|تحریر: فیبریشیو واریلا، ترجمہ: فرحان رشید|
آمرانہ جبر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہنڈورس میں طبقاتی جدوجہد میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ کل ہی دارالحکومت ٹیگوسیگلپا کی نیشینل آٹونومس یونیورسٹی آف ہنڈورس (National Autonomous University of Honduras, UNAH) کے مین کیمپس پر حملے کے وہاں موجود ہمارے کامریڈز عینی شاہدین ہیں۔ جب مُسلح پولیس نے وہاں لوگوں پر جبر کرنے سے انکار کر دیا تو فوج کو یونیورسٹی میں بھیجا گیا جنہوں نے نہتے طلبہ پر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں چار طلبہ زخمی ہوئے۔ جیسا ہمارے کامریڈز نے بیان کیا کہ یہ واقعہ یونیورسٹی کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور طلبہ کی زندگیوں پر حملہ تھا۔
’جوان اولینڈو ہرنینڈز(Juan Orlando Hernandez) اور اس کی مقتدر نیشنل پارٹی کی غیرقانونی حکومت کے خلاف محنت کشوں کے حق میں آواز بلند کرتی طلبہ کی ابھرتی ہوئی تحریک کو کچلنے کیلئے طاقتور فوجی دستوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہاں ہم ہنڈورس میں عالمی مارکسی رجحان کے سیکشن کی جانب سے 23 جون 2019 کو لکھے گئے مضمون کا ترجمہ شائع کر رہے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیوں صرف صدر کا تختہ الٹنے تک ہی جدوجہدمحدود نہیں ہونی چاہیئے بلکہ سرمایہ داروں کی حکمرانی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا (25-06-2019)۔
جب ہم ہنڈورس کی آمریت کا ذکر کرتے ہیں تو بعض اوقات یہ سمجھنے میں مشکل درپیش آتی ہے کہ یہ ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ ہے جسے فردِ واحد نہیں بلکہ امیروں کے چند ٹولے چلا رہے ہیں۔ کئی سو سالوں سے یہ اکابرین اپنی مرضی سے صدر لاتے اور ہٹاتے رہتے ہیں۔ ان پسِ پردہ قوتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں امیدواروں کی ذاتی خواہشات (پروگرام) کی کوئی جگہ نہیں۔
ہنڈورس میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں عوام کی جانب سے ملک کو تباہ کرتے ہوئے بحران سے نکلنے کیلئے ’فوری مطالبے‘کے طور پر ”صدر جوان اورلانڈو ہرنینڈز کو باہر نکالو“ کا نعرہ نہ لگا ہو۔ مگر کیا معروضی حوالے سے صرف جوان اورلانڈو ہرنینڈز کا استعفیٰ کافی ہے؟
کئی تقاریر ایسی ہیں جو صدر جوان کی معزولی کو ملک کو درپیش مسائل کا حل بیان کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہنڈورس میں سیاسی طاقت کا اظہار صرف صدارتی دفتر سے نہیں ہوتا۔ کئی اور ملکوں کی طرح ہنڈورس میں بھی ریاست کا ابھار تین قوتوں کے میلاپ سے ہوتا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔۔۔
مقننہ
بظاہر یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کے مفادات کیلئے قانون سازی کا ذمہ دارہے۔ مگر درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس (اسمبلی) میں بیٹھے یہ نمائندگان جس سے یہ اداروہ چلتا ہے فقط حکمران طبقے کی دلالی کرتے ہوئے انہی کی خاطر قانون سازی کرتے ہیں۔ بورژوازی (سرمایہ دار) کسی جذباتی بنا پر ان روایتی سیاسی پارٹیوں کی کمپئین پر پیسے خرچ نہیں کرتی بلکہ یہ نمائندگان ہوتے ہی ان سرمایہ داروں کے نوکر ہیں۔ صحت، تعلیم اور بجلی کی نجکاری کی آزادی،قانون میں ترامیم، احتجاجوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں دہشتگردی کے واقعات قرار دینا، یہ سب اور بہت کچھ ان فیصلوں کی پیداوار ہوتے ہیں جو اسمبلی میں موجود بورژوا جماعتیں جن میں نیشنل پارٹی، دی لبرل پارٹی اور دیگر بورژوا اقلیتی دھڑے شامل ہیں، کرتے ہیں۔
عدلیہ
یہ وہ ادارہ ہے جسے سماج میں انصاف کی بالادستی کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ یہ ججوں اور عدالتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کا تاریخی طور پر کردار حکمران طبقے کا دفاع اور غریبوں کو کٹہرے میں لانا رہا ہے۔ ہنڈورس کی جیلوں مضحقہ خیز جرائم کی پاداش میں قیدی دیکھنے کو ملتے ہیں مثلا لوگ مرغی چوری کرنے کی وجہ سے آزادی سے محروم ہیں۔ جیسا کہ جنوبی خطے کے پچیس سالہ کسان ’جوس الواریز‘ کا معاملہ ہے جسے پولیس نے گرفتار کیا اور بعد میں دو سے پانچ سالہ قید کی سزا ملی۔ یہاں ایسے واقعات کی فہرستیں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ عدلیہ(جو انصاف کی بالا دستی کا ادارہ ہے) کیسے اس طبقے کا نمائندہ ہے جو پہلے تو غربت کو پیدا کرتا ہے اور پھر غریبوں کو، یونیورسٹی میں بہتر تعلیم کیلئے مظاہرہ کرنے والوں کو،خوراک مانگنے والے بیروزگاروں کو، اپنے جسموں کا فیصلہ کرنے کا حق مانگنے والی خواتین وغیرہ کو سزا دیتا ہے۔ مگر ایسا امیروں کے متعلق نہیں جنہوں نے ملک کو ہر لحاظ سے گندگی کے ڈھیروں میں بدل کے رکھ دیا ہے۔ جہاں ریاستی خزانے کو لوٹ لیا جاتا ہے مگر اس کے ذمہ داران کو سزا نہیں ملتی۔
ایسا ہی معاملہ (پبلک ہیلتھ انشورنس) کی لوٹ کھسوٹ میں ہواجس کے کئی ذمہ داران بغیر سزا کے رہائی پاگئے، باقی چند ایک جو مجرم پائے گئے وہ نرم و ملائم بستروں، جدید ٹیلی ویژنوں، اچھی غذاؤں اور من چاہی عیش و عشرت میں سکون دہ اسیری بھگت رہے ہیں۔ واقعات کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جہاں امراء کیلئے آزادی اور غرباء کیلئے کوئی انصاف نہیں۔ یہ سمجھنا آج ضروری ہے کہ ہنڈورس کے عدالتی نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔
انتظامیہ
یہ سرکار کی صدارتی برانچ ہے جو اس وقت ’جون اورلانڈو ہرنینڈز‘ کے زیرِ قیادت ہے۔ ہنڈورس کی تارخ میں ’مینوئل زیلایا‘ کے دورِ اقتدار (جسے 2009 میں سامراجی بغاوت نے ختم کیا) اور’فرانسسکو مورازان‘ (انیسویں صدی میں) کے دورِ اقتدار کے علاوہ کسی بھی سرکار نے ملکی خوشحالی کی حقیقی خواہش ظاہر نہیں کی۔ اس کے برعکس ہر آنے والی سرکار پچھلی سے زیادہ بھیانک تھی۔ یہی وجہ ہے جس کیلئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ موجودہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ہنڈورس کی ریاست کی بدحالی کا خاتمہ ممکن نہیں، کیونکہ یہ نظام سب کی خوشحالی اور انصاف کی ترویج کیلئے بنا ہی نہیں۔
آؤ محنت کشوں کے خون پرپلنے والی بورژوازی سے چھٹکارا پائیں!
LIBREپارٹی جو کہ ہنڈورس کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے (گو اسمبلی میں یہ نیشنل پارٹی کی نسبت اقلیت میں ہے اور انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے نیشنل پارٹی کے نمائندگان زیادہ ہیں) کو اپنی جدوجہد صرف قانون سازی تک محدود نہیں کرنی چاہیئے اور نہ ہی فقط انتخابات کے دوران لڑنا چاہیے۔ بلکہ اس کو لوگوں کے شانہ بشانہ اس نظام کے خلاف گلیوں میں جدوجہد منظم کرنا ہوگی۔
بورژوازی (bourgeois)کی نمائندہ جمہوریت صرف چند ارب پتیوں کے مفادات کیلئے ہوتی ہے۔ وہاں غریبوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی ہے۔ یہاں ایک ایسی ریاست ہونی چاہیئے جو محنت کشوں کے زیر انتظام ہو، جس میں ملکی معیشت کی منصوبہ بندی اور نظم و نسق محنت کشوں کے ہاتھ میں ہو۔
مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کہا تھا:
”جدید ریاستی انتظامیہ دراصل ساری بورژاوزی کے آپسی لین دین کی انتظامی کمیٹی ہوتی ہے۔“
جوان اورلانڈو ہرنینڈز فقط اس بورژوازی کا چہرہ ہے جو سینکڑوں سالوں سے ہنڈورس پر غالب ہے۔ ہم (محنت کش) ان (حکمرانوں) کے بتائے ہوئے اصولوں پر کھیل نہیں کھیل سکتے (مزید)۔ آج ایک انقلاب کی ضرورت ہے جس کے ذریعے تمام ذرائع پیداوار یعنی مشینری، ٹرانسپورٹ، آلات، جو فی الحال ایک چھوٹے سے گروہ (حکمران طبقہ) کے قبضے میں ہیں اور جو 90 لاکھ کی آبادی پر جبر کرنے کیلئے انکا استعمال کرتا ہے، پر محنت کشوں کا کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔ یہ سراسر ناجائز ہے کہ امیروں کا ایک چھوٹا سا گروہ سارے ملک کو گندگی کے ڈھیر میں بدل دے۔
یہ وقت ہے کہ جدوجہد کا رُخ اس نظام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے اور مکمل تبدیلی کی طرف کرنا ہوگا، جو پرانے امیر اور غریب کے طبقاتی نظام کو مکمل طور پر ختم کر کے رکھ دے۔ موجودہ نظام کی حدود کے اندر حزبِ اختلاف کی حکومت بھی صرف چند ایک بہتریاں ہی لاسکتی ہے۔ آخر میں اگر بورژوا طبقے سے وہ سب کچھ چھین کر محنت کشوں کے قبضے میں نہیں لیا جاتا، جو درحقیقت محنت کش طبقے کی ملکیت ہے تو ملک میں تبدیلی ممکن نہیں۔
اگر ہم حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو آؤ سرمایہ داروں کو بیدخل کریں!