بھی ایسا کوئی کیرئیر بنانے کی سوچ موجود نہیں کیونکہ اب وہ یہ تلخ حقیقت جان رہے ہیں کہ یہ بن ہی نہیں سکتا۔
مگر یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ اگر کیرئیر بنانے کی خواہش موجود نہیں تو پھر طلبہ فری لانسنگ اور نوکری کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ جس طرح اوپر وضاحت کی گئی ہے کہ فری لانسنگ کا حصہ بننے والے اکثریتی نوجوان تو محض زندہ رہنے کیلئے اس کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ کیرئراسٹ سوچ نہیں بلکہ گزارا کرنے اور زندہ رہنے کی سوچ ہے۔ اسی طرح ہی ’فی الحال‘ بڑے پیمانے پر عملی سیاست کا حصہ نہ ہونا بھی طلبہ کے غیر سیاسی ہونے کی نشانی نہیں بلکہ اوپر بیان کی گئی وجوہات (کورونا وبا کے بعد تعلیمی اداروں کی بے ضابطگی، کیمپسز میں حکمرانوں کی جانب سے لڑائی جھگڑے کرانے کی طلبہ دشمن پالیسیاں، بیروزگاری اور تاریک مستقبل کا خوف، مہنگائی، طلبہ یونین پر پابندی) کا نتیجہ ہے۔ اور یاد رہے کہ موجود معاشی بحران سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کا بد ترین بحران ہے اور موجودہ نسل کیلئے بھی پہلے کورونا اور اب ایسا بحران جس کے نتیجے میں مستقبل میں کیرئیر بن ہی نہ سکتا ہو، ایک بہت بڑا شاک (Shock) ہے۔ اس سے پہلے والی نسل کے سامنے ایک جانا پہچانا رستہ ہوتا تھا کہ ڈگری حاصل کرو اور پھر نوکری کرو۔ یہ صورت حال کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کرنے کے باوجود بھی روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، صرف موجودہ نسل جسے جنریشن زی (Gen Z) کہا جاتا ہے اور نئی پروان چڑھ رہی نسل جو جنریشن الفا (Gen Alpha) کے نام سے مشہور ہے، کے سامنے ہی آئی ہے۔ یہ ایک انتہائی خوفناک صورت حال ہے۔ اس میں ایک معیاری اضافہ کورونا وبا کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ مگر یہ ایک وقتی تعطل ہے جو جلد ہی ٹوٹے گا۔ سطح کے اوپر دکھنے والا تمام تر سکوت در حقیقت اپنے اندر شدید ترین غم و غصے کو لیے ہوئے ہے۔ یہ غم و غصہ کسی ایک پروفیسر یا کسی ایک تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں سمیت ریاست کے تمام سیکورٹی اداروں اور عالمی سامراجی ممالک کے خلاف ہے۔ مڈل کلاس نوجوانوں میں پی ٹی آئی مقبول بھی اسی لیے ہوئی تھی کیونکہ وہ سٹیٹس کو سے مختلف نظر آرہی تھی، اگرچہ اب پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کافی کمی ہو چکی ہے، خاص طور پر حکومت میں آنے کے بعد۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کو نوجوان ایک لمبے عرصے سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے بارے میں ان کی یہ درست سوچ بن چکی تھی کہ موجودہ ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچانے میں ان پارٹیوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اسی لیے آج فوج سمیت تمام سیکورٹی اداروں کے خلاف بھی غصہ کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ لہٰذا اب کی بار جب طلبہ تحریک کا آغاز ہوگا تو محض اپنے فیسوں میں کمی یا ہاسٹل کے مسائل تک زیادہ عرصہ محدود نہیں رہے گا۔ طلبہ کی یہ بغاوت انتہائی کم وقت میں ایک بہت بڑی سیاسی بغاوت کی شکل اختیار کر جائے گی۔ چونکہ طلبہ کی بڑی تعداد آج بذات خود مزدور بن چکی ہے، لہٰذا طلبہ تحریک، مزدور تحریک کے ساتھ اپنا تعلق تیزی سے قائم کرے گی۔ اس طرح یہ بغاوت پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کر جائے گی۔
