|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
آج سے دو ماہ قبل پانی کو ترستا پاکستان آج خیبر پختون خواہ کے پہاڑی علاقوں سے لے کر سندھ کے صحراؤں تک ڈوبا ہوا ہے۔ موجودہ سیلاب اپنی وسعت اور تباہی کے اعتبار سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے۔ 160 اضلاع میں سے 81 اضلاع اس سے متاثر ہو چکے ہیں اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ تیس لاکھ لوگوں کے گھر برباد ہوچکے ہیں۔ 246 سے زائد پل تباہ ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں ایکڑ فصلیں اور زمین پانی نگل چکا ہے اور سیلاب سے تباہی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ریاستِ پاکستان کے وزیر خزانہ کے مطابق سیلاب کے سبب پاکستانی معیشت کو تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ابھی تک ہوچکے نقصانات کے حوالے سے یہ انتہائی محدود اندازہ ہے۔ سیلاب کے سبب ہونے والے مستقبل کے نقصانات کو اگر شامل کیا جائے تو حقیقی اعدادو شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔
لاکھوں مویشیوں کا ضیاع دیہاتوں کی معیشت پر شدت سے اثر انداز ہوگا اور فصلوں کے نقصان کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ سندھ میں پیدا ہونے والی 80 فیصد کپاس سیلاب کی نظر ہوچکی ہے اور دیگر صوبوں کا بھی یہی حال ہے۔ کپاس کے ساتھ ساتھ دیگر فصلوں اور پھلوں کو بھی شدید نقصان ہوا جو پاکستان کے عوام کے لیے روزگار کے بڑے ذرائع ہیں۔ اس سے صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام سیلاب زدگان کی کمر ٹوٹ چکی ہے انہوں نے پہلے کرونا کا ظلم سہا، پھر 25 فی صد سے زائد افراطِ زر سہا، لمپی سکن کی وبا سے مار کھائی اور اب سیلاب نے ان سے ان کے گھر، مویشی، روزگار اور زندگی کی امید بھی چھین لی ہے۔
اس طرح کے ہنگامی حالات میں ریاست کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ریاستی اہلکاروں اور سرمایہ داروں کی عیاشیوں کی بجائے تمام وسائل کو فوری طور پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے استعمال کرے۔ ان کے لیے خوراک، گھر اور صحت کی سہولیات کا انتظام کرے، مگر یہ سرمایہ دارانہ ریاست عوام سے اس قدر بیگانہ ہوچکی ہے کہ اس نے سیلاب میں بہتے، بلکتے لوگوں کو خاطر میں لانا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ جب عالمی میڈیا اسے رپورٹ کرنے لگا تب کہیں جا کر اپنی انتخابی مہم اور سیاسی جنگ میں مصروف ان سفاک حکمرانوں نے محنت کش عوام (جنہیں یہ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں) کی جانب دیکھا اور محض جھوٹی لفاظی اور مگر مچھ کے آنسوؤں کے علاوہ عوام کو کچھ بھی مہیا کرنے سے قاصر رہے۔ اور جو تھوڑا بہت ریاست کی جانب سے کیا بھی گیا وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے اور ان غلیظ حکمرانوں کی عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے ایک بار پھر عوام کے زخموں اور دکھوں کو بیچنے کی روایت کو برقرار رکھا گیا اور عالمی دنیا سے مدد کی اپیل کی گئی۔ جو کام ریاست کی اولین ذمہ داری بنتا ہے وہ ریاست کی بے حسی کے باعث محنت کش عوام نے خود سر انجام دیا۔ لوگوں نے اپنی حد تک سیلاب زدگان کی مدد کی اور عوام کی جانب سے امدادی کروائیاں ابھی بھی جاری ہیں۔ مگر اس آفت کا مقابلہ انفرادی سطح کی کاوشوں سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس سیلاب کی ساری ذمہ داری عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اس ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس آفت کی ذمہ دار بھی یہ نااہل ریاست اور اس کی عوام دشمن پالیسیاں ہیں اس لیے اس کی ساری ذمہ داری بھی اسی کی بنتی ہے۔ اگر حکمران طبقے کی عیاشیوں اور لوٹ مار اورمنافع پر مبنی اس نظام کو ختم کیا جائے تو آج اتنے وسائل موجود ہیں کہ تما م انسانوں کوگھر، روٹی، کپڑا صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات بالکل مفت فراہم کی جاسکتی ہیں۔
