ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے!

|تحریر: امیر ایاز|

پچھلے ایک سال میں دنیا بھر میں لاکھوں نوجوانوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف فوری عملی اقدامات لینے کے لیے اپنے اپنے ممالک میں مظاہرے کیے۔ نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر قومی شاہراہوں کو جام کر دیا جس نے سیاست دانوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نوٹس لینے نے پر مجبور کردیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان تمام مظاہروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کے ذہنوں میں اجتماعی طور پر لڑنے کا جذبہ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ان مظاہروں کا آغاز پچھلے سال سویڈن میں ایک نوجوان سکول کی طالبہ گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں ہفتہ وار احتجاج کے طور پر شروع ہوا۔ #YouthStrike4Climate تحریک دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ممالک تک پھیل گئی اور یورپ سمیت دنیا کے تمام ممالک کے طلبہ اور نوجوانوں نے سیاسی عمل میں شامل ہوتے ہوئے ”ماحولاتی تبدیلی کی بجائے نظام کی تبدیلی“ کا مطالبہ کیا۔ اسی مہینے 20 سے 27 ستمبرکو ایک اور عالمی احتجاج کی کال دی گئی ہے جس میں کروڑوں نوجوانوں کی شرکت متوقع ہے۔یہ احتجاج دنیا کے ہر کونے میں کیے جائیں گے۔

یہ بات واضح ہے کہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مقابلے میں درجہ حرارت میں ہونے والی موجودہ تبدیلی بہت تیزی سے رونما ہورہی ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی وجہ سے اس برق رفتار تبدیلی سے مستقبل میں زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف ممالک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کی کٹائی میں ملوث ہیں جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ نائٹرس آکسائیڈ اور میتھین کا اخراج بھی ہورہا ہے تاہم ان کا مجموعی اثر کم ہے۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ 1750 سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 30 فیصد جبکہ میتھین کی مقدار میں 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت فضا میں جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے پچھلے آٹھ لاکھ سالوں میں کبھی نہ تھی۔ مزید یہ کہ درجہ حرارت کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سو سالوں میں دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں 0.8 درجے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں سے 0.6 درجے فیصد پچھلے تین عشروں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ خلائی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پچھلے چند عشروں میں سمندر کی سطح 3 ملی لیٹر سالانہ اونچی ہو گئی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پانی گرم ہو کر پھیل جاتا ہے۔ سمندروں کی سطح اونچی ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر واقع گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔ خلا سے لی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گلیشیرز میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔

گلیشیئرز کے پگھلنے کے مناظر۔

بین الاقوامی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی نے 2013 میں ایک تخمینہ پیش کیا تھا جس میں مختلف پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ممکن ہے۔ یہ پیشگوئی زمین پر موجود انسانوں اور جانوروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں صاف پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی ہے، خوراک کی پیداوار میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، سیلابوں، طوفانوں اور گرمی کی لہروں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اموات واقع ہو رہی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی عمل ہے اور بلا شبہ اس کا مقابلہ عالمی سطح پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں کئی مرتبہ دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان نے اس حوالے سے کانفرنسوں میں شرکت کی اور مختلف معاہدوں پر دستخط بھی کئے۔ چند بڑے ممالک کے سربراہان نے تو ‘climate emergency’ کا بھی اعلان کیا۔ مگر ان بڑے کاروباری سیاستدانوں کے منہ سے نکلا یہ فقرہ اندر سے بالکل کھوکھلا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں سرمایہ دارانہ طرز پیداوار میں سیاستدان اصل فیصلہ نہیں کرتے بلکہ انسانیت اور اس زمین کی تقدیر کا فیصلہ مارکیٹ کا نام نہاد ”پوشیدہ ہاتھ (invisible hand)“ کرتا ہے۔

گریٹا تھنبرگ نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ سائنسی تحقیقات اور سائنسدانوں کے مشوروں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اسی طرح Extinction Rebellion Movement کے کارکنان سیاستدانوں پر پریشر ڈالنے کے لئے براہِ راست عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

مگر سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی حکومتوں کو اخلاقی طور پر یا اعداد و شمار سے کا قائل نہیں کیا جاسکتا نہ ہی ان سرمایہ داروں سے ہماری زمین کو تحفظ پہنچانے کے لیے کوئی امید رکھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان کا واحد مقصد فطرت اور انسانی محنت کا استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ منافع بٹورنا ہوتا ہے۔ بڑی کارپوریشنز اپنے منافعوں میں اضافے کے لئے اس زمین اور ماحولیات کا استحصال کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں اور سرمایہ دار سیاستدانوں کے پاس اس تباہی کو روکنے کے لئے کوئی راستہ نہیں۔

یہاں یہ بات واضح کرنا بھی لازمی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر رونے والے ’لبرلز‘ اعدادوشمار سے منہ چرا کر بڑے کاروباروں کا تحفظ کرنے میں لگے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کی سو بڑی کمپنیاں، خاص طور پر تیل کی پیداوار کرنے والی والی کمپنیاں 70 فیصد گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں ملوث ہیں۔ اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا اصل قصوروار کون ہے۔ مگر لبرلز کی جانب سے ان کمپنیوں پر کبھی سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ہماری زمین کو تباہ کر رہا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے ایک طرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں میں بے تحاشہ دولت کا ارتکاز ہو رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کی اکثریت کا معیار زندگی گرتا جارہا ہے۔ یہ بڑی کارپوریشنز ہی ہیں جو یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کیا پیداوار ہونی چاہیے اور کس طرح سے ہونی چاہیے۔ مگر یہ کسی خاص لائحہ عمل کے تحت نہیں بلکہ مارکیٹ کی ضروریات کی مطابق ہوتی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جو نام نہاد زیرو گروتھ (zero growth) پالیسی کے مشورے دئیے جارہے ہیں جو بالکل بھی کارآمد نہیں ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار صفر پر پہنچنے کا مطلب کسادبازاری (recession) ہے۔ لہٰذا اس تباہی سے بچنے کے لیے اور اپنی زمین کو محفوظ کرنے کے لئے ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت (socially planned economy or socialism) کی ضرورت ہے۔ نجی ہاتھوں میں بڑی اجارہ داریاں بڑے پیمانے پر صنعتی فضلہ پیدا کرتی ہیں جس کی روک تھام صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی کر سکتی ہے۔ یعنی بڑی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے اور انسانوں کی اکثریت تک صاف پانی، بہتر خوراک، گھر، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور صحت کی سہولیات پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ہی دنیا کے بہترین سائنسی دماغوں اور محنت کشوں کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تحت سماج کی تکنیکی صلاحیت اور وسائل کو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی بنیاد سرمایہ دارانہ طرز پیداوار ہی ہے اور سرمایہ داری کے خلاف صرف عالمی سطح پر طبقاتی بنیادوں پر ایک فیصلہ کن جنگ ہی انسانیت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ضمانت دے سکتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ اور نوجوانوں کی انقلابی جڑت کو عالمی مزدور تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے، ایک واضح سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر اپنی ہڑتالوں کو منظم کیا جائے اور اس نظام کو اکھاڑنے کی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔

ستمبر (20 سے 27) کو ہونے والے احتجاجوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں!
سرمایہ داری کے خلاف محنت کش اور طلبہ ایک ہوجائیں!
سرمایہ داری تمام برائیوں کی جڑ ہے۔۔۔سوشلزم حل ہے!
نظام کے خلاف لڑائی میں، آئیں ہمارا حصہ بنیں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.