کائنات کے اسرار و رموز کی جستجو اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی خلا میں لانچنگ

|تحریر: سہیل راٹھور|

حال ہی دسمبر 2021 ء میں ناسا امریکہ، یورپی خلائی ایجنسی اور کینیڈین سیٹلائٹ آبزرویٹری نے مشترکہ طور انسانی تاریخ کی جدید ترین، سب سے پیچیدہ اور مہنگی ترین خلائی دوربین جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ (JWST) کو لانچ کیا ہے۔ جیمز ویب دوربین لانچ ہونے کے ٹھیک ایک ماہ بعد 24 جنوری کو زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور اپنے طے شدہ مدار یعنی لیگرینج پوائنٹ (چاند سے چار گنا دور) میں پہنچ چکی ہے۔

دنیا بھر کے ہزاروں ماہر سائنسدانوں اور انجئینیرز کی انتھک محنت اور دس ارب ڈالر کے خطیر بجٹ کے ساتھ بننے والی ویب خلائی دوربین 25 سال کے طویل عرصے میں مکمل ہوئی۔ مجموعی طور پر 6200 کلو گرام کے وزن کے ساتھ یہ خلائی دوربین ایک گردش کرنے والی انفراریڈ آبزرویٹری ہے جو آنے والے 10 سال تک ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی دریافتوں کی تکمیل اور توسیع کرے گی۔

ہبل سپیس ٹیلی سکوپ کی جانشین کے طور پر ویب دوربین ہبل (HST) سے سو گنا زیادہ جدید، طاقتور اور اتنا ہی وزن میں کم ہے۔ ویب دوربین کا مرکزی آئینہ (پرائمری مرر) 21.3 فٹ ہے جو کہ ہبل ٹیلی سکوپ سے چھ گنا زیادہ بڑا ہے۔ ویب دوربین کا یہ آئینہ روشنی کی طویل ویولینتھ کوریج اور بہت بہتر حساسیت کے ساتھ پہلی کہکشاؤں اور ستاروں کی تشکیل کے پنہاں رازوں کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ خلائی سحاب (نیبولا) کے اندر دیکھنے کے قابل بنائے گا جہاں آج ستارے اور سیاروں کے نظام بن رہے ہیں۔

دوربین کو بنیادی طور پر انفراریڈ میں روشنی کا پتہ لگانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تا کہ اولین کہکشاؤں اور ستاروں جیسے مظاہر کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ چونکہ یہ انفراریڈ ٹیلی سکوپ صرف انتہائی کم درجہ حرارت (-233celsius (پر ہی اپنا مشن سرانجام دے سکتی ہے، اس لئے اس کے مررز اور دیگر آلات کو سورج کی تھرمل تابکاری سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے دوربین میں تقریباً 150 مربع میٹر (1600 مربع فٹ) رقبے، یعنی کم و بیش ایک ٹینس کورٹ کے سائز کی ہیٹ شیلڈ لگائی گئی ہے۔ چونکہ مکمل طور پر کھلی ہوئی حالت میں جیمز ویب کا سائز اتنا زیادہ تھا کہ کوئی راکٹ اسے اپنے اندر سمو نہیں سکتا تھا، اس لیے ہیٹ شیلڈ اور آئینہ دونوں کو تہہ کر کے لانچ کیا گیا ہے اور جب دوربین اپنے مقررہ مدار میں پہنچ جائے گی تو کھل جائے گی۔

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ ایک طرح سے طاقتور ٹائم مشین کی طرح کام کرے گی۔ کیونکہ یہ اس روشنی کو اپنی گرفت میں لے گی جو خلاء میں 13.5 ارب سالوں سے سفر کر رہی ہے، جب ابتدائی ستارے اور کہکشائیں بن رہے تھے۔

ویب کی انفراریڈ روشنی کے لیے بے مثال حساسیت ماہرین فلکیات کو قدیم ترین کہکشاؤں کا موازنہ کرنے میں مدد کرے گی، یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرے گی کہ کہکشائیں اربوں سالوں میں کیسے، کب اور کتنے عرصے میں تشکیل پائی ہیں۔