اوپر کی گئی بحث کی بنیاد پر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ طلبہ سیاست میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ آج کیمپسز کے اندر کی زندگی میں ایک معیاری تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ کیمپس کا رومانس، یاریاں دوستیاں، فراغت، شغل میلہ، سب کچھ معاشی بوجھ تلے دب چکا ہے۔ جہاں اس معاشی بوجھ نے یہ سب کچھ چھینا ہے وہیں طلبہ کو کچھ دیا بھی ہے۔ وہ ہے پورے نظام کے خلاف غصہ۔ ان تمام حکمرانوں سے نفرت جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دولتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے جبکہ یہ ذلت سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا آج طلبہ تحریک میں محض فوری مطالبات جیسے طلبہ یونین کی بحالی، فیسوں میں کمی وغیرہ تک محدود ہو کر بڑے پیمانے پر اسے منظم نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ عہد میں طلبہ سیاست کا بنیادی تقاضہ یہ بن چکا ہے کہ نظریاتی بحثوں کو اجاگر کیا جائے اور اہم سیاسی سوالات جیسے عالمی و ملکی معیشت اور سیاست کو کیمپسز میں زیر بحث لایا جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود اور نامیاتی بحران کو زیر بحث لایا جائے، اور سوشلسٹ معیشت کی برتری اور سوشلسٹ انقلاب کی ناگزیریت کو زیر بحث لایا جائے۔ آج نوجوانوں کی اکثریت ان سوالات کے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔ اسی طرح طلبہ کے اندر ملکی و عالمی مزدور تحریک کو بھی زیر بحث لایا جائے۔
سرمایہ داری کی بیڑیاں اور لامحدود امکانات
اب تک ہم فری لانسنگ کو تفصیل سے زیر بحث لائے ہیں، جس میں ہم نے اس کے بنیادی خدوخال، تیزی سے پھیلنے کی وجوہات، استحصالی کردار، اور پاکستانی سماج اور سیاست بالخصوص طلبہ سیاست پر اثرات پر بات کی ہے۔ اب ہم موجودہ اور مستقبل میں ہونے والی ٹیکنالوجی کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے فری لانسنگ اور بالعموم کام، اور اس کے ساتھ جڑے انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے بات کریں گے۔
حالیہ عرصے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں ہونے والی ترقی نے عالمی سطح پر کام کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ اے آئی آگے بڑھ رہی ہے، یہ جلد ہی ٹرک اور ٹیکسی ڈرائیوروں، ڈیٹا انٹری کرنے والوں، کسٹمر سروس ملازمین، صحافیوں، فیکٹری مزدوروں سمیت کئی اور نوکریاں چھین لے گی۔ یہ تمام کام اے آئی، تیز ترین انٹرنیٹ، مشین لرننگ اور روبوٹس سمیت دیگر ٹیکنالوجیز کے ذریعے خود کار (Automated) ہو جائیں گے۔ اس پس منظر میں یہ غلط نتیجہ بھی اخذ کر لیا گیا ہے کہ اے آئی انسان کی طرح شعور بھی حاصل کر سکتی ہے، اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر وہ انسانوں کو کنٹرول کرے گی اور دنیا کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھے گی وغیرہ۔ حالیہ عرصے میں ٹیکنالوجی سے جڑے بڑے سرمایہ دارجیسے ایمازون کمپنی کے مالک ایلون مسک سمیت اب تک کُل 27ہزار سے زائد لوگوں نے ایک خط پر دستخط کیے۔ ان میں ٹیکنالوجی سے جڑے کئی نامور لوگ شامل تھے۔ اس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ٹریننگ کرنے والی کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ ChatGPT4 سے زیادہ طاقتور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹمز تیار کرنے پر 6 ماہ تک پابندی لگائی جائے تا کہ اس دورانیے میں ہم اے آئی کے خطرات کو سمجھ کر ان پر قابو پا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پورے سماج اور معیشت کیلئے بہت خطرناک ہیں۔ یہ انسانوں سے نوکریاں چھین رہے ہیں اور مصنوعی وڈیوز، آڈیوز اور تصاویر بنا کر جھوٹا پراپیگنڈا کرنے کے کام آرہے ہیں، وغیرہ۔ اگرچہ ایلون مسک جیسے ٹیکنالوجی سے جڑے سرمایہ دار بذات خود اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ باتیں بھی اب گردش کر رہی ہیں کہ اس وقتی پابندی کے پیچھے بھی ان ٹیکنالوجی سرمایہ داروں کے ذاتی مفادات چھپے ہیں اور یہ چاہتے ہیں مقابلہ بازی سست ہو تا اور یہ اپنے منافعوں میں اضافے کو پہلے کی طرح جاری رکھ سکیں۔ہر آنے والی نئی ٹیکنالوجی اپنے ساتھ نئے کاروبار اور کمپنیاں بھی لے کر آتی ہے جس سے پہلے سے موجود سرمایہ داروں کی اجارہ داری ٹوٹتی ہے اور وہ منافع کی اس دوڑ سے باہر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک نوکیا دنیا میں موبائل فون بنانے والی سب سے بڑی کمپنی تھی لیکن سمارٹ موبائل فون آنے کے بعد نوکیا اس دوڑ سے باہر ہو چکی ہے اور دیگرکمپنیاں افق پر چھائی ہوئی ہیں۔اسی طرح اگرآئی ٹی کے شعبے کی موجودہ اجارہ داریاں اے آئی کو اپنانے اور استعمال کرنے میں پیچھے رہ جاتی ہیں تو وہ بھی سکڑ کر ختم ہو جائیں گی اور ان کی جگہ نئے لوگ اور کمپنیاں لے لیں گی۔اسی لیے یہ سرمایہ دار درحقیقت ٹیکنالوجی میں ترقی کا نہیں بلکہ اس کو روکنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کو اے آئی سے انسانیت کو درپیش نام نہاد خطرات سے سروکار نہیں بلکہ اپنے منافع کی ہوس سے پیار ہے۔ اے آئی کے استعمال سے جہاں ذرائع پیداوار ترقی کریں گے اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا وہاں اس طبقاتی سماج اور انتشار زدہ سیاسی و سماجی حالات میں ان کا مختلف جرائم یا انسانیت سوز کاموں کے لیے استعمال بھی ممکن ہے۔ لیکن ان خطرات سے نپٹنے کے لیے ترقی پر روک لگانے کی بجائے ترقی کے دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
بہر حال موجودہ صورت حال اس امر کی غمازی ہے کہ ذرائع پیداوار سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے آگے جا چکے ہیں۔ درحقیقت آج انسانیت کو ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ سرمایہ داری سے خطرہ ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر لگائے گئے الزامات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔ مثلاً یہ الزام کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس تمام انسانوں کی نوکریاں چھین لے گی، انتہائی بھونڈا اور گمراہ کن ہے۔ یہ نوکریاں اے آئی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کے نتیجے میں چھینی جا رہی ہیں۔ ہر نئی ٹیکنالوجی ہمیشہ سے ہی کئی لوگوں کے کام کو جہاں ختم کرتی آئی ہے وہیں نیا روزگار بھی پیدا کرتی آئی ہے۔ مثلاً کمپیوٹر کے آنے سے ڈیٹا انٹری کرنے والے کلرکوں سمیت ٹائپ رائٹرز پر کام کرنے والوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں مگر دوسری جانب پروگرامنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جڑی نئی نوکریاں پیدا بھی ہوئیں۔ مگر آج اے آئی کے آنے سے بڑی تعداد میں لوگوں کا کام تیزی سے ختم ہو رہا ہے جس میں مستقبل میں مزید اضافہ ہوگا۔ مگر اس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا زائد پیداوار پر مبنی نامیاتی بحران ہے۔ ان جدید ٹیکنالوجیز کا تمام انسانوں کی بہتری کیلئے مؤثر استعمال صرف تب ہی کیا جا سکتا ہے جب پوری دنیا کو منصوبہ بندی کے تحت چلایا جائے، جو کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں عالمی سطح پر سرمایہ داروں سمیت ریاستیں (جو کہ سرمایہ داروں کے مفادات کی ہی ترجمانی کر رہی ہوتی ہیں) بھی ایک دوسرے سے مقابلہ بازی میں ہوتی ہیں اور کوئی مرکزی منصوبہ بندی موجود نہیں ہوتی۔ جہاں تک بات جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جھوٹا پراپیگنڈا کرنے کی ہے تو وہ ان کے بغیر بھی دن رات ہر ٹی وی چینل سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر جگہ ہو ہی رہا ہے۔ اس سے چھٹکارا بھی ایک ایسے سماج میں ہی ممکن ہے جس میں نجی ملکیت موجود نہ ہو اور نوع انسان پاگلوں کی طرح زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی بجائے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پورے سماج کی بہتری کیلئے استعمال کر رہی ہو؛ یعنی کمیونزم میں۔
منصوبہ بند معیشت کے تحت موجودہ تکنیک، بالخصوص ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں شاندار ترقی کی بدولت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو آج انتہائی کم وقت میں جنت بنایا جا سکتا ہے۔ انفراسٹرکچر، تعلیمی نظام سمیت پورے سماج کو مکمل طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ 5G انٹرنیٹ، 3D پرنٹنگ، روبوٹس، ورچوئل ریئلیٹی (Virtual Reality) وغیرہ کی مدد سے انسانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے اور جدید شہر تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے شہر جن میں انسانوں کی ضرورت کے تحت ٹرانسپورٹ سے لے کر انفراسٹرکچر تک سب کچھ خوبصورتی کے ساتھ پلان کیا جائے۔ اسی طرح ماحولیات کیلئے تباہ کن ایندھن جیسے کہ تیل کی بجائے گرین انرجی کے استعمال کے ساتھ پورے ماحول کو بھی صاف ستھرا بنایا جا سکتا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شعبہ صحت میں بہت بڑی انقلابی پیش رفتیں ہو بھی رہی ہیں اور مستقبل میں مزید بھی ممکن ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلے تو سماجی ضرورت کے مطابق کئی نئے ہسپتال تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اے آئی اور مشین لرننگ کے ذریعے امراض کی پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ بہتر اور درست تشخیص ممکن ہے۔ سمارٹ واچز (Smart Watches) کی طرح کے دیگر آلات کے استعمال سے جہاں ایک طرف انسان اپنی صحت کا بہتر خیال رکھ سکتا ہے وہیں انٹرنیٹ کے ذریعے ڈاکٹر سے براہ راست رابطے میں بھی رہ سکتا ہے اور اپنی صحت کی مکمل رپورٹ بھی اپنے پاس محفوظ رکھ سکتا ہے۔ پوری دنیا کے امیر لوگ آج اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں مگر غریب محنت کش عوام کے پاس یہ سہولت موجود نہیں۔ اسی طرح جینیاتی (Genetic) سطح پر بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے بھی فی الحال کام جاری ہے اور کینسر سمیت دیگر بیماریوں کا علاج بھی مستقبل میں ممکن ہو سکتا ہے۔ طب سے جڑی یہ تمام ریسرچ اور ممکنات کافی تیزی سے ممکن ہیں مگر ان کے رستے میں سرمایہ داری کی منافع خوری کھڑی ہے۔ تعلیمی نظام کو بھی انقلابی بنیادوں پر تبدیل کیا جا سکتا ہے جس میں گھٹیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا خاتمہ کر کے جدید سرکاری تعلیمی ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں جن میں منڈی کیلئے مزدور پیدا کرنے کی بجائے انتہائی پڑھے لکھے اور تخلیقی انسان سامنے آئیں جو پورے سماج کی فلاح کیلئے کام کریں۔ اس مقصد کے تحت ورچوئل ریئیلیٹی سمیت دیگر تمام ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے نا صرف تعلیمی عمل کو انتہائی دلچسپ اور تخلیقی بنایا جا سکتا ہے بلکہ جہالت کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اگر جدید ترین ٹیکنالوجی اور تکنیک کا ایک سوشلسٹ معیشت میں منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا جائے تو موجودہ بحران اور بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایسے کئی کام ہیں جو انسان کیلئے مشکل اور خطرناک ہیں اور آج با آسانی مشینری کے ذریعے کرائے جا سکتے ہیں، جیسے شہروں کی صفائی ستھرائی، سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر وغیرہ۔ سرمایہ داری میں یہ تمام کام سستی محنت کے عوض انسانوں سے کرائے جا رہے ہیں مگر سوشلزم میں ایسے کام انسان نہیں کریں گے۔ اسی طرح اربوں انسان (محنت کش) ہر روز ایک ہی کام جو انتہائی اکتا دینے والا ہوتا ہے، کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے کام جن میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی تقسیم کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کیلئے جاتی ہے، لہٰذا مزدور مشین کا پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔ سوشلزم میں پیداوار چونکہ انسانی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کی جائے گی نہ کہ منافع کیلئے، لہٰذا نہ تو انسان روز ایک ہی کام کرنے پر مجبور ہوگا اور نہ ہی اس کا استحصال کیا جا رہا ہوگا۔ اس طرح انسان پہلی بار حقیقی معنوں میں آزاد ہوگا۔
کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے جرمن آئیڈیالوجی میں لکھا کہ:
”جیسے ہی محنت کی تقسیم کا آغاز ہوا، ہر انسان پر کچھ مخصوص اور خصوصی کاموں کی ذمہ داریاں آن پڑیں جن سے وہ جان نہیں چھڑا سکتا۔ وہ ایک شکاری ہے، مچھیرا ہے، گلہ بان ہے، یا پھر نقاد ہے، اور اسے لازماً یہی رہنا ہے وگرنہ اس سے زندہ رہنے کے ذرائع چھین لیے جائیں گے۔“
مارکس اور اینگلز آگے چل کر سوشلزم کے متعلق بتاتے ہیں کہ:
”۔۔۔جہاں کوئی شخص کسی مخصوص اور خصوصی کام تک محدود نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص کوئی بھی کام کر سکے گا، عمومی پیداوار کی ریگولیشن سماج خود کرے گا اور اس طرح میرے لیے یہ ممکن ہوگا کہ میں آج کوئی ایک کام کروں تو کل کوئی دوسرا، صبح شکار کروں، سہ پہر میں مچھلیاں پکڑوں، شام کو جانور پالوں، رات کے کھانے کے بعد بحث مباحثہ کروں، یعنی جو بھی میرا دل کرے، شکاری، مچھیرا، گلہ بان یا نقاد بنے بغیر۔“
سوشلزم میں ہی فری لانسنگ سمیت تمام تر استحصال، بیروزگاری اور بیگانگی سے بھرپور کاموں سے انسان کو آزادی ملے گی اور وہ تخلیق، تحقیق اور ایجادات سے صرف اسی سیارے کو ہی جنت نہیں بنائے گا بلکہ کائنات کو تسخیر کرے گا۔ انسان کے تخلیق کیے گئے فن سے نا صرف لطف اندوز ہو اجائے گا بلکہ نیا اور عظیم فن تخلیق کیا جائے گا۔ اینگلز کے الفاظ میں یہ جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں چھلانگ ہوگی۔