سیلاب کی یہ صورتحال تعلیم کے شعبے کو بُری طرح متاثر کررہی ہے۔ سیلاب کے تعلیمی اداروں پر اثرات کے حوالے سے جو شماریات اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق تقریباً 18 ہزار سکول متاثر ہوئے ہیں، دیگر تعلیمی ادارے اس کے سوا ہیں جس سے تقریباً 7 لاکھ طلبہ کا تعلیمی مستقبل متاثر ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ سیلاب سے پہلے بھی ہر پڑھ سکنے والا بچہ سکول میں ہی پایا جاتا تھا بلکہ دو کروڑ سے زائد بچے بچیاں تعلیمی اداروں سے محروم تھے اور کرونا کے دوران ہم نے یونیورسٹی اور کالجوں کی طرف سے آن لائن ایجوکیشن کے نام پر تعلیم کے مذاق بن جانے کا تماشا بھی دیکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیلاب تعلیم کی دستیابی پر بہت سے نئے سوال اٹھا رہا ہے۔ ایک طرف سکولوں اور کالجوں کی کمی مسئلہ بن چکی ہے تو دوسری طرف سیلاب زدگان کی معاشی حالت سے بھی انتہائی خستہ حال ہوچکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھیجنے کی گنجائش ہی نہیں رکھتے۔
جہاں پر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی کرے وہیں پر معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے بعد سیلاب سے متاثرہ طلبہ کو تعلیم کی مسلسل فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ سیلاب سے تباہی کے باعث اس وقت تعلیم کا حصول ناممکن ہوچکا ہے ایک طرف تعلیم کا دھندہ کرنے والی یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیسیں طلبہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو وہیں ہاسٹل کے واجبات سے لے کر خوراک سمیت تمام تر بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی طلبہ کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں مختلف یونیورسٹیوں اور حکومت کی جانب سے فیسیں مؤخر کرنے یا پچیس فیصد کی رعایت کی ڈرامے بازی کی جاری ہے۔ اس میں متعدد طلبہ کی جانب سے یہ اطلاعات آئی ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ تعاون نہین کر رہی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سراسر ڈرماے بازی ہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فیسیں مؤخر کرنے کی پالیسی سیلاب سے تباہ حال طلبہ کا مذاق اڑانا ہے جو کہ پاکستان کے حکمرانوں کی سفاکی کو واضح کرتا ہے۔ یہ کسی صورت ممکن ہی نہیں کہ اپنے روزگار اور ساری جمع پونجی لٹ جانے کے بعد یہ خاندان ایک سال بعد اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرسکیں گے۔ موجودہ کیفیت میں اگر فیس مؤخر کی بھی جاتی ہے تو بھی ہاسٹل، کھانے اور کتابوں سمیت دیگر ضرورت کی اشیاء کے اخراجات ان زبوں حال طلبہ کی معاشی حدود سے باہر ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ تمام بچوں اور نوجوانوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کا اولین فریضہ ہے اور طلبہ کا آئینی حق بھی ہے۔ اس لیے ریاستی اہلکاروں کی عیاشیوں، بیرونی و اندرونی قرضوں اور غیر پیداواری کاموں پر خرچ ہونے والی عوام کی خون پسینے کی کمائی کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے اور سیلاب زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی فیسوں کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ہر سطح پر تعلیم کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ بالخصوص ریاست سیلاب سے متاثرہ طلبہ کو ہنگامی بنیادوں پر مفت رہائش فراہم کرے اس کے ساتھ ہی مفت میس اور کتابیں اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا جائے۔
اس حوالے سے یہ جواز فراہم کیا جانا معمول ہے کہ سیلاب سے متاثرہ طلبہ میں سے حقدار طلبہ کا ریکارڈ مرتب کرنا مشکل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔ اول تو تمام تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے پاس طلبہ کا مکمل ریکارڈ موجود ہے نیز ہر ڈپارٹمنٹ لیول پر اس طرح کا عملہ موجود ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ہی دن کے اندر تمام تر ریکارڈ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس مشکل وقت میں طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور طلبہ کے بنیادی حقوق کے حصول اور اس نظام کی انقلابی بنیادوں پر تبدیلی تک نامصالحت جدوجہد جاری رکھے گا۔