اس کے علاوہ ہماری اپنی کہکشاں (ملکی وے) کے اندر بہت کچھ دیکھنے کے ساتھ ساتھ، ویب ہمیں دوسری کہکشاؤں کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات دے گی۔ اسی طرح سورج کے علاوہ دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے مزید سیاروں کی دریافت اور ان کی خصوصیات کے بارے میں بتائے گی اور کائنات میں ہبیٹیبل زونز (جہاں زندگی ممکن ہو) بھی کھوجے گی۔

ویب کا بنیادی آئینہ 18 چھوٹے سیگمینٹ آئنوں پہ مشتمل ہے۔ اور سب سیگمنٹ سونے کے پانی سے ڈھکے ہوئے ہیں، جو انہیں انفراریڈ روشنی کی عکاسی کرنے کے لیے بہتر بناتا ہے (کوٹنگ اتنی باریک ہے کہ انسانی بال بھی اس سے 1000 گنا زیادہ موٹاہوتاہے)۔

بقول ناسا ویب خلائی دوربین اتنا حساس ہو گا کہ چاند کے فاصلے پر موجود مکھی کا ہیٹ سگنیچر کا پتہ لگا سکتا ہے، اور تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک امریکی پیسے (سکے) کے سائز کی تفصیلات دیکھ سکتا ہے۔

مشن کے اہداف

ابتدائی کہکشاؤں اور ستاروں کو تلاش کرنا۔ اس بات کا تعین کرنا کہ کہکشائیں اپنی تشکیل سے اب تک کیسے ارتقا پذیر ہوئیں۔ ابتدائی ستاروں کی تشکیل سے لے کر ستاروں کے اب تک کے ارتقا اور سیاروں کے نظام کی تشکیل کا مشاہدہ کرنا۔ ہمارے سورج کے علاوہ دیگر ستاروں کے گرد موجود سیاروں کے نظاموں کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات کی پیمائش کرنا اور ان نظاموں میں زندگی کے امکانات کی چھان بین کرنا۔

اب تک کی پیش رفت

ویب ٹیلی سکوپ کو اپنے مدار میں پہنچے ہوئے ایک ماہ ہونے جو ہے اور اس کو مکمل طور پر آپریشنل ہونے میں مزید 5 ماہ لگیں گے۔ ان ماہ میں ویب کی مختلف حصوں اور آلات کو ترتیبی طور سیٹ کیا جائیگا جس میں اب تک؛ ہیٹ شیلڈ اور سولر اریز کے آلات کے تحت موزون درجہ حرارت تک مستحکم کردیا گیا ہے، اور بنیادی اور ثانوی آئینے ترتیب دیے جا چکے ہیں۔ جس سلسلے میں 18 سیگمنٹ آئینوں کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کے لئے ایک ستارے کو مسلسل 26 گھنٹوں تک مشاہدے میں رکھا گیا ہے اور سیگمنٹ آئینوں کو اس ستارے کے 18 مختلف نتائج کے ساتھ ایک تصویر حاصل کی گئی ہے۔ بعد ازاں ان سب کو مجموعی طور پر ایک حتمی تصویر کی شکل دی جائیگی۔

اب تک ویب ٹیلیسکوپ 82 فیصد تک آپریشنل ہونے کیلئے تیار ہے۔ چند اور ماہ تجرباتی مرحلوں سے گزرنے کے بعد بلآخر جون کے آخر میں اس کا حتمی اہداف کیلئے باضابطہ طور پر آغاز کیا جائے گا۔

ویب ٹیلی سکوپ کی دریافتوں سے اس پرپیچ، پیچیدہ اور لامحدود کائنات کی کھوج کے نئے دروازے کھلیں گے جس کے ذریعے ہم قائم شدہ نظریات اور سائنسی فلسفوں کی تصدیق کر سکیں گے اور اس کائنات کی فطرت اور اس کے ارتقاء کو سمجھ سکیں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.