فلم ری ویو:(میں آزاد ہوں)

یہ فلم 1989ء میں ریلیز کی گئی جس میں مرکزی کردار، بالی ووڈ کے سب سے مشہور و مقبول اداکاروں میں سے ایک، امیتابھ بچن نے نبھایا ہے۔ اس فلم کی ساری کہانی سماج کے عام اور مظلوم پرتوں کے مسائل، اور حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے خلاف ان کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔

اس کے آغاز میں امیتابھ بچن کا کردار اپنے دوست کے ساتھ خوراک اور رہائش کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانے والے ایک کا شخص ہوتا ہے جو کسی ایک شہر یا گاؤں میں نہیں ٹھہرتا، جس میں قیادت اور بول چال کی صلاحیتیں دیکھ کر ایک شخص، جو ایک اخبار اور کئی دیگر کاروباروں کا مالک ہوتا ہے، اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بزنس مین ہر کاروبار میں تسلی بخش منافعے کما رہا ہوتا ہے مگر اس کے اخبار کا کاروبار گھاٹے میں جا رہا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے صحافیوں سے اخبار میں سنسنی خیز خبریں اور مضامین چھپوانے کا کہتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک فرضی ”آزاد“ نامی عام آدمی کے خطوط کی اشاعت شروع کر دی جاتی ہے، جس سے عوام شدید متاثر ہو کر اس سے ملاقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اخبار کے جھوٹ کو چھپانے کے لیے امیتابھ سے اس فرضی کردارکو نبھانے کا کام لیا جاتا ہے۔
امیتابھ جب عام طلبہ، کسانوں اور مزدوروں کے بیچ کام کرتا ہے تو ان کے شدید مسائل کے اس کے شعور پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ اخبار کے مالک اور صحافیوں کے اشاروں پر ناچنا بند کر کے حقیقی معنوں میں عوام کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ امیتابھ کے ڈائیلاگ اور تقریروں میں نہایت سادہ الفاظ میں سرمایہ دارانہ نظام کے اصل چہرے کو دکھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس فلم کو عام محنت کشوں تک سیاسی پیغام پہنچانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پورے فلم میں ایک ہی گانا ہے؛ ”کتنے بازو، کتنے سر“، جو امیتابھ نے خود اپنی آواز میں ریکارڈ کرایا ہے۔ فلم دیکھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ سماج میں رائج نظام کے خلاف مزاحمت ایک نا گزیر عمل ہے اور جب بھی کوئی حقیقی عوامی تحریک ابھرتی ہے تو پھر اس کو قابو میں کرنا حکمرانوں کے بس میں نہیں ہوتا۔ البتہ نظام کی تبدیلی کے لیے عوام کا ایک انقلابی پارٹی اور پروگرام کے تحت منظم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، جو ان کی جدوجہد کو روزمرہ کے مطالبات کی محدودیت سے آگے لے جانے کا کام سر انجام دیتی ہے۔

فلم کا پلاٹ انتہائی خوبصورت ہے جو ناظرین کی توجہ آخر تک اپنی جانب مبذول کروائے رکھتا ہے۔ فلم میں واضح نظر آتا ہے کہ ایک فرضی کردار کو جب ایک حقیقی انسان میں تبدیل کیا جاتا ہے اور وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں اور حقیقی تحریکوں میں مداخلت کرتا ہے تو اس میں کیا تضادات پیدا ہوتے ہیں اور وہ کہانی کار کے بتائے گئے رستے کی بجائے اپنا رستہ کیسے اختیار کرتا ہے اور کہانی کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ نتیجے سے مختلف ہو جاتا ہے۔ یہ تکنیک استعمال کرنا مشکل ہے لیکن اس فلم میں انتہائی مہارت کے ساتھ اس کو پیش کیا گیا ہے اور پلاٹ پر ڈائریکٹر اور مصنف کی گرفت کہیں بھی کمزور نہیں پڑتی۔ بڑے سے بڑا دانشور بھی کسی حقیقی تحریک اور جدوجہد کا نتیجہ پہلے سے طے نہیں کر سکتا بلکہ اس تحریک میں موجود افراد اور طاقتوں کا توازن اس کا رستہ اورانجام طے کرتے ہیں۔ اگر اس تحریک میں انقلابی نظریات سے لیس منظم کارکنا ن کا ایک فعال گروہ شامل ہو اور وہ درست لائحہ عمل اور طریقہ کار کا انتخاب کریں تو تحریک کو دشمن کے تمام تر حملوں اور جبر کے باوجود کